کیا فرنگیوں کے طریقے پر ہمبستری کرنا جائز ہے ؟ اور مباشرت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ |
سوال:
فرنگیوں کے طریقے پر ہمبستری کرنا کیساہے؟ اور شریعت میں کس طریقے سے ہمبستری کرنا درست ہے اور کون کون سا طریقہ ہے مکمل وضاحت کریں ۔
الجواب بعون الملک الوھاب
اوقات ممنوعات شرعیہ کے علاوہ صحبت جب چاہے تب اور جس طرح چاہے، کر سکتا ہے مگر اچھی نیت اور احسن طریقے ( یعنی عریانیت اور بے حیاںٔی سے اجتناب کرتے ہوئے) سے کرنا شرعاً محبوب و مطلوب ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ - تمہاری عورتیں تمہاری لئے کھیتیاں ہیں تو آؤ اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو ، اور اپنے بھلے کا کام پہلے کرو۔ (پ ٢ سورہ بقرہ آیت ٢٢٣/ کنز الایمان)۔
تفسیرات احمدیہ میں ہے:
ای نساءکم موضع الحرث لکم فجامعوھن فی موضع الحرث کیف شئتم وعلی ای حال شئتم بارکة او مستقبلة او مضطجعة او قائمة او قائدۃ و قدموا لانفسکم ای قدموا ما یجب تقدیمه من الاعمال الصالحة لأجل انفسکم وھو طلب الولد الصالح او التسمیة علی الوطی او غیر ذلک-
ترجمہ - تمہاری بیویاں تمہاری لئے کھیتی ہیں ۔ تم ان سے موضع حرث (شرمگاہ) میں جماع کرو اور جس طرح چاہو جس حال میں چاہو وطی کرو ، ان کی پشت کی طرف سے آؤ خواہ سامنے کی طرف سے خواہ چت لیٹی ہوں یا پہلو کے بل خواہ کھڑی ہوں یا بیٹھی شرعاً ممانعت نہیں ۔
(📘تفسیرات احمدیہ ص ٧٨)
{و قدموا لانفسکم } سے اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ تم اعمال صالحہ میں پہل کرو ، اور جماع محض تکمیل نفس کے لئے نہ کرو بلکہ طلب اولاد صالح کی نیت سے کرو ، اور قبل وطی بسم اللہ پڑھ لو تاکہ شیطان کی شر سے محفوظ رہو وغیرہ ذالک۔
اور صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں "نساءکم حرث لکم" کے تحت ذکر ہے
"نساءکم حرث لکم" تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں، عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی تم عورتوں کی قربت اور صحبت سے نسل حاصل کرنے کا ارادہ کرو ، نہ کہ صرف اپنی خواہش پوری کرنے کا ۔ نیز عورت سے ہر طرح ہم بستری جائز ہے لیٹ کر ، بیٹھ کر ، کھڑے کھڑے ، مگر شرط یہ کہ ہمبستری قبل یعنی اگلے مقام میں ہو کیونکہ یہی راستہ کاشتکاری یعنی ثمرہ اولاد حاصل کرنے کا ہے ۔
صراط الجنان فی تفسیر القرآن ج ١ ص ٣٩٢)}
اقول= اگرچہ عورت سے ہر طرح سے وطی کرنا جائز ہے مگر سنت رسول کے مطابق کرنا {یعنی یوں کہ برہنگی نہ ہو ، چہرہ اور پیٹھ قبلہ کی جانب نہ ہو ، عورت چت لیٹی ہو اور مرد اکڑوں بیٹھا ہو ) شرعاً محمود ہے ۔ نیز ساںٔنس اور طبی نقطۂ نظر سے بھی صحت کے لئے مفید ہے ۔ اور مغربی طور طریقے پر مثلاً بالکل برہنہ عورت کو جھکا کر یا کھڑا کر کے کھڑے کھڑے ہمبستری کرنا ممنوع ہے اور جسم کے لیے نقصان دہ و مضر بھی ۔ (واضح رہے کہ جہاں کھڑے کھڑے ہمبستری کرنا جائز لکھا ہے وہاں باپردہ مراد ہے)
چنانچہ حدیث شریف میں ہے !
قال رسول ﷺ ! اذا احدکم اھله فلیستتر ، ولایتجرد تجرد العیرین-
ترجمہ- حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو پردہ کر لے اور ہمبستری کے وقت گدھوں کی طرح ننگے نہ ہو ۔
(📘ابن ماجہ ج ١ ص ٣٣٣)
و فیه أيضا = عن عائشة رضی الله عنها قالت ما نظرت او ما رأيت إلى فرج رسول الله ﷺ قط-
ترجمہ- ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی بھی رسول اکرم ﷺ کے مقام ستر کو نہیں دیکھا ۔
(📘ابنِ ماجہ ج ٢ ص ٧٩)
اور حضور سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے سوال ہوا کہ بی بی سے ہمبستری کس طرح سنت ہے؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا
جو وقت تمام شرعی رکاوٹوں سے خالی ہو اس میں ان 3 نیتوں سے : طلب صالح اولاد کہ توحید و رسالت شہید دے تکثیر امت رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کرے۔ عورت کا حق ادا کرنا اور اسے پریشان خاطری و پریشان نظری سے محفوظ رکھنا ، یا د خدا و نیک اعمال کے لئے اپنے دل کو اس تشویش سے فارغ کرنا یوں،کہ نہ اپنی عریانیت ہونہ عورت کی کہ حدیث میں ہے : "ولا یتجردان تجرد العیر" دونوں ( میاں بیوی) ہمبستری کے وقت گدھوں کی طرح برہنہ نہ ہوں۔
اور اس وقت قبلہ کی طرف نہ رخ ہو نہ ہی پیٹھ ، عورت چت لیٹی ہو اور شوہر اکڑوں بیٹھے اور باہم بوس و کنار و مساعی و ملاعبت سے اغاز کرے جب اسے بھی متوجہ پائے تو بسم اﷲ الرحمن الرحیم جنبنا الشیطن و جنب الشیطان مارزقتنا،یعنی اللہ تعالی کے نام سے شروع جو بیحد رحم فرمانے والا مہربان ہے۔ اے اللہ ہمیں شیطان کے وار سے بچا اور جو کچھ تو نے ہمیں عطا فرمایا اس میں شیطان کو ہم سے دور رکھ ۔ کہہ کر آغاز کرے اور اس وقت نہ کوئی بات کرے اور نہ فرج پر نظر کرے ۔ فراغ ہونے کے بعد فورا جدا نہ ہو بلکہ کچھ دیر ٹھرے رہے،یہاں تک کہ عورت کی بھی حاجت پوری ہو جاے ، شریعت میں اس کا بھی حکم ہے۔
(📘فتاویٰ رضویہ ج ٢٣ ص ٣٨٤)
اور غنیۃ الطالبین مترجم میں ہے کہ !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو اسے پردہ کر لینا چاہئے کیونکہ اگر وہ پردہ نہیں کرے گا تو فرشتے شرما کر چلے جائیں گے اور شیطان آجائے گا اور اگر بچہ ہوا تو شیطان اس میں شریک ہوگا ۔
(غنیۃ الطالبین مترجم باب ٧ ص ١٤١ )
اور مولانا محمد فاروق خان رضوی مد ظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں کہ !
مباشرت کھڑے کھڑے نہ کریں یہ جانوروں کا طریقہ ہے اور نہ ہی بیٹھے بیٹھے کہ یہ مرد عورت دونوں کے لئے نقصان دہ ہے ۔ اس طریقے سے مباشرت کرنے سے بدن لاغر اور خاص کر مرد کا عضو تناسل جڑ سے کمزور ہوجاتا ہے ۔ اور اگر حمل قرار پا جائے تو بچہ کمزور اپنگ (ہاتھ پاؤں سے اپاہج) پیدا ہوتا ہے یا پھر جسم کا کوئی حصہ ادھورا ہوگا ۔ بعض معتمد علماء دین نے فرمایا کہ کھڑے کھڑے مباشرت کرنے سے اگر عورت کو حمل قرار پا جائے تو اولاد بد دماغ اور بیوقوف ہوگی یا پیدائشی طور پر نیم پاگل پیدا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ حکیموں کی اس متعلق تحقیق یہ ہے کہ کھڑے رہ کر مباشرت کرنے سے رعشہ(بدن ہلنے) کی بیماری ہوجاتی ہے ۔
(قرینۂ زندگی ص ١٠١)
مباشرت آداب و احکام اور اس کے فوائد و نقصانات آپ کے پیشِ نظر کر دیے گئے ۔ فتأمل و اعمل ماشںٔت ۔
واللہ اعلم بالصواب
1 Comments