![]() |
ٹی وی اور ویڈیو کا استعمال شرعا جائزہے یا نہیں ؟ مفتی مطیع الرحمٰن کا فتوی اور طریقہ استدلال ملاحظہ کریں۔ |
فقیہ النفس، مناظر اہل سنت حضرت مفتی مطیع الرحمن صاحب رضوی " أطال الله بقاءه " سے ایک سائل نے سوال کیا
برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کے فتوی کے خلاف ٹی وی کے جواز کا فتویٰ آپ نے کیسے دے دیا ؟ جبکہ آپ تو پہلے حضور تاج الشریعہ کے حامی ہی نہیں بلکہ پورے طور پر علم بردار تھے، اور اب کیا ہو گیا!؟ کہ جو چیز پہلے نا جائز تھی اب جائز ہوگئی؟ کیا امید رکھوں کہ تشفی بخش جواب دے کر "مسلک اعلی حضرت" کو ماننے والے مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو حقیقت حال سے واقف کرائیں گے؟ والسلام
مفتی صاحب اپنے جواب کی ابتدا یوں فرماتے ہیں : آج کے "مزعوم مسلک اعلی حضرت" نہیں، بلکہ امام احمد رضا کے حقیقی مسلک کا دفاع اور اس کی تائید اور حمایت میری زندگی کا اولین مقصد ہے"۔
" یہ درست ہے کہ میں پہلے جاندار کی تصویر کشی کی بنا پر ٹی وی اور ویڈیو کے استعمال کرنےکو ناجائز سمجھتا تھا، اور آج بھی اصلا نا جائز ہی سمجھتا ہوں، لیکن زمانے کے بدلتے حالات نے مجبور کر دیا کہ جواز کا قول کیا جائے"۔
اس کے بعد مقدمے کے طور پر فرماتے ہیں کہ اسلام کے کچھ قوانین غیر متبدل ہیں ان میں کبھی اور کسی حال میں بھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
اور اس کے بر خلاف اسلام کے کچھ قوانین ایسے ہیں جن میں ضرورت، دفع حرج یا حاجت، عرف، تعامل، مصلحت اور ازالہ فساد کی وجہ سے بعض حالات میں تبدیل ہو سکتے ہیں، اور پھر ان کو مثالوں کے ساتھ واضح کیا۔
پھر فرماتے ہیں : ٹی وی چینل سے پروگرام نشر کرنا بھی بلا شبہ فوٹو بنانا بنوانا ہی ہے تو اصل مذہب کے مطابق یہ بھی حرام ہی ہے۔ اور نامحرم عورتوں کی تصویروں پر مشتمل ہو تو اور قباحت ہوگی۔اسی بنیاد پر ابتداءً میں بھی ٹی وی پر ہر طرح کے پروگرام نشر کرنے کو ممنوع قرار دیتا تھا۔
مگر میرے بھائی! بڑے شہروں کو تو جانے دیجئے چھوٹے شہروں اور قصبوں ہی کو لے لیجئے تو اس میں إلاّ ما شاء الله! ہی کوئی گھر ٹی وی سے خالی ہوگا، اور آج مرتدوں، بدمذہبوں کے چینل رات دن قرآن و حدیث کی ملمع کاری سے، اپنے اپنے مذہب کے تبلیغ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ ہمارے ناجائز کہ دینے سے لوگ ٹی وی، ویڈیو دیکھنا بند کر دیں گے۔ اور غیر مسلمین جنہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر حرف گیری کرنا ہی اپنا شیوہ بنا رکھا ہے، جب وہ تعدد ازواج خصوصاً رسول کریم ﷺ کے تعدد ازواج پر اپنے چینلوں سے پر فریب مسموم اعتراضات کریں گے اور آج کے مغرب زدہ، سادح لوح مسلمان بالخصوص عورتیں اور بچیاں ان اعتراضات کو سنیں گی۔ تو معاذ اللہ! اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے تعلق سے ان کا اعتقاد کیا ہوگا؟
کیا آپ کا تجربہ بتا رہا ہے کہ وہ صحیح علمائے اسلام کی طرف رجوع کر کے اپنے قلوب و اذہان کو اطمینان دلانے کی زحمت گوارا کریں گے؟ اگر ہم ان کے ذہن وفکر کی صفائی کے لیے کتابیں لکھیں، تو کتنے لوگ ہماری کتابیں پڑھیں گے؟جلسہ و جلوس ترتیب دیں، تو کتنے مقررین حضرت مولانا قمر الزماں اعظمی جیسے مفکر اسلام ہیں، جو اس فریضہ کو باحسن وجوہ انجام دے پائیں گے؟دے بھی پائیں، تو لاکھوں، کروروں افراد نے بیک وقت وہ مسموم و پر فریب اعتراضات سنے ہوں گے اور ہمارے جلسوں کے سامعین کتنے اور کیسے لوگ ہوں گے؟ وہ آپ کو معلوم ہے۔
اس لیے اپنی اصل کے اعتبار سے ٹی وی چینلوں اور ویڈیوز کے ذریعے کسی طرح کا بھی پروگرام نشر کرنا، ناجائز ہونے کے باوجود آج کے ماحول میں میرے نزدیک لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے صحیح دینی معلومات پر مشتمل پروگرامات کے نشر و اشاعت نہ صرف جائز، بلکہ کار ثواب ہے ؛جیسا کہ گزشتہ سطروں میں یہ اسلامی قاعدہ آپ کے بھی زیر نظر آچکا: إِذَا ابْتُلِيَ بِبَلِيَّتَيْنِ فَلِيُخَيِّرْ أَهْوَنَهُمَا ( جب آدمی دو بلاؤں میں محصور ہو جائے تو جو بلا کمتر ہو، اسے اختیار کر لے)
پھر غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائیے گا! میں کار ثواب اس چھوٹی بلا کو اپنانے پر نہیں کہ رہا ہوں،اس کے بالمقابل جو بڑی بلا ہے اس سے بچنے پر کہ رہا ہوں۔
رہی بات حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے اختلاف کی! تو وہ در اصل تصویر کشی کی وجہ سے ٹی وی، ویڈیو کے جواز و عدم جواز کا اختلاف نہیں، بلکہ آج کے حالات میں اس کی حاجت و ضرورت کے تحقق کا اختلاف ہے۔میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ حاجت و ضرورت متحقق ہوگئی ہے، اور ان کا خیال تھا کہ حاجت و ضرورت متحقق نہیں ہوئی ہے۔ جب تک میرے نزدیک بھی حاجت و ضرورت متحقق نہ تھی،میں بھی عدم جواز ہی کا حکم دیتا تھا جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کر آیا۔ اگر حضرت تاج الشریعہ کے نزدیک بھی حاجت و ضرورت کا تحقق ہو جاتا تو بلا شبہ وہ بھی جواز ہی کا حکم دیتے۔ جیسے الیکشن کارڈ بنوانے کی حاجت و ضرورت ان کے نزدیک بھی متحقق ہوگئی تھی تو انہوں نے بھی اس کے لیے فوٹو کھینچنے اور کھنچوانے کے جواز کا حکم دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میرے فتوئ جواز کی شہرت، حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے علم میں آجانے کے بعد بھی، میں بارہا ان کی خدمت میں حاضر ہوا، لیکن انہوں نے اس بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں فرمایا؛ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ اختلاف در اصل ضرورت کے تحقق اور عدم تحقق کا ہے، تصویر کشی کو جائز قرار دینے، نہ دینے کا نہیں۔
0 Comments