روزہ رکھنے کی حکمت، روزہ کیوں فرض ہوا، سحری و افطار کیوں کیا جاتا ہے، روزہ کیلئے مہینہ کیوں خاص کیا گیا

مسئلہ:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل میں کہ(۱): لوگ روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ (۲) روزہ کے لیے خاص مہینہ کیوں مقرر ہوا ؟ (۳) روزہ رکھنے میں سحری کیوں کھانا ہوتا ہے؟

الجواب

سوالات نہایت جاہلانہ قسم کے ہیں، بندہ کو چاہئے کہ شان بندگی میں رہے اور احکام الہیہ پر اعتراض نہ کرے اور یہ خیال کرے کہ جب میرا خالق و مالک حکیم مطلق ہے تو اس کا ہر حکم حکمتوں پر مبنی ہے۔ ہم اپنے دنیاوی امور میں اگر طبیب و حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ، جب وہ مرض کی تشخیص کرتا ہے اور دوائیں تجویز کرتا ہے اور پرہیز بتاتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ یہ دوائیں اس طرح اس وقت استعمال کرو اور فلاں فلاں چیزوں سے پر ہیز کرو تو ہم اس کا حکم مان لیتے ہیں اور اس کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کرتے ہیں اور اشیائے ممنوعہ سے اجتناب کرتے ہیں۔ ہمیں طبیب وغیرہ پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں کہ حکیم صاحب آپ نے فلاں دوا کیوں تجویز کی اور فلاں چیز سے پر ہیز کا حکم کیوں دیا تو اپنے خالق و مالک حکیم مطلق کے کسی حکم پر کوئی اعتراض کریں ، ہمارے لیے کسی طرح زیبا نہیں۔ ہم اپنے کسی مقدمہ میں بڑے سے بڑے پیرسٹر کو پیروکار بنائیں تو اسکی ہر پیروی ، ہر بات قابل تسلیم ہوتی ہے۔ ہمیں اس کی کسی پیروی پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں تو پھر اپنے رحیم وکریم احکم الحاکمین جل وعلا کے کسی حکم پر اعتراض کریں، کس طرح شایاں ہو سکتا ہے!؟۔

روزہ رکھنے کی حکمت، روزہ کیوں فرض ہوا، سحری و افطار کیوں کیا جاتا ہے، روزہ کیلئے مہینہ کیوں خاص کیا گیا.


پھر ہماری عقل قاصر اور سائل کی قابلیت و مبلغ علم ہی کیا کہ احکام الہیہ کی حکمتوں کو کما حقہ سمجھ سکیں ، اور ان کا ادراک کر لیں

آج دنیاوی حکومت کوئی حکم نافذ کرے ہم اس کی حکمتوں کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، پھر احکم الحاکمین کے کسی حکم کی حکمتوں کو سمجھ لیں غیر ممکن ہے ۔

جناب سائل سے سوال ہے کہ آپ نے پہلے خلقت الہیہ کی حکمتوں کو سمجھ لیا ہوتا جب احکام الہیہ کی حکمتوں کو دریافت کرتے ۔ کیا آپ نے خلقت الہیہ کی تمام حکمتوں کا ادراک کر لیا ہے، جو احکام الہیہ کی حکمتوں کو دریافت کرتے ہیں ۔

تو کارزمین را نکو ساختی،

که با آسمان نیز پرداختی

اگر آپ سے میں خلقت الہیہ کی حکمتوں کے بارے میں سوالات کروں تو آپ اس کی حکمتوں کے بتانے سے قاصر رہیں گے ۔ مثلا اگر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ اللہ تعالی نے انسان کے لیے دو آنکھیں کیوں بنائیں؟ کیا ایک آنکھ سے بینائی کا کام انجام نہیں پاسکتا تھا!؟ یا تین چار پانچ آنکھیں کیوں نہیں بنائیں؟ پھر دو آنکھوں کو بنانا تھا تو چہرہ پر کیوں؟، سر پہ بناتا یا ایک چہرہ پر، ایک سر پر یا ایک پیچھے بناتا، ایک سامنے بناتا، یا ایک سر پر بناتا ایک پیٹھ پر یا ایک چہرہ پر بناتا ایک پاؤں پر علی ہذا القیاس۔ یا اگر یہ سوال کیا جائے کہ ناک سے غلیظ چیز نکلتی ہے، اس کو اسی مقام پر رکھتا جہاں سے غلیط چیزیں نکلتی ہیں، یعنی مخرج بول و براز کے قریب رکھتا۔ چہرہ پر ناک بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ تو سائل متحیر و تعجب ہوں گے۔ وغیر ذالک من الامثال.

اب سوالات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں۔ یہ وہ جواب ہیں جو میری عقل قاصر میں آئے ہیں اور اللہ تعالی کی حکمتیں ان.جوابوں میں منحصر نہیں، بلکہ اس کے ہر حکم میں بے شمار حکمتیں ہیں۔ جن کے ادراک سے عقول انسانیہ قاصر و عاجز ہیں۔

(1) روزہ اس لیے رکھتے ہیں کہ حکم الہی پر عمل کر کے آخرت کی زندگی کو کامیاب بنائیں اور نفس کے حکم کو حکم الہی کے مقابلہ میں توڑ ڈالیں ۔ شہوات وخواہشات کی مخالفت کریں اور ان کو کمزور کر ہیں۔ جن لوگوں کو بآسانی کھانا میسر آتا ہے، انھیں روزہ رکھنے سے بھوک اور پیاس کی کیفیت اور تکلیف معلوم ہوتو وہ بھوکوں اور پیاسوں کی حالتوں پر ترس کھا کر ان کی امداد و اعانت کریں اورجن لوگوں کو کھانا میسر نہیں آتا انہیں بھوک اور پیاس پر صبر کرنے کی عادت ہو جائے ۔ واللہ تعالی اعلم

(۲) اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جس کام کے لیے وقت مقرر ہوتا ہے وہ کام با آسانی انجام یا جاتا ہے ورنہ ٹالتے ٹالتے وہ کام ٹل جاتا ہے۔ اگر روزہ کے لیے بھی وقت و ماہ مقررنہ کیا جاتا تو محرم سے لے کر ذی الحجہ تک ٹالتے ٹالتے روزہ قضا ہوجاتا، نیز ماہ مقرر کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی مہینہ میں روزہ رکھتے ہیں، ہر شخص دوسرے شخص کو روزہ دار دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور غیر کو اپنا جیساروزہ دار دیکھ کر اسے صبر وسکون ہوتا ہے کہ تنہا میں ہی نہیں بھوکا پیاسا ہوں بلکہ سب کا ایک ہی حال ہے۔ واللہ تعالی اعلم ۔

(۳)سحری کھانے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ کمزور ہیں اور بھوک پیاس کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے وہ سحری کھا کر بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کرنے پر قادر ہو جائیں اور جولوگ طاقتور ہیں وہ سحری کے لیے انھیں تو سحری بھی کھا ئیں اور کچھ عبادت و طاعت بھی کریں نیز سحری اخیر شب میں کھائی جاتی ہے جو بڑے آرام وراحت کا وقت ہے۔ ایسے وقت میں اٹھنااور کھانا اس میں کر نفس بھی ہے۔ واللہ تعالی اعلم.

(حبیب الفتاوى)

Post a Comment

0 Comments