سیرت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ولادت... وفات ۱۳ھ۔

اسم گرامی: عبداللہ تھا ،آپ کے والد کا نام: عثمان ، کنیت: ابو قحافہ تھی۔

کنیت: ابوبکر۔ لقب: آپ کا لقب صدیق ہے کیوں کہ آپ نے بے خوف نڈر ہو کر رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کسی قسم کی ترش دوئی یاجھجھک اس تصدیق میں سر زد نہیں ہوئی۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ عتیق بھی آپ کا لقب ہے۔

سلسلہ نسب والد:

عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن میں تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب القرشی التمی ۔

خاندانی پس منظر:

آپ کاخانودہ مکہ کے ممتازخانودوں میں تھا۔قصاص ودیت کے فیصلے اورتاوان کی رقم کاجمع کرناعہدجاہلیت میں آپ کے خاندان سے متعلق تھا۔فراست ودانائی اورامانت ودیانت کی وجہ سے یہ منصب آپ کودیاگیا۔آپ پرلوگوں کے اعتمادکایہ عالم تھاکہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کسی کے ذمے تاوان کا فیصلہ کرتے توقریش آپ کاساتھ دیتے اوراس فیصلے کے نفاذمیں کوشش کرتے۔اگرکوئی اورشخص تاوان کافیصلہ سناتاتوقریش اس کوتسلیم نہ کرتے اوراسے بے یادومددگارچھوڑدیتے۔عام طورپراہل مکہ کاپیشہ تجارت تھا۔چناںچہ آپ نے بھی یہی آذاداورشریف پیشہ کسب معاش کے لیے اختیارکیا۔

ولادت

۳۶/ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا ہے اس سے انداذہ لگایا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت با سعادت سے ۲ سال ۲ ماہ بعدمکہ میں پیدائش ہوئی ہے۔ (تاریخ الخلفاء ص:۲۴)

قبول اسلام :

آغاز وحی کے زمانے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تجارت کے سلسلے میں یمن گئے ہوئے تھے۔ آپ مکہ واپس آئے تو عقبہ بن معیت، شیبہ، ربیعہ، وابو جہل ،و ابو البختری اور دیگر سرداران قریش آپ سے ملنے آئے۔ تو آپ نے ان سے مکہ کے حالات دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ائے ابوبکر بڑا غصب ہو گیا، ابو طالب کا یتیم بچہ مدعی نبوت ہے۔ اس کے انسداد کے لئے ہم تمہاری آمد کے منتظر تھے۔ یہ کس کے ابو بکر صدیق کے دل میں شوق پیدا ہوا اور انہیں خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کیا اور خود خدمت رسول میں حاضر ہو گئے۔

بعثت کے متعلق کچھ سوالات کیے اور اس مجلس میں داخل اسلام ہو گئے۔ سب سے پہلے ایمان کی دولت سے کون سرفراز ہوا؟ اس سلسلے میںبہت سی روایتیںہیں۔ ان میں علما نے یوں مطابقت پیش کی ہے۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ بچوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، عورتوں میں حضرت خدیجہ ورضی اللہ تعالٰی عنھا اور آزاد کردہ غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔

ترمذی و ابن حبان، ابی سعید خدرضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ کیا تم میں سب سے زیادہ مستحق خلافت میں نہیں ہوں؟ کیا اسلام مجھے اولیت حاصل نہیں؟ کہا مجھ میں یہ اوصاف نہیں ہیں؟ (پھر آپ نے وہ تمام اوصاف بیان فرمائے) ابن عساکرنے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے لکھا کہ آپ نے فرمایا کہ مردوں میں ست سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے۔

امام شافعی فرماتے ہیں میں نے ابن عباس سے دریافت کیا کہ سب سے پہلے کون اسلام لایا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور تم نے حضرت حسان بن ثابت کے اشعار سنے ہی ہوں گے۔

اذ تذکرت شجوا من اخی ثقۃ فاذکر اخاک ابا بکر بما فعلا خیر البریۃ اتقاھا واعدلہا الاالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و اوفاھا ابما سملًاوالثانی الثانی المحمودمشھدہ و اولی الناس منھم صدق الرسل(تاریخ الخلفاص:۲۵)

ذات رسول اللہ مدرسہ تعالٰی علیہ ہم سے وابستگی:

تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ قبول اسلام کے بعد سرور دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وصال شریف تک ہمیشہ سفر وحضر میں آپ کے رفیق رہے، بحر اس کے کہ آپ کے حکم اور اجازت سے حج کے لئے پاک جہاد میں آپ کی محبت میں نہ رہ سکے، ورنہ ہر حال میں آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی و رضا کے لئے اہل و عیال کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت فرمائی۔

غارثور میں آپ کے ساتھ رہے جیسے کہ قرآن کر یم میں ارشاد ہے۔

’’ ثانی اثنین اذہما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا ‘‘ (سورہ توبہ آیت ۴۰) (وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یاد سے فرماتے تھے غم نہ کھا بے شک اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے)اس کے علاوہ اکثر غزوات میں رسول اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اعانت کی آپ کی سیرت پر ایسے بہت سے شواہد مو جود ہیں۔ (تاریخ الخلفا ۲۷)

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اجتہاد:

عہد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ایک بڑی جماعت تھی، جنہوں نے انقطاع وحی کے بعد جدید مسائل میں ملت اسلامیہ کی اجتہاد ہی سے رہنمائی کی۔ انہوں میں ایک استعداد اس وقت اچھی طرح آشکار ہوئی جب آپ نے مانعین زکات سے قتال کا حکم صادر فرمایا، جب کہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم کا موقف اس کے بر خلاف تھا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ کلمہ گو سے کیسے مقابلہ کیا جائے گا، جب کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے خون کو معصوم اور ان کے اموال کو محفوظ شمار کیا ہے۔اس پرآپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ کلمہ کے حقوق میں سے ایک حق جس طرح نماز ہے اسی طرح زکات بھی ہے۔ جس نے نماز و زکات میں فرق کیا یقینا میں اس سے مقابلہ کروں گا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے استدلال پر دیگر صحابہ ٔکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بھی شرح صدر ہوا اورراجح قرار دیتے ہوئے اسی پر عمل کیا۔ ابو اسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ مانعین زکات کے تئیںآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاموقف اورصحابۂ کرام کااس رائے کی جانب رجوع کرلیناصحت استدلال اور اصابت رائے کی دلیل ہے (تاریخ الخلفاء ص ۳۱)

آپ کے صحت استدلال اوراصابت رائے کی تصدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے۔ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن روانہ کیا جا رہا تھا تو کئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا کہ کن کویمن روانہ کیا جائے؟ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیررضی اللہ تعالٰی عنہم موجود تھے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی رائے پیش کی ۔اس کے بعد آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جوابا عرض کیا کہ مجھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی راے زیادہ پسند ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی آسمان پر اس بات کو نا پسند کرتا ہے کہ ابوبکر صدیق غلطی کر جائیں۔ (تاریخ الخلفا ص ۳۳)

آپ کی فقہی بصیرت کا اندازہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے اس قول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: '' من کان یفتی الناس فی زمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فقال ابوبکر وعمر ما اعلم غیر عما ''

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کون فتوی دیا کرتے تھے؟ تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما۔ ان دونوں کے علاوہ میں نہیں جانتا ہوں (تاریخ الخلفاص۳۱)

نیز ابن قیم جوزی متوفی ۷۵۱ھ نے آپ کے فتاوی کے سلسلے میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ متوسطین صحابہ کرام و صحابیات رضی اللہ تعالٰی عنھم سے بھی فتاوی کی ایک معتد بہ مقدار مروی ہے۔ اگر ان میں سے ہر ایک کے فتاوی جمع کیے جائیں تو فتاوی کا ایک اچھا خاصا مجموعہ ہو جائے گا۔

آپ بعض احکام اپنے اجتہاد کی روشنی میں بھی صادق فرماتے تھے۔

چناں چہ ایک دفعہ آپ نے کلالہ کے سلسلے میں لکھا ہے کہ اجتہاد کرتے ہوئے بیان فرمایا: '' فان یکو صواباً فمن اللہ و رسولہ و ان یکو خطأ فمنی ومن الشیطان'' اگر اس اجتہاد سے میں درست بات کہوں تو یہ درستگی اللہ کے رسول کی جانب سے ہوگی اور اگر غلطی ہو جائے تو یہ غلطی کی نسبت میری اور شیطان کی جانبرہے گی۔ 

آپ کے قیاسی مسائل میں سے ایک مشہور مسئلہ دادا کی وراثت کا مسئلہ ہے، جس سے ان کی اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی میت ورثہ میں صرف دادا اور بہن، بھائی چھوڑے یعنی اصول میں باپ اور فروع میں کوئی نسبی اولاد نہ ہو تو وراثت کا مستحق کون ہوگا؟ دادا، بھائی ،بھن؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھ تقریباً چودہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم جن عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ شامل ہیں۔

دادا کو باپ کے مرتبے میں قرار دے کر بھائی، بہن کو وراثت کا غیر مستحق قرار دیتے ہیں '' باب میراث الجد مع الأب والاخوۃ وقال ابو بکر و ابن زبیر الجد اب '' (بخاری شریف جلد ۲ صفحہ۹۹۷۔۹۹۸) 

لیکن صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت اس موقف سے اختلاف رکھتی ہے، اور بھائی، بہن کو اصل وارث قرار دیتی ہے۔یہ اختلاف در حقیقت لفظ کالالہ کی تشریح پر مبنی ہے، کیوں کہ قرآن شریف میں آیا ہے ''یستفتونک، قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ، ان امرؤاھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلہا نصف ما ترک (سورہ نساء آیت ۱۷۶) اس آیت کریمہ میں گویا باپ کی کوئی تصریح نہ ہونے میں اس حد تک سب کا اتفاق ہے کہ کلالہ کی صورت میںباپ کا نہ ہونا ضروری ہے۔لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ دادا کا نہ ہونا بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں:وان کان رجل یورث کلٰلۃ او امراۃ ولہ اخت فلہ نصف ماترک '' (سورہ نساء آیت ۱۲) اس آیت کریمہ میںعلاتی بھائی، بہنوں کا تذکرہ ہے اور یہاں بالاتفاق کلالہ یہ معنی ہے کہ میت کے (باپ، دادا) اور فروع (اولاد، اولاد کے اولاد )میںکوئی نہ ہو، یعنی اگر میت کا دادا موجود ہوگا تو کلالہ نہ ہوگا اور علاقی بھائی محروم ہوں گے۔

آپ کا مسائل میں فیصلہ کا اندازہ یہ تھا کہ آپ پہلے کتاب اللہ میں غور و فکر کرتے۔ کوئی حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ ورنہ سنت رسول میں غوطہ زنی کرتے۔ اس میں حکم مل جاتا تواس کے مطابق فیصلہ کر دیتے۔ ورنہ لوگوں سے دریافت کرتے کہ کیا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس طرح کسی معاملہ میں فیصلہ کیا ہے؟کوئی گواہی دیتا تو اسی طرح فیصلہ کر دیتے، اگر سنت میں بھی حکم نہ ملے تو ایسی صورت میں اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کرتے اوران سے مشورہ کرتے۔ اگر کسی پر راے قائم ہو جاتی تو اسی کے مطابق فیصلہ کر دیتے۔ (تاریخ الخلفاء ص ۳۲)

آپ کا یہ اختیار کردہ طریقہ کار بعینہ وہی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر اختیار کیا تھا اس لئے علما نے لکھا ہے کہ مشاورت بھی ایک قسم کا اجتہاد ہی ہے، کیوں کہ اگر کوئی بات منصوص ہوتی تو یہ جمع ہونا بے کار ہوتا۔

عہد صحابہ کے اجتہادی مسائل میں آپ کا موقف:۔

حضرت ابوبکر صدیق اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مابین اختلافی مسائل کی ایک معتددبہ مقدار ہے۔ ایسے اختلافی مسائل حضرات شیخین کے درمیان بھی ہے، نیز حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اجتہادی مسائل،اوران کی فقہی اقوال کوڈاکٹررواس قلعہ جی نے فقہ ابی بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے مرتب کیاہے ۔ ذیل میں آپ کے کچھ اقوال فقہیہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس سے ان کے فقہی مقام اور اجتہادی بصیرت تک رسائی میںسہولت ہوتی ہے۔ناقص زائدہ بچوںپرنمازجنازہ پڑھی جائے گی یانہیں؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ کہنا ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، ا س لئے کہ حدیث میں آیا ہے۔ ''اسقط یصلی علیہ '' (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۳ ص ۳۱۷)

اس لئے کہ یہ بھی ایک جان ہے، اس میں روح پھونکی گئی ہے۔ اور چار ماہ میں روح پھونک دی جاتی ہے اس لئے اس پر نماز پڑھنا چاہئے اور یہی بات سعید بن مسیب، ابن سیرین اوراسحٰق رضی اللہ عنہم نے  اختیارکیا،نیزعبداللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنھمانے بھی یہی قول اختیارکرتے ہوئے اپنے مردہ بیٹے کی نمازجنازہ پڑھی تھی۔(المغنی لابن القدامہ ج ۴ص۴۹۷)حالاںکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے۔(الجامع مذاھب الفقہاج۲ص۳۲) 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ تکبیرات انتقالیہ کو سنت قرار دیتے ہیں۔ اس کو فقہائے کرام نے لیا ہے، لیکن دیگر صحابۂ کرام کے اقوال کے پیش نظر دیگر ائمہ کرام نے تکبیرات انتقالیہ کو واجب تک قرار دیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کو نماز سکھائی، اس کو فرائض و واجبات نماز کی تعلیم دی۔

اس میں تکبیر تحریمہ کا تو ذکر ہے، لیکن لکبیرات انتقالیہ کا ذکرنہیں،حالاں کہ یہ موقع بیان کرنے کا ہے۔ یہاں پر خاموشی عدم وجوب پردلالت کر رہی ہے، لہذا وہ احادیث جن میں ہر اٹھنے اور جھکنے کے وقت تکبیر کی بات آتی ہے وہ استحباب پر محمول ہے۔ (موسوعہ فقہی قوتیہ ،امام ابن شرف نووی ج ۱۳ ص ۲۰۷)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ عمامہ پر مسح سمجھتے ہیں۔ ایک تو ان کے سامنے وہ حدیث تھی جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی کے بقدر مسح کیا اور عمامہ پر مسلح کیا اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ سراورپیر دونوں ایسے اعضا ہیں جو تیمم میں ساقط ہوتے ہیں۔ جب دونوں کا تیمم میں ایک حکم ہے تو ایسے ہی مسیح کے سلسلے میں بھی ایک ہی حکم ہوگا۔ جس طرح خف پہنے ہوئے ہونے کی صورت میں مسح درست ہے اسی طرح عمامہ باند ھے ہوئے ہونے کی صورت میں اس پر مسح درست ہوگا۔( موسوعہ فقہی قوتیہ ۳ص۳۶۷)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ام ولد کی بیع جائز قرار دی ہے۔ اس کی ایک دلیل تو یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ کے زمانے میںام ولدکوبیچاجاتاتھا۔عقلی دلیل یہ ہے کہ ام ولد بچہ پیدا ہونے سے قبل بہر حال باندی ہے۔ لہذا اس کوبیچنادرست ہے توبچہ پیداہونے کے بعدبھی اس کی بیع درست ہونی چاہئے۔ (ہدایۃ المجتہد ج ۲ ص ۷۶۴)

مالدار پر قربانی کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنت قرار دیا ہے۔ دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔جب ذی الحجہ کے دس ایام آجائیں تو تم میں کا کوئی قربانی کرناچاہے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ دیکھیں قربانی کو ارادہ پر موقوف رکھا گیا ہے، لہذا یہ وجوب کی دلیل نہیں بن سکتی ۔( المجموع شرح المذہب للنووی ج۸ص۲۷۷)

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ہم قرآن جمع کریں گے۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو ہم بھلا کیوں کر سکتے ہیں؟ پھر آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول میں مصلحت دیکھ کر اس کی طرف رجوع فرما لیا اور یہ وجہ تھی کہ جو کچھ نزول ہوتا سرکار علیہ السلام اسے اپنے مصحف میںلکھوا لیا کرتے تھے۔ اس کے جمع کرنے کا مقصد حفاظت قرآن ہی تھی۔ا س سے انہیں یقین ہو گیا اور اختلاف رفع ہو گیا۔ (شریعۃ اللہ الخالدہ ص۱۰۵)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصال ظاہری کے بعد عرب کے عرف و عادت کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے والد کی میرات طلب کرنے اور خیبر کے موقع سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آنے والا زد خیز '' فرک'' سے اپنا حصہ مانگنے کے لیے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور تشریف لائیں۔ دوسری طرف حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ مابقیہ میراث کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پیش نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک تھی جس کی بنا پر آپ نے انہیں بطور میراث دینے سے منع کر دیا اور فتوی دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے '' لا نورث ماتر کنا صدقۃ '' یعنی ہم گروہ انبیاء بعد والوں کو وارث نہیں بناتے اور جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ بطور میراث اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی ۔اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت میراث کے احکام سے مستثنی ہیں، لہذا آیت میراث کا سہارا لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کی تقسیم شرعاً جائز نہیں۔ آپکے اس فتوے سے لوگوں کا خلجان دور ہوا اور اختلاف رفع ہو گیا۔ شریعۃ اللہ الخالدہ ص ۱۰۶)

وصال:

۷ جمادی الآخرہ ۱۳ھ کو موسم کافی سرد تھا۔صدیق اکبر نے غسل کیا، ٹھنڈک اثر کر گئی اور آپ شد ید بخارمیں مبتلا ہو گئے۔ علاج کے باوجو سدھار نہ ہوا، بستر علالت پرپڑنے کے بعد ہی یقین ہو چکا تھا کہ آپ جاں برنہ ہو سکیں گے۔مرض جوں جوں شدت اختیار کرتا جا رہا تھا، امت کے مسائل کو پریشان کر رہے تھے۔ چناں چہ شدت مرض کے باوجود ملت کے آنے والے مسائل پر وہ بڑی گہری غور و فکر میں مبتلا ہوگئے۔ماضی کے سارے حالات و واقعات ایک ایک کرکے ان کی نگاہوںکے سامنے گردش کر رہے تھے مستقبل کے اندیشے ذہن میں ابھررہے تھے۔ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ خلافت کا تھا۔وہ امت کو آئندہ اختلاف سے بچانے کے لیے اپنی زندگی ہی میںاپنا جانشین مقرر کر دینا چاہتے تھے لیکن اس امر میں وہ اہل الرائے صحابہ سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی قابلیت واہلیت رکھتے ہیں۔ مگر انہیں خطرہ تھا کہ مشورہ لیے بغیر عمر کی نام زندگی لوگوں پر گراں گزرے گی اورمسلمان اس انتخاب کواچھی نظروں سے نہ دیکھیں گے۔ چناںچہ آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور دریافت کیاکہ عمرکے بارے میںتمہاری کیارائے ہے؟جواب دیا:(ھوواللہ افضل من ذالک فیہ من رجل ولکن فیہ غلظۃ) اوروں کی بنسبت آپ کی راے سے بھی زیادہ افضل ہے مگر ان کے مزاج میںذراشدت ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ شدت اس وجہ سے تھی کہ وہ مجھ کونرم دیکھتے تھے۔جب وہ حکومت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے تو اس قسم کی باتیں چھوڑ دیں گے۔ اے ابو محمدمیںنے ان کوبغوردیکھاہے جس وقت میںکس شخص پرکسی معاملے میںغضبناک ہوتاتھاتوعمرمجھ کواس پرراضی ہونے کا مشورہ دیتے تھے اور جب کبھی نرم ہوتا تووہ مجھ کو اس پرسختی کرنے کامشورہ دیتے تھے۔(طبری ج۲ص۶۱۸)

پھر حضرت عثمان کو بلایا اور کہا کہ اے ابو عبداللہ! مجھے بتاؤ عمر کیسے ہیں؟ حضرت عثما رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ آپ ان کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ اے ابو عبداللہ! اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ پھر فرمایا: الٰہی میں عمر کے باطن کو ان کے ظاہر سے بہتر سمجھتا ہوں، ہم میں ان جیسا کوئی دوسراشخص نہیں ہے۔

  جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلافت کے بارے میں مطمئن ہوگئے تو آپ نے اپنے کاتب حضرت عثمان بن عفان سے عہد نامۂ خلافت تحر پر کرایا۔بذریعہ اجتہاد محمد کی جانشینی :۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درست اجتہادکاایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے  حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی وصیت فرمائی اورحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حل وعقد کے مالک ہیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ حق تھا کہ آپ اس شخص کو ولایت عطا فرمائیں جس کے اندر ولایت کی صلاحیت ہو،تو آپ نے اس کو ارباب حل وعقد کے تولیت پر قیاس کیایا اسے مخلوق کی رعایت اور حفظ امانت پر قیاس کیا۔

چنانچہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد بزرگ وار کی بارگاہ میں حاضر ہوئے جس وقت اُن کی وفات قریب ہو چکی تھی۔ چناں چہ انہوں نے کہا کہ لوگوں کا گمان ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں بنائیں گے۔اور بات یہ ہے کہ اگر آپ کے اونٹوں یا بکریوں کو چھوڑ کر آپ کے پاس چلا آئے تو آپ یہی کہیں گے کہ اس نے ان اونٹوں یابکریوں کو ضائع کر دیا ہے۔سو لوگوں کی نگہبانی زیادہ اہم ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے میری اس رے کی موافقت کی، کچھ دیر تک سر جھکائے(سوچتے رہے پھر میری طرف سر اٹھا کر فرمایا: بلا شبہہ اللہ عزوجل اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگرمیں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں بنا یا تھا اور اگر میں نے کسی کو خلیفہ بنا دیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ خلیفہ بنا چکے ہیں۔ حضرت ابن عمر نے کہا: بخدا جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کو چھوڑنے والے نہیں ہیں اور وہ کسی کو خلیفہ نہیں بنائیں گے۔ مذکو رہ گفتگو پر نظر ڈالیں تو عیاں ہوگا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی اجتہادی قوت کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی حالت کو مویشیوں کی حالت پر قیاس کیا تھا اور ان کے راعی اور چرواہوں کی حالت پر امرا اور خلیفہ کی حالت کو۔ چناں چہ جس طرح بغیر چرواہے کے مویشیوں کے ضائع ہو جانے اور بھیڑ کے لقمہ بن جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں اندیشہ تھا کہ کہیں بھیڑے صفت لوگ مسند اقتدار پر قابض نہ ہو جائیں اور خلافت نا اہلوں کے پاس نہ چلی جائے اور اس وجہ سے ان کی ماتحتی میں رہنے والے لوگوں کو سخت مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین کیوں مقرر نہیں کر دیا۔ اس لیے کہ حالات و قرائن واضح طور پر دلالت کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی جانشیں بنائے جائیں گے۔ بلکہ بعض مواقع پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا تھا۔

اس کے برخلاف دور صدیقی میں وہ بات نہ تھی۔ لہذااسے معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر محمول نہیںکیا جا سکتا۔ بلکہ آپ نے حسن انتخاب اور اپنی اجتہادی قوت سے خلافت جیسے اہم مسئلے کو درست طریقے پر حل فرمایااور امت مسلمہ کو ایک بہت ہی قابل نزع مسئلے سے نجات کی راہ ہموار فرمادی ( شریعۃ اللہ الخالدہ ص:۱۰۶۔۱۰۷)

Post a Comment

0 Comments