پرانی مسجد کو شہید کرکے اس کے نچلے حصے میں پارکنگ اور اوپر مسجد بنانا کیسا

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے یہاں جو مسجد ہے تقریبا 40 سال پرانی ہے اب اس مسجد کو شہید کر کے نئی مسجد بنانا چاہتے ہیں تو اب جو نئی مسجد بنے گی کیا پہلی منزل کو مسجد بناکر نیچے پارکنگ کی جگہ چھوڑ سکتے ہیں چوں کہ مسجد میں اور زمین نہیں جس کو پارکنگ کے لیۓ استعمال کر سکے گاڑیاں راستے میں پارکنگ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہے

برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔


الجواب بعون الملک الوھاب

اللھم ھدایة الحق و الصواب

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ جو جگہ مسجد کے لیے وقف ہوچکی ہو اور اس جگہ میں کم از کم ایک بار جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جا چکی ہو تو وہ جگہ مسجد شرعی بن جاتی ہےاور مسجد شرعی حقیقت میں تحت الثری سے لے کر اوج ثریا تک مسجد ہوتی ہے ، لہذا ایسی جگہ میں مسجد شرعی بننے کے بعد اس کے کسی بھی حصے کو چاہے نیچے کا حصہ  ہو یا اوپر کا مسجد کے علاوہ دوسرے مقاصد کے طور پر استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں، کیوں کہ اس سے مسجد کا متاثر بنیادی مقاصد متاثر ہوجاتا ہے اور وقف میں تغییر لازم آتی جو کہ شرعا جائز نہیں ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے یہاں کی مسجد جب پہلے سے سطح زمین پر بنی ہوئی ہے اور اس کے نیچے پارکنگ نہیں ہے تو اب از سر نو تعمیر کی صورت میں وہاں گاڑیوں کے لیے پارکنگ بنانا جائز نہیں ہوگا ۔ ورنہ جو لوگ ایسا کریں گے وہ مسجد کی جگہ کو غلط استعمال کرنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوں گے۔ اب رہ گئی بات پارکنگ نہ۔ہونے کی وجہ فتنے کے اندیشہ کی تو اس کے لیے کسی دوسری جگہ کا انتخاب کرے ۔

درمختار مع شامی ، كتاب الوقف، جلد : ششم ، ص: ۵۴٨/میں ہے: "لو تمت المسجدية ثم اراد البناء منع ۔ ۔ ۔ (ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الامام والثانی) ابدا الى قيام الساعة (وبه يفتى)

اور علامہ شہاب الدین احمد چلپی حاشیہ تبیین الحقائق جلد چہارم ، ص: ٢٧۴/ میں تحریر فرماتے ہیں:

"و قد ذکر المصنف فی علامۃ النون من کتاب التنجیس قیم المسجد اذا اراد ان یبنی حوانیت فی المسجد او فی فنائہ فلا یجوز لہ ان یفعل لانہ اذا جعل المسجد مسکنا تسقط حرمتہ"۔

بحر الرائق ، کتاب الوقف ، فصل فی احکام المساجد ، جلد پنجم ، ص: ۴٢١/ میں ہے: وحاصله ان شرط كونه مسجدا ان يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى (وان المساجد لله) (الجن: ١٨) بخلاف ما اذا كان السرداب او العلو موقوفا لمصالح المسجد فانه يجوز اذ لا ملك فيه لاحد...ولا يجوز للقيم ان يجعل شيئا من المسجد مستغلاولامسكنا"۔

فتاوى عالمگیری جلد دوم ، الفصل الثاني ، کتاب الوقف،  ص: ۴١٣/ میں ہے: قيم المسجد لا يجوز له ان يبني حوانيت فی حد المسجد او فی فنائه ؛ لان المسجد اذا جعل حانوتا ومسكنا تسقط حرمته وهذا لا يجوز ، والفناء تبع المسجد فيكون حكمه حكم المسجد ، كذا في محيط السرخسی"۔

اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ، فتاویٰ رضویہ جلد ششم ، ص: ۴٣٦/ میں فرماتے ہیں: "مسجد سے خارج کردیا گیا اور اسے جوتا اتارنے کی جگہ بنانا یہ بھی باطل و مردود حرام ہے , اوقاف میں تبدیل و تغییر کی اجازت نہیں ! "لا یجوز تغییر الوقف عن ھیئتۃ " مسجد کہ بجمیع جہات حقوق العباد سے منقطع ہے رب کا ارشاد ہے " و ان المسٰجد للہ"۔

حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ بہار شریعت ، جلد دوم حصہ دہم ، ص: ۵٦٠/ فرماتے ہیں کہ: مسجد کی چھت پر امام کے لیے بالا خانہ بنانا چاہتا ہے اگر قبل تمامِ مسجدیت ہو تو بنا سکتا ہے اور مسجد ہو جانے کے بعد نہیں بنا سکتا ۔

ان ساری عبارات مذکورہ بالا سے یہ بات صاف واضح ہو چکی کہ ایک مرتبہ کسی جگہ مسجد تعمیر ہوجاتی ہے تو وہ تحت الثری سے لے کر آسمان تک ہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے یعنی اس کے اوپر نیچے پورا حصہ مسجد کے حکم میں ہوتا ہے۔لہذا صورت مسؤلہ میں جس  پرانی مسجد کو شہید کرکے از سر نو اس کی تعمیر اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ پہلی منزل کو مسجد بنالیں اور اس کے نیچے گاڑیوں کے لیے پارکنگ بنالیں تو ایسا کرنا شرعاً بالکل ناجائز و گناہ ہے۔لہذا اس سے احتراز لازم ۔فقط واللہ تعالٰی ورسولہ الاعلی اعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

خادم التدریس و الافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد واگرہ بھروچ گجرات۔

١٨/ صفر المظفر ١۴۴۵ 

۵/ ستمبر ٢٠٢٣ بروز منگل

Post a Comment

0 Comments