اسلام میں سماجی حقوق کا تصور

اسلام میں سماجی حقوق کا تصور

ڈاکٹر جوہرمیاں شفیع آبادی

صدر شعبہ اردومشرکھ کالج

چھپرہ ، بہار، انڈیا


اقوام عالم کی تاریخ میں سیدنا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے ایک ایسے پر وقار باب کا آغاز ہوتا ہے جس میں عالمگیر انسانی قدروں کا تحفظ اور مذہبی ، اخلاقی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کا شائستہ شعور پیدا ہوتا ہے ، ساتھ ہی تمام عالم امکان کو ایک صاف ستھرا فطری نظام حیات ملتا ہے، جہاں ڈوبتوں کو تیرانے گرتوں کو اٹھانے ، روتوں کو ہنسانے اور سسکتی ہوئی انسانیت کو بچانے کی بات ایمان کا جزو اعظم بن جاتی ہے۔


اسلام ایک زندہ حقیقت ہی نہیں بلکہ تمام باطل قوتوں کا کھلا ہوا حریف بھی ہے جس کی سچائی سے مومن کیا کا فر کو بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے آفاقی اصول اور نظریات میں کسی طرح کی بھی کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، بلکہ محال ہے۔ کیوں کہ اسلام کا ہر ایک اصول بنی نوع انسان کے لیے قدرت کی عطا کی ہوئی نعمت غیر مترقبہ ہے، جو روحانی انقلاب کے ساتھ انسانوں کو اپنے صحیح منصب پر فائز کر کے ایک عالمگیر اخوت ورفاقت کی مضبوط ترین

اسلام میں سماجی حقوق کا تصور
اسلام میں سماجی حقوق کا تصور


بنیا دفراہم کرتا ہے۔ تاریخ عرب کا ہر طالب علم عربوں کی دور جہالت سے پوری طرح واقف ہے، جہاں خود بینی ، خود پرستی، خاندانی عصبیت ، نسلی امتیاز، قبیلہ پرستی ،نفرت و عداوت ظلم و بربریت، استحصال، شراب خوری، ریا کاری، شہوانیت، بہیمت اور عورتوں پر ظلم وستم کا چلن عام تھا۔ دنیائے رنگ و بو کی آغوش میں شیطانی جہالت مسکرا رہی تھی ، اس پر آشوب ماحول میں سسکتی ہوئی انسانیت اپنے زبان حال سے کسی نجاب دہندہ کو پکار رہی تھی کہ اس عالم کرب سے نبی امی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے آفاقی پیغام کا اعلان فرمایا تو قصر باطل میں زلزلہ پیدا ہو گیا۔ عرب کے سارے قبائل تلملا اٹھے اور ہزاروں برس کا فرسودہ نظام پاش پاش ہو کر رہ گیا، جس میں قبیلے کی بنیاد پر انسانی معاشرے کی برتری کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ چنانچہ خونی رشتہ ہی ان کے درمیان ربط و تعلق اور ہمدردی و مددگاری کی بنیاد تھی اور اس پر وہ اپنی عظمت و کرامت کا مدار رکھتے تھے اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر اپنا سارافخر و ناز اس بنا پر جتاتا تھا کہ اس کے آباء واجداد نے کوئی نہ کوئی کارنامے انجام دیئے تھے۔


مل رہا ہے عظمت انسانیت کے نام پر

ریشمی رشتوں کی تہہ میں لیکے خنجر آدمی


دوسری طرف انہوں نے دیکھا کہ باڑ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی بے مثال دعوت دے رہے ہیں جو تعصب اور قبائلیت کی جڑ کاٹ رہی ہے اور ہر قوم وقبیلہ کے اندر سے لوگوں کو نکال نکال کے ان کی ایک مستقل جماعت انسانیت سے بنا رہی ہے، جو نہ قوم جانتی ہے، نہ قبیلہ، بلکہ ایک عقیدے پر عالمگیری اخوت و رفاقت کی بنیا درکھ رہی ہے جو فخر اور شرف کے سارے قدیم تصورات کا خاتمہ کر کے رذیل و شریف سب کو برابر کا درجہ دے رہی ہے۔ اور کفر اور ایمان کے اختلاف کو دوستی و دشمنی کا مدار ٹھہرا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں، ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ اس عظیم مذہبی ، معاشرتی ، انقلاب کے خلاف تعصب و قبائلیت پسندی کے سارے عناصر کو تیز ابی حرکت دینے لگے۔


یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ تعصب اور قبائلیت ایام جاہلیت کا سب سے بڑا المیہ تھا جس کا خاتمہ کفر و جہالت کی بنیاد کا خاتمہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کی۔ لیکن یہ وہی نسخہ کیمیا ہے جو قبائلی عداوتوں اور نفرتوں کو مٹا کر تمام عرب کو متحد کر سکتا ہے اور پھر عرب سے گذر کر دنیا بھر کی قوموں کو ایک لڑی میں پروسکتا ہے۔ مگر ان کے سامنے کچھ شعوری ولاشعوری دشواریاں تھیں، جہاں ایک طرف ایام جہالت کا مردم گزیدہ بھیا نک نقشہ تھا تو دوسری جانب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار اور اسلامی آفاقی پیغام جواس شیطانی جہالت کا کھلا ہوا جواب تھا۔ ایسے نازک موڑ پر عربوں کو ایک ٹھوس اور مستحکم رہنمائی کی ضرورت تھی کہ وہ اعلیٰ ، ادنی اور بلند و پست کے تصورات، قبیلہ پرستی اور بت پرستی کو صدق دل سے چھوڑ کر اسلامی انقلاب میں شامل ہو جائیں یا اس شیطانی جہالت کی ہو جا کریں جس کی پوجا کئی پشتوں سے ان کے یہاں چلی آرہی تھی۔


اس ذہنی کشمکش اور فکری تصادم کے درمیان عربوں کو کسی ٹھوس نتیجے پر آنا نہایت ضروری تھا اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب وہ اسلام اور دعوت اسلام کے تمام پہلوؤں کا بغور مطالعہ کریں، چنانچہ جیسے ہی عربوں کی نظر نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق پر پڑی یاروں کی صلی علیہ سلم کردار پر وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ اب وہ اپنی ناقدانہ بصیرتوں سے کام لیکر بانی اسلام اور دعوتِ اسلام کا پہلو بہ پہلوسنجیدگی سے جائزہ لینے لگے۔ دعوتِ اسلام کے اس اہم نقطے نے ان کے دلوں کو چھولیا کہ تمام دنیا کے انسان اصل میں ایک اور آدمی ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے قوموں، نسلوں، قبیلوں، زبانوں، وطنوں اور رنگوں کا جو فرق رکھا ہے وہ محض تعارف کے لیے ہے، تا کہ ان کے درمیان باہمی تعاون کا سلسلہ قائم ہو سکے، نہ اس لیے کہ ان کے درمیان تفریق رونما ہو اور ایک گروہ دوسرے گروہوں کو پست، ذلیل، کمتر اور اپنے آپ کو افضل و اشرف سمجھے اور ایک گروہ دوسرے کو دبائے یا لوٹے وغیرہ۔ان بنیادی حقوق کے دائرے میں اگر کوئی چیز لوگوں کے درمیان جائز اور معقول طور سے اجتماع کا سبب بن سکتا ہے تو وہ صحیح عقیدہ اور فکر ہے جس پر وہ جمع ہو کر ایک امت بنے اور اس امت میں بجاطور پر کوئی بھی اگر سبب فضیلت بن سکتی ہے تو وہ ہے خوف خدا اور تقویٰ۔ یعنی ایک خدا سے ڈرنا، اس کی نافرمانیوں سے باز رہنا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے آخرت کی باز پرس کو یا در کھ کر غلط راہوں سے اپنے آپ کو الگ رکھنا۔ ساتھ ہی عربوں نے یہ بھی دیکھا کے اسلام نے دنیا بھر کے انسانوں میں ایک تفریق کو باقی رکھا ہے اور وہ ہے ایمان و کفر کی تفریق جو انسان خواہ کسی بھی ملک یا قوم یا قبیلے یا رنگ ونسل سے تعلق رکھا ہو اور وہ خواہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، اللہ کی توحید کو اس طرح مان لے کہ جس طرح نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسان کے لیے اللہ کا آخری پیغمبر اور قرآن مقدس کو اللہ کی آخری کتاب تسلیم کرے، آخرت پر ایمان لے آئے۔ وہ مومن ہے ... مومنوں کا بھائی ہے.... جماعت مومنین کا ایک رکن ہے۔ امت مسلمہ کا ایک فرد ہے... اسلامی معاشرہ میں اس کے حقوق ہر لحاظ سے مساوی ہیں۔

ہم قبیلہ یا ہم وطن یا ہم رنگ ہونا تو دور کی بات ہے مومن اس کے ساتھ انسانی اخلاقی تعلق تو باقی رکھ سکتا ہے، لیکن دوسرے ہر لحاظ سے اس کا معاشرہ دوسرے معاشرے سے الگ ہوگا۔ مومن دنیا کے تمام اقوام میں تو اس کے ساتھ ، وہ سب رابطہ رکھ سکتا ہے جو انسان کے درمیان انسانی ہمدردی کے لحاظ سے فطری طور پر ہوتے ہیں، مگر دین کے کسی بھی معاملے میں اس سے دوستی و محبت نہیں رکھ سکتا اس کے ساتھ مل کر ایک دینی جماعت اور مذہبی معاشرہ نہیں بتا سکتا۔


دعوتِ اسلام کے نفسیاتی ، سماجی جز کا ملخص جو او پر بیان کیا گیا ہے۔ اس حقیقت کی بھر پور صداقت و اہمیت اس وقت آپ کے سمجھ میں آسکتی ہے جب کلام اللہ سے اس کی واضح تفصیلات سامنے آجائیں: ترجمہ: ”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں میں بہت سے مرد و عورت پھیلائے ۔ (کنز الایمان)


سب سے پہلی حقیقت جو قرآن میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ اور اس بنا پر تمام اپنے اصل کے اعتبار سے ایک ہیں۔


اس کی دوسری اہم حقیقت جو قرآن پاک نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ وہ یہ ہے که انسانی وحدت کے اندر قوم و قبیلوں کی کثرت جو اللہ نے پیدا کی ہے، وہ صرف باہمی تعارف و امتیاز کے لیے ہے۔ اور ان کے درمیان فضیلت و برتری کا معیار نسل و رنگ اور زبان و وطن نہیں، بلکہ تقویٰ کی اخلاقی عظمت ہے۔


اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا ، تا کہ آپس میں پہچان رکھو۔ بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔ (کنز الایمان )


قرآن مقدس نے یہاں بنی نوع انسان کو خطاب کر کے شیطانی جہالتوں کے مقاصد کی نشاندہی کر دی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر مصائب و آلام کا موجب بنی رہی ہے۔ یعنی نسل و رنگ ، زبان ، وطن اور قومیت کا تعصب وغیرہ۔


دور قدیم سے آج تک ہر دور کا انسان اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز ، اور اپنے اردگرد ایسے چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے، جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف پیدائش (Eccident of Birth) کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلہ یا نسل میں پیدا ہونا ہے۔ کہیں ایک جغرافیائی خطہ میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہونا ہے۔ پھر ان بنیادوں پر اپنی اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی کہ اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس غیر معیار امتیاز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم وستم کی بدترین شکلیں اختیار کی ہیں۔


اس کے لیے فلسفے گڑھے گئے ہیں، مذاہب ایجاد کیے گئے ہیں۔ قوانین بنائے گئے ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں اور قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل درآمد کیا۔ یہودیوں نے اس بنا پر بنی اسرائیل کو خدا کا چہیتا مخلوق، بلکہ انباء اللہ ٹھہرایا اور اپنی مذہبی احکام تک میں غیر اسرائیلیوں کے حقوق اور مرتبہ کو اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔


ہندوؤں کے یہاں ورن آشرم کو اس غیر اخلاقی امتیاز نے جنم دیا، جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی اور اونچی ذات والوں کے مقابلے میں دوسرے تمام انسان پیچ اور نا پاک ٹھہرائے گئے۔ شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گوروں کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ، ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔


آج بیسویں صدی کے آخری حصے اور اکیسویں صدی کے دہانے پر ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین" نسل کے ساتھ کیا سلوک کیا اور آج بھی کیا کر رہے ہیں اور ایشیا و افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اس کی تہہ میں بھی یہی غیر امتیازی برتاؤ کارفرما رہا ہے، کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کی سرحدوں سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان و مال و آبروان پر مباح ہے اور انہیں حق نہیں پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں اور غلام بنا ئیں اور یہ کہ ضرورت پڑے تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹادیں۔


مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے کس طرح درندہ بنادیا ہے۔ اس کی بدترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاسکتی ہے اور آج بھی دیکھی جارہی ہے۔ ہندوستان اس غیر اخلاقی امتیاز کی بنا پر بیکورڈ، فارورڈ (Backward) (Forward کے نام پر کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے؟ صدمہ تو اس کا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں بھی اس طرح کی ناپاک عصبیت کی وبا پھیلنے لگی ہے جو ایمان کو کھا جانے والی چیز ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ شخص اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے جو اسلام پر ایمان لانے کے بعد بھی ذات پات کو تعصب کی بنیاد بناتا ہے اور ایک دوسرے کو اپنے سے حقیر و کم تر سمجھتا ہے۔ انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو ہر آدمی بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم اور تباہ کن شیطانی جہالت و گمراہی میں ہے۔


اس مختصر سی آیت کریمہ میں خالق کائنات نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقت بیان فرمائی ہیں۔


پہلا : یہ ہے کہ سب کی اصل ایک ہے ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں بھی آئی ہے اور آج تمہاری جتنی بھی نسلیں دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں، جو ایک ماں باپ سے شروع ہوئیں ہیں۔ اس سلسام تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقہ اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ ایسا بھی ہے کہ کچھ انسان کسی پاک اور بہتر مادہ سے بنے ہوں اور کچھ انسان دوسرے کسی ناپاک یا گھٹیا ماہ سے بنے ہوں۔ بلکہ ایک ماں باپ کی تم اولا د ہو، اور یہ بھی نہیں کہ ابتدائی انسان جوڑے بہت سے رہے ہوں جن سے دنیا کے مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔


دوسرا: یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری عمل ہے۔ ظاہر ہے پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہو سکتا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ یہ ناگزیر تھا کہ بیشمار خاندان بنے اور پھر خاندان کے قبائل اور حلقے وجود میں آجائیں. اس طرح روئے زمین کے مختلف خطوں میں ہونے کے بعد رنگ و نسل، زبان و وطن اور طرز بود و باس میں اختلاف ہو جانا ایک فطری امر تھا، اور اس فطری فرق میں اختلافات کے تقاضہ یہ ہرگز یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کی بنیاد پر اورنچ پیچ شریف و کمین اور برتر کم تر کے امتیازات قائم کئے جائیں۔ ایک نسل کسی دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ دوسرے لوگوں کو اپنے سے حقیر جانیں، انہیں ذلیل سمجھ کر ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائیں اور انسانی حقوق میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو۔


خالق کا ئنات نے جس وجہ سے انسانی گروہ کو اقوام یا قبائل کی شکل میں مرتب کیا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ان کے درمیان باہمی تعاون کے فطری تقاضوں کی تکمیل ہو سکے۔ اس طریقے سے ایک خاندان، ایک برادری، ایک قبیلہ اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک معاشرہ بنا سکیں اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن سکیں ۔ مگر ی محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخر اور تنافرکا ذریعہ بنالیا گیا اور پھر نوبت ظلم وعدوان تک پہنچادی گئی ۔


تیسرا یہ کہ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہو سکتی ہے وہ یہ کہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا ، برائیوں سے بچنے والا اور نیکی کی راہ پر چلنے والا ہو ۔ خواہ ایسا آدمی کسی نسل کسی قوم اور کسی بھی ملک کا رہنے والا ہو۔ اپنے ذاتی محاسن کی بنا پر قابل قدر ہے اور جس کا حال اس کے برعکس ہے وہ بہر حال ایک کم تر درجے کا انسان ہے۔ چاہے وہ کالا ہو یا گورا ، مغرب کا رہنے والا ہو یا مشرق کا، راجہ ہو یا پر جا، آزاد ہویا غلام اور باندی ہو یا کنیز ۔


اسی حقیقت کا انکشاف قرآن مقدس کی اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے اور جنہیں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف خطبات میں اور ارشادات میں کھل کر بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریریں فرمائی تھیں لوح قلب پر نقش کر لینے کے لائق ہے۔


ترجمہ:شکر ہے اس خدا کا جس نے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا۔ لوگو! تمام انسان دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں


(۱) ایک نیک اور پرہیز گار جو اللہ کے نزدیک عزت والا ہے۔

(۲) دوسرا فاجر اور شقی جو اللہ کے نزدیک ذلیل ہے۔


ورنہ سارے انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا۔ (ترمذی و بیقی و شعب الایمان)


حجتہ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت بصیرت افروز اور پر مغز خطبہ دیا تھا اور ارشاد فرمایا تھا: ترجمہ: ”لوگو! خبردار ہو، تم سب کا خدا ایک ہے، کسی عربی کوکسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پر ، اور کسی کالے کو کسی گورے پر ، اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے اعتبار سے تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہو، بتاؤ میں نے تمہیں یہ بات پہنچادی ، لوگوں نے عرض کیا ، ہاں، یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم سرکار نے فرمایا اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہے۔ (بیہقی)


ایک حدیث میں آپ کا رشاد ہے:

ترجمہ : " تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ لوگ اپنے آباء واجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں، ورنہ اللہ کے نزدیک حقیر کپڑوں سے زیادہ ذلیل ہوں گے۔“


ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:


ترجمہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز حسب و نسب نہیں پوچھے گا، اللہ کے یہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔“

دوسری جگہ رسول کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی واضح طور پر اس فلسفہ کی وضاحت فرمائی ہے۔ ترجمہ: اللہ تمہاری صورتیں اور مال نہیں دیکھتا،بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔“

یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک محدود نہیں ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق عملاً اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری قائم کر کے رکھ دیا ہے جس میں رنگ ونسل، زبان و وطن کی کوئی تمیز نہیں، اونچ نیچ ، چھوت چھات، ذات پات اور تفریق و تعصب کو جہاں کوئی دخل نہیں ہے جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل وقوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے مخالفین کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ اسلامی معاشرہ میں عملی شکل دی گئی ہے، اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی بھی مذہب و نظام میں نہیں پائی جاتی۔ صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بیشمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر صرف عقیدے کی بنیاد پر ایک امت بنادیا ہے۔


اسلام اور پیغمبر اسلام نے انہیں فطری اور نفسیاتی قدروں کے ساتھ انسان کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل نہایت ہی بلند نفسیاتی ماحول میں فکر و احساس کی زمین پر اتار کر کی ہے۔ جہاں حقوق انسانی کا ہر پہلو اپنے کمال کے ساتھ جلوہ گر ہے اور سماجی شعور اور اخلاقی قدروں کی تشکیل نو کے ساتھ تطہیر قلب و نظر کی صداقتیں بھی موجود ہیں ! جو اسلام کا نمایاں تصور سماجیات اور تحفظ حقوق انسانی کا بہترین فلسفہ ہے۔

Post a Comment

0 Comments