پوشیدہ حال کا علم :
ابوالفرح بن حمامی کا بیان ہے : میں حضرت شیخ کی خارق عادات و کرامات سن کر ان کو بعید از قیاس تصور کرتا تھا اور ان کے وقوع کو ناممکن جانتے ہوئے ان کا قائل نہ تھا، لیکن بذات خود آپ سے نیاز حاصل کرنے کا مشتاق تھا۔ اتفاقا کسی ضرورت کے تحت مجھے باب الازج جانا پڑا، واپسی پر میں بغرض ملاقات حضرت شیخ کے مدرسہ میں پہنچ گیا، اس وقت مؤذن نماز کے لیے اقامت کہ رہا تھا، مجھے خیال ہوا کہ میں بھی نماز عصر ادا کر کے حضرت شیخ سے نیاز حاصل کرتا چلوں، لیکن جلد بازی میں یہ قطعا یاد نہ رہا کہ میں بے وضو ہوں، لہذا نماز اور دعا سے فراغت کے بعد حضرت شیخ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
”اے صاحب زادے! اگر تم میرے پاس کوئی حاجت لے کر آتے تو میں ضرور پوری کرتا لیکن تمھاری غفلت کا تو یہ عالم ہے کہ بے وضو ہی نماز پڑھ لی۔" یہ سن کر مارے دہشت کے میرے ہوش اڑ گئے اور عالم حیرت میں سوچنے لگا کہ میرے پوشیدہ حال کا علم آپ کو کس طرح ہوا؟ پس اس کے بعد میں نے آپ کی صحبت لازم کرلی اور عقیدت و محبت سے خود کو آپ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور آپ کی برکت سے میرے اوپر معرفت کی راہیں منکشف ہو گئیں۔
قلائد الجواهر، ص: ١٥٨.
0 Comments