اور ایک دوسری دلیل ملاحظہ کریں۔
سنن ابن ماجه شریف ، کتاب الأضاحی، باب عن کم تجزی البدنة والبقرة میں ہےکہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ (کے مقام) میں ہم لوگوں نے اونٹ اور گائے دونوں کو سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی کیا تھا۔
اور ایسا ہی ایک اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے، چناں چہ ایک تیسری حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اونٹ سات حصہ داروں کی طرف سے کافی ہے،اور گائے بھی سات کی طرف سے کافی ہے۔ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ اور گائے، سات سات افراد کی طرف سے ذبح کیے۔
اور ایسا ہی فقہ حنفی کے معتر و مستند کتابوں میں بھی ہے
در مختار میں ہے:”تجب شاۃ أو سبع بدنۃ ھی الإبل و البقر، و لو لأحدھم أقل من سبع لم یجز عن أحد، و تجزی عما دون سبعۃ بالأولی“
ترجمہ : ایک بکری یا بڑے جانور جیسے اونٹ اور گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کا ساتویں حصے سے کم ہو ،تو کسی ایک کی طرف سے بھی جائز نہیں ہو گی اور اگر شریک سات سے کم ہیں، تو قربانی بدرجہ ٔ اولیٰ جائز ہے۔
(در مختار مع رد المحتار، جلدنہم،ص: ۵٢۴، ۵٢۵)
بدائع الصنائع میں ہے:
"والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: *البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة*،
وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم *البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة* من غير فصل بين أهل بيت وبيتين؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح وأنه فعل واحد لايتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقًا فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة.
ومنهم من فصل بين البعير والبقرة، فقال: البقرة لاتجوز عن أكثر من سبعة، فأما البعير فإنه يجوز عن عشرة، ورووا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «البدنة تجزي عن عشرة»، ونوع من القياس يؤيده؛ وهو أن الإبل أكثر قيمة من البقر؛ ولهذا فضلت الإبل على البقر في باب الزكاة والديات فتفضل في الأضحية أيضًا.
(ولنا) أن الأخبار إذا اختلفت في الظاهر يجب الأخذ بالاحتياط وذلك فيما قلنا؛ لأن جوازه عن سبعة ثابت بالاتفاق* وفي الزيادة اختلاف؛ فكان الأخذ بالمتفق عليه أخذًا بالمتيقن، وأما ما ذكروا من القياس فقد ذكرنا أن الاشتراك في هذا الباب معدول به عن القياس، واستعمال القياس فيما هو معدول به عن القياس ليس من الفقه"۔
ان ساری مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک اونٹ میں صرف سات ہی حصے ہوسکتے ہیں ۔ اس سے زائد نہیں۔
اور چودہ سو سال کے زائد عرصے سے جمہور مسلمانوں کا اسی پر عمل رہا ہے اور آج تک اس عمل پر کسی فقیہ و مجتھد نے کوئی اعتراض نہ کیا اور آئمہ مجتہدین و فقہاء کرام سبھی کا یہی کہنا ہے کہ اونٹ میں صرف سات حصے ہوسکتے ہیں۔ اب چند سالوں سے غیر مقلد نام ایک نوپید اور باطل فرقہ ہے جو جمہور مسلمانوں کا بدخواہ ہے، اسی باطل فرقہ نے غریب روایات سے استدلال کیا ہے کہ دس حصے ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ استدلال غلط ہے اس لیے کہ یہ روایت غریب ہے اور غریب روایت سے حکم شرعی ثابت نہیں ہوتا۔
ترمذی شریف میں دس حصے والی روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا گیا :’ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ، بَابُ الاَضْحِیَةَ‘ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ چودہ سو سالہ جاری عمل کو اختیار کریں اور گمراہ فرقوں کے فتنہ سے اپنے کو محفوظ رکھیں۔ فقط واللہ تعالی اعلم جل جلالہ و رسولہ المعظم اعلم ﷺ
کتبہ
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
پیشکش محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی
0 Comments