سوال:
بعض جگہوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب موذن خطبہ کی اذان دیتا ہے اور اس میں اشھد ان محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو کچھ لوگ اس وقت انگوٹھا چومنے لگتا ہےاور پھر جب اذان مکمل ہوجاتی ہے تو ہاتھ اٹھاکر دعا مانگتا ہے ۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب
ایسا کرنا صحیح نہیں یہی احوط وافضل ہے۔
خطبہ کی اذان کا جواب زبان سے دینا، خطبہ میں نام پاک سن۔کر انگوٹھا چومنا ، اذان مکمل ہونے ہاتھ اٹھا کر دعا یہ فقط امام صاحب کے لیے جائز ہے۔ مقتدیوں کے لیے نہیں۔ مقتدی اگر جواب دینا چاہے تو دل میں دے۔ ہاتھ اٹھاکر انگوٹھا چومنا اور اذان ہونے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا یہ ان کے لیے جائز نہیں ۔
ردالمحتار میں ہے:
''وينبغي أن لا يجيب بلسانه اتفاقاً في الأذان بين يدي الخطيب''۔( شامی ۔1/ 399)
اور فتاوی رضویہ میں ہے :
ہاں یہ جواب اذان یا دُعا اگر صرف دل سے کریں زبان سے تلفّظ اصلاً نہ ہو تو کوئی حرج نہیں کماافادہ کلام علی القاری وفروع فی کتب المذہب جیسا کہ ملّا علی قاری کے بیان سے مستفاد ہے اور دیگر فروع کتب مذہب میں ہیں۔
اور امام یعنی خطیب تو اگر زبان سے بھی جوابِ اذان دے یا دعا کرے بلاشبہہ جائز ہے۔
وقدصح کلا الامرین عن سیدالکونین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی صحیح البخاری وغیرہ۔
صحیح بخاری وغیرہ میں ہے یہ دونوں امورسید کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ یہ قول مجمل ہے۔
اذانِ خطبہ کے جواب اور اس کے بعد دُعا میں امام وصاحبین رضی ﷲ تعالٰی عنہم کا اختلاف ہے بچنا اولٰی ، اور کریں تو حرج نہیں، یوں ہی اذانِ خطبہ میں نام ِپاک سن کر انگوٹھے چومنا اس کا بھی یہی حکم ہے لیکن خطبہ میں محض سکوت وسکون کا حکم ہے، خطبہ میں نامِ پاک سن کر صرف دل میں درود شریف پڑھیں اور کچھ نہ کریں زبان کو جنبش بھی نہ دیں،،
(ماخوذ از: فتاوی رضویہ جلد ہشتم کتاب الصلوة ص466)
جائز نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فتاوی فقیہ ملت ، جلد اول،ص: ٢۴٣/ میں ہے ۔ مقتدیوں کو خطبہ کی اذان کا جواب زبان سے دینا اس لیے جائز نہیں کہ ہمارے مذہب میں مفتی بہ قول یہ ہے کہ جب امام خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھے اس وقت سے لے کر ختم نماز تک ہر قسم کا کلام منع ہے خواہ وہ کلام دینی ہو یا دنیاوی اور خطبہ کی اذان کا جواب دینا دینی کلام ہے اس وجہ سے یہ بھی جائز نہیں۔
ردالمحتار جلد دوم ، ص: ١٦٠/ باب الجمعة میں ہے "اجابة الاذان حینئذ مکروھة "۔ در مختار مع شامی جلد دوم ،ص: ١۵٨/ پر ہے "اذا خرج الامام من الحجرة ان کان والا فقیامہ للصعود شرح المجمع فلا صلاة و کلام الی تمامھا "۔ اور تنقیح ضروری حاشیہ قدوری ،ص: ٣٧/ پر ہے "وفی العیون المراد بہ (ای الکلام ) اجابة الموذن اما غیرہ من الکلام فیکرہ بالاجماع اھ "
فقط والله ورسوله اعلم۔
اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔
ازقلم: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
پیشکش.. محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی..
0 Comments