وہابیہ کے ذبیحہ سے متعلق حضور شیخ الاسلام کا بیان، وہابیوں کا ذبیحہ کھانا کیسا ہے

وہابیہ کے ذبیحہ سے متعلق حضور شیخ الاسلام کا بیان اعلی حضرت محدث بریلوی و دگر مفتیان اہل سنت کے جوابات کے عین مطابق ہے

نحمدہ و نسلم و نصلی علی رسولہ المختار و علی آلہ و صحبہ الاخیار۔ امابعد!

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے،

نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں.

کئی دنوں سے واٹس ایپ ، فیس بک وغیرہ میں رئیس المحققین شیخ الاسلام و المسلمین کا وہابیہ کے ذبیحہ سے متعلق والا بیان خوب گشت کر رہا ہے ، بہت سارے حضرات اس بیان کو لے کر کافی شش و پنج میں ہے، اور بہت سارے گروپوں میں اس بیان کے حوالے سے بہت زیادہ بحث مباحثہ بھی ہو رہے ہیں ۔مگر جب سے حضور شیخ الاسلام نے یہ بیان دیا ہے تب سے لے کر اب تک میری معلومات کے مطابق اہل سنت و جماعت کے کسی بھی بڑے معتمد و مستند عالم دین نے اس بیان کے خلاف نہ کوئی بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی کوئی تحریر لکھ کر اس بیان کا رد کیا ہے۔ (ایسا نہ ہونا اس بات کی طرف کی۔ مشیر ہے کہ حضرت کا بیان بالکل حق ودرست ہے)

مگر کچھ ایسے مولوی ہیں جن کو ان کے گھر والے بھی اسے مولوی ماننے کے لیے تیار نہیں، جن کو عین غین کا بھی سہی سے علم وخبر نہیں ۔

وہ چلے ہیں حضور شیخ الاسلام کے بیان کو سمجھنے ۔ جب کہ ان کے بیان کو سمجھنے کے لیے کافی باریک بینی ، بالغ نظری ، فقہی بصیرت ، وسیع فکر و نظر ، عمدہ تحقیق وتدقیق اور دس من عقل و دانائی اور دور اندیشی کی ضرورت پڑتی ہے۔

وہابیہ کے ذبیحہ سے متعلق حضور شیخ الاسلام کا بیان، وہابیوں کا ذبیحہ کھانا کیسا ہے
وہابیہ کے ذبیحہ سے متعلق حضور شیخ الاسلام کا بیان، وہابیوں کا ذبیحہ کھانا کیسا ہے


تاریخ شاہد ہے کہ رئیس المحققین ، سند المفسرین حضورشیخ الاسلام والمسلمین کی ذات وہ ذات ہیں جن کی تحریریں کبھی کبھی اہل سنت کے  کے جلیل القدر علماء کو بھی فی الوقت سمجھ میں نہ آئی بلکہ تیس سال بعد سمجھ میں آئی۔"تو ما و شما کس کھیت کے مولی"۔

اب ہم سب سے پہلے بلا کسی تمہید و تفصیل کے حضور شیخ الاسلام کے زیر بحث بیان کو من و عن آپ قارئین کی خدمات عالیہ میں پیش کرتے ہیں اور ادبٙٙا التجا کرتے ہیں کہ آپ قارئین پہلے

حضرت کے بیان کو مکمل حاضر دماغی ، بلا خوف لومة لائم ، صداقت قلبی اور پوری سنجیدگی سے پڑھیں اور سنیں ۔ پھر اس کے بعد آپ اپنا تاثر و تبصرہ دیں اور فیصلہ کریں کہ حضرت کا بیان کہاں تک درست ہے؟

اس کے بعد ہم یکے بعد دگرے یہ بھی پیش کریں گے کہ حضور شیخ الاسلام کے بیان سے قبل اور کس کس نے یہ جواب دیا ہے کہ عام وہابی کا ذبیحہ حلال ہے۔

چناں چہ حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں:


"پتہ نہیں ، آپ لوگ کیا جواب سوچتے ہوں گے اب خطرناک جواب آنے والا ہے ، سوال ہی ایسا ہے نا۔ میں بتاؤں مختصر۔اس مختصر کو نہ آپ سمجھ سکیں تو اپنے علاقے کے علماء سے سمجھیں ، میں چند منٹوں میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔

سمجھیں! ذبیحہ جو حرام ہے وہ کسی کافر کا ذبیحہ ، وہ حرام ہے ۔ گمراہ بہت سے ہیں گمراہوں کی لسٹ بناؤ تو بڑی لمبی چوڑی ہے مگر ہر گمراہ کافر نہیں جب تک کہ اس کی گمراہی کفر تک نہ پہنچ جائے ۔ کسی شخص کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ اس نے کفر کیا ہے اور اس کے کفر کی آپ کو اطلاع شرعی ہو بالکل شک نہ ہو تو ایسے کے ہاتھ کا ذبیحہ آپ نہیں استعمال کرسکتے ہیں ۔ مگر جس کے بارے میں آپ کو خبر ہی نہ ہو ۔ جب خبر ہی نہیں ہو تو اس کو آپ کافر نہیں کہہ سکتے ۔ اور جب کافر نہیں کہہ سکتے تو مسلمان کہنا پڑے گا جو کافر نہیں وہ مسلمان ۔ آپ جب مسلمان ہے اس کا اس کا ذبیحہ بھی ٹھیک ہے تو یہ سب چیزیں بہت باریکی سے سمجھنے کی ہوتی ہیں ، کسی پر ایسے الزام لگا کر کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا ہے۔

آپ نے وہابی کا نام لے لیا وہابی گمراہ جماعت ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر ان وہابیوں کے اندر کوئی درجہ کفر تک پہنچا۔ ہمارے جلیل القدر علماء نے جب انہوں نے پہچان کرائی تو صرف پانچ۔ درجہ کفر تک پہنچنے والے پانچ ہیں اور ان کا کچھ ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ان کی کتاب مشہور ہے وہ پانچ ہیں ان کی پیروی کرنے والے ہیں جو۔ ان کے کفر کو نہیں جانتے ہیں وہ بھی کافر نہیں ۔ کافر ہونے کے لئے ان کا کفر جاننا ضروری ہے ، یہ پانچ تو ہیں وہ جنہوں نے کفر کیا اور میں سمجھتا ہوں پانچ ہزار پانچ لاکھ ہوں گے وہ جو ان کے پیچھے چل رہے ہیں مگر وہ جانتے ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کفر کیا۔ جب جانتے نہیں تو اس کا کچھ نہیں وہ گمراہ رہیں گے ان سے بچنا ضروری ہے اس گمراہ سے دور رہنا اچھا ہے، ضوری ہے، لازمی ہے اور سب اچھا ہے مگر شرعی مسئلہ آپ پوچھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کیسا ہے ؟ تو اس کے لئے تو کفر کا قطعی علم ہونا چاہئے جو کسی کو ہوتا نہیں ہے بہت سارے مولوی حضرات بھی ہیں جو کفر کو نہیں جانتے ۔ آپ سوچیں اتنی بڑی دنیا میں صرف پانچ کو کافر کہنا باقی کو گمراہ کہنا اس میں بھی تو کوئی حکمت ہے، اس میں تو کوئی مصلحت ہے۔ تو آپ نے جو سوال کیا ہے ۔ 

ذبیحہ والا معاملہ ۔آپ یقین جانیے امید رکھیے کہ جتنے ذبح کرنے والے ہیں وہ درجہ کفر تک نہیں پہنچے ہیں لہذا سے کرید کرنے کی ضرورت ہی نہیں ، وہ جاھل، جپٹ آدمی کتابوں کو نا سمجھ پائیں نہ وہ سمجھ سکیں کہ کیا کفر ہے کیا ایمان ہے؟ ایسے جاہل ،جپٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں ان کا ذبیحہ۔  ان میں ان کو ذبیحہ مت کجیئے کہ انہیں کا ذبیحہ ہو جائے۔ سمجھیں! مگر ان کا ذبیحہ جو ہے شرعی نقطہ نظر سے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ کوئی استعمال نہ کریں کہ صاحب ! ہم تو نہیں تو آپ کی مرضی کی بات ہے ، ایسا نہیں ہے زبردستی ہم آپ کو کھلائیں گے۔

تو عام حالات اور ظاہری حالات کو اگر دیکھیے تو یہ صرف گمراہ عوام لوگ ہیں۔ جن پر کفر کے فتوے ہیں وہ اور ہیں ،ان کا علم بھی یہ لوگ نہیں جانتے ، ان کا ہی نام بھی یہ نہیں جانتے ، وہ آرہے ہیں وہ اپنی جگہ پر یہ صرف گمراہ ہیں بھٹکے ہوئے ہیں ان کو محبت اور خلوص کے ساتھ سمجھائیے اور اپنے راستے پر لائیے یہ ہمارا فریضہ بنتا ہے".

حضرت کے اس مذکورہ بالا بیان کو آپ بار بار پڑھیں ،سوچ سجمھ کر پڑھیں ، غور و خوض کے ساتھ پڑھیں، بالکل مطمئن اور حاضر ذہن ہوکر پڑھیں ۔ جب اس طرح آپ پڑھیں گے تو مجھے یقین کامل ہے کہ آپ پر حضرت کے بیان کا یہ خلاصہ واضح ہوجائے گا کہ حضرت نے جو بیان دیا ہے وہ مشروط طریقے سے بیان دیا ہے ، نیز یہ ظاہر ہوگا کہ حضرت نے ان وہابیوں کے ذبیحہ کو حلال کہا ہے جن وہابیوں کے عقیدے حد کفر کو نہیں پہنچے ہیں۔

اس طرح کا جواب دینے میں فقط حضور شیخ الاسلام منفرد نہیں ہیں بلکہ اس طرح کا جواب خود امام اھل سنت،  اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ اور اس کے علاوہ دگر علماء اھل سنت نے بھی دیا ہے۔

چناں چہ اعلی حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :

 فتاوی رضویہ ، جلد 8/ ص: 330/ میں ہے کہ" جو بدمذہب ضرورت دین اسلام میں سے کسی عقیدہ کا منکر ہو یا اس میں شک کرے یا تاویلیں گڑھے باجماع  تمام  علمائے اسلام وه سب کے سب کافر و مرتد ہیں غرض ایسے لوگوں کے کفر میں ہرگز شک نہ کیا جائے کہ جو ان کے عقیدے پر مطلع ہوکر پھر سمجھ بوجھ کر ان کے عقیدے میں شک کرے وہ خود کافر ہو جاتا ہے. ہاں جو بدمذہب دين اسلام کے ضروری باتوں میں سے کسی بات میں شک نہ کرتا ہو صرف ان کے نیچے درجے کے عقیدوں میں مخالف ہو وہ اگرچہ گمراہ ہے مگر  کافر نہیں اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے " اھ۔

اس مذکورہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ جواب کی روشنی میں حضرت کے بیان کو دیکھیں تو یہ بات سب پر عیاں ہوجائے گی کہ حضرت نے جو بیان دیا ہے وہ بالکل حق و صواب ہے۔

اسی طرح مفتی شریف الحق امجدی رضوی نے بھی لکھا ہے کہ جن دیوبندیوں کا عقیدہ حد کفر کو نہ پہونچا ہو ان کی بچی سے نکاح کرنا صحیح ہے جیسا کہ فتاوی شارح بخاری جلد سوم ٢۵٧/ میں ہے : "لیکن میرا تجربہ ہے کہ عوام الناس تو عوام الناس بہت سے پڑھے لکھے دیوبندی بھی ان عبارتوں سے واقف نہیں ہوتے خصوصا عورتیں تو ناواقف ہوتی ہیں اس لیے جب تک تحقیق سے ثابت نہ ہوجائے کہ  یہ عورت ان کفری عبارتوں پر مطلع ہے پھر بھی ان عبارتوں کے لکھنے والوں کو اپنا پیشوا مانتی ہے یامسلمان جانتی ہے۔اس لئے عام دیوبندی کی لڑکیوں پر مرتدہ کا حکم لگانا درست نہیں اس تفصیل کے مطابق اگر کوئی سنی کسی دیوبندی کی لڑکی سے نکاح کرے تو نکاح صحیح ہے توبہ اور تجدید ایمان کی بھی حاجت نہیں

لیکن چوں کہ شادی بیاہ بغیر طرفین کے باہمی رضامندی اور خصوصی اعتماد کے بغیر نہیں ہوتا۔ نیز شادی بیاہ کے تمام رسموں میں دیوبندیوں سے اختلاط ان کے ساتھ نشست و برخاست ان کے ساتھ خورد ونوش لازمی طور پر ہوتا ہے پھر شادی کے بعد آمد و رفت خلط ملط باقی رہتا ہے اس لئے کسی دیوبندی کی لڑکی سے شادی کرنا جائز نہیں ۔ کہ جو چیز حرام کی طرف مفضی وہ بھی حرام ہوتی ہے اگرچہ اصل میں جائز ہو میرا ظن غالب یہی ہے کہ یہ لڑکی بھی ان کفری عبارتوں سے واقف نہیں ہوگی. مزید اطمینان کے لیے تحقیق کر لی جائے اور اب وہ کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر کے مذہب پر ہوں تو اسے سنی ہی مانا جائے گا اور نکاح کو صحیح مانا جائے گا۔

اس پوری عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عام دیوبندی لڑکی سے نکاح اصولا جائز ودرست ہے ہاں احتیاط کرنا اولی و افضل ہے ۔ ارے جب عام دیوبندی لڑکی سے نکاح درست ہے جب کہ نکاح باب اعتقادیات و ایمانیات میں سے ہے جب وہ درست تو ذبیحہ جو باب عملیات میں سے ہے وہ کیسے درست نہیں ہوسکتا؟ مگر پھر میں آئینہ دکھانے کے بطور یہ عرض کروں گا کہ مفتی شریف الحق صاحب کے جواب کو سامنے رکھتے ہوئے حضور شیخ الاسلام کے بیان کا جائزہ لیں ۔ اور غور کریں کہ حضرت کا بیان کہاں تک درست ہے ۔ یقین ہے حقانیت آپ پر منقح ہوجائے گی.

اسی طرح فتاوی فقیہ ملت جلد دوم ، ص: ٢٣٨/ میں ہے ۔

سوال: ہوا کیا فرماتے ہیں مفتیان دین وملت اس مسئلہ میں کہ جو برائے نام دیوبندی یا وہابی ہیں جن کو علم سے کوئی واسطہ نہیں ایسے لوگوں کا ذبیحہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

تو اس سوال کا جواب دیا گیا ۔

الجواب : اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی عنہ ربہ القوی تو یوں تحریر فرماتے ہیں کہ اب وہابیہ میں کوئی ایسا نہ رہا جس کی بدعت کفر سے گری ہوئی ہو خواہ وہ غیرمقلد ہویا بظاہر مقلد(فتاوی رضویہ جلد سوم صفحہ نمبر ١٧٠) لیکن بالفرض بقول سائل اگر کچھ لوگ برائے نام دیوبندی ہوں جن کو علم سے کوئی واسطہ نہ ہوں تو ان کے سامنے مولوی اشرفعلی تھانوی، قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی اور خلیل احمد انبیٹھی کے کفریات قطعیہ مندرجہ حفظ الایمان صفحہ ٨/ تحذیر الناس٣، ٢٨، ١۴ اور براھین قاطعہ صفحہ ۵١/  پیش کئے جائیں اور انھیں بتایا جائے کہ ان کفریات کی بنا پر مکہ معظمہ، مدینہ طیبہ ،ہندوستان و پاکستان ، برما اور بنگلہ دیش وغیرہ کے سینکڑوں علمائے کرام و مفتیان عظام مذکورہ  مذکورہ بالا مولویوں کو کافر و مرتد قرار دیا ہے اس کا مفصل بیان فتاوی حسام الحرمین اور الصوارم الھندیہ میں ہے۔

پھر وہ لوگ جو سائل کے نزدیک برائے نام دیوبندی ہیں اگر اس فتوی کو حق مانیں اور مولویان مذکورہ کو کافر و مرتد کہیں تو ان کا ذبیحہ حلال ہے اور اگر انہیں کافر و مرتد نہ کہیں یا ان کے کفر میں شک کریں تو ان کا ذبیحہ حرام ہے ۔علمائے اہل سنت کا بالاتفاق ارشاد ہے۔ من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر.

واللہ تعالیٰ اعلم ۔

کتبہ محمد غیاث الدین نظامی مصباحی

اب اس فتوی کی تصدیق کرتے ہوئے فقیہ ملت حضرت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

الجواب صحیح ۔ جلال الدین الامجدی۔

اس جواب سے بھی واضح ہورہاہے کہ عام دیوبندیوں کو علی الاطلاق کافر کہنا اور اس کے ذبیحہ کو مردار کہنا بالکل درست نہیں۔ اور جن کا عقیدہ کفریہ نہ ہو اس کا ذبیحہ حلال ہے ۔

اور یہی جواب رضوی نیٹورک میں بھی موجود ہے۔ 

ظاہر ہے رضوی نیٹورک والے اس جواب کو یعنی عام وہابی و دیوبندی کا عقیدہ حد کفر کو نہ پہنچا ہو اس کا ذبیحہ حلال ہے۔  صحیح مانتے ہیں تبھی اپنے نیٹورک پہ اسے اپ لوڈ کرکے محفوظ رکھا ہے۔

"عام وہابی کا ذبیحہ حلال ہے"اس طرح کا ایک جواب نیٹ پر موجود ازھری گروپ میں save ہے۔ جواب دینے والے کا نام مفتی مشاہد رضا امجدی ۔ جن کا پتہ ہے انٹیا تھوک بازار گونڈہ یوپی۔ سوال مع جواب ملاحظہ کریں

کیا وہابی دیوبندی کا ذبح کیا ہوا جائز ہے؟

سوال :کیا فرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ حلال جانوروں کا ذابح کیسا ہوناچاہئے ۔ کیا وہابی دیوبندی کا ذبیحہ جائز ہے ؟ جو بھی حکم شرعی ہو دلیل کے ساتھ واضح فرمائیں ۔


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب

ذبیحہ کے حلال ہونے کے لے ذابح کا مسلمان اور عاقل ہونا شرط ہے اسی لے اس بچے کا ذبیحہ بلا کراہت جائز و درست ہے جو ذبح شرعی کو سمجھتاہو اگر چہ بالغ نہ ہو ۔اور وہابی دیوبندی اپنے عقائد باطلہ کی بنیاد پر کافرومرتد ہیں اور مرتد کا ذبیحہ حرام ومردار ہے ۔لیکن اگر وہابی بایں طور ہوکہ وہ نیاز و فاتحہ ودیگر معمولات اہلسنت کو ناجائز وبدعت سمجھتا ہے ۔اور وہابی عالموں کو سنی عالموں کی طرح اپنا پیشوا جانتا ہے ۔مگر ان وہابیوں کے عقاید کفریہ سے مطلقا واقف نہیں تو وہ گمراہ بدمذہب ضرور ہے کافر نہیں ۔لہزا اس طرح کے وہابی کا ذبیحہ جائزودرست ہے

درمختار میں ہے "وشرط کون الذابح مسلماحلالا” اھ (درمختار ج 9 ص 428 کتاب الذبائح) فتاوی ہندیہ میں ہے "واما شرائط الذکاۃ فانواع ۔منھا ان یکون مسلم اوکتابیا فلا توکل ذبیحۃ اھل الشرک والمرتد لانہ لایقرء علی الدین انتقل الیہ "اھ(فتاوی ہندیہ ج 5 ص 255 کتاب الذبائح الباب الاول)

فتاوی رضویہ میں ہے"جو بدمذہب ضروریات دین اسلام میں سے کسی عقیدہ کا منکر ہو یا اس میں شک کرے باجماع تمام علماے اسلام وہ سب کے سب کافرومرتد ہیں ۔ہاں جو بدمذہب دین اسلام کی ضروری باتو ں میں سے کسی بات میں شک نہ کرتا ہو صرف ان کے نیچے درجے کا عقیدوں میں مخالف ہو۔وہ اگرچہ گمراہ ہے کافر نہیں. اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے،، (فتاوی رضویہ ج 8 ص 330 ) واللہ اعلم بالصواب

کتبـــــــــہ. مفتی شاہد رضا امجدی گونڈا یو پی.

بعینہ یہی جواب اعلی حضرت زندہ باد ، امجدی گروپ میں مفتی محمد اسماعیل خان امجدی (خادم التدریس شہید اعظم دولہا پور ضلع گونڈہ یوپی نے دیا ہے۔


مفتی کریم اللہ رضوی سے سوال ہوا

کیا عام دیوبندی، وہابی کا ذبیحہ حلال ہے؟

تو اس سوال کے جواب میں آپ کیا فرماتے ہیں مع سوال و جواب ملاحظہ کریں...

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 

عام دیوبندی وہابی کا ذبیحہ حلال ہے کہ نہیں نیز جانور میں اس کی شرکت کا کیا حکم ہے؟

 ساٸل محمد مصدق رضا قادری


وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

جواب: دیوبندی وہابی وہ ہے جو  گستاخ رسول ہو ، ضرورت دین کا منکر ہو یا پیشوان وہابیہ مولوى اشرف على تھانوی ، رشید احمد گنگوہی وغیرہ کے عقائد کفریہ پر مطلع ہوکر بھی انہیں کافر و مرتد نہ مانے بلکہ مسلمان سمجھیں اور جو شخص وہابی دیوبندی ہو وہ کافر و مرتد ہے اور کافر کاذبح احرام و مردار ہے اور وہ گوشت فروخت کرے تو اس کا خریدنا حرام اور کھانا بھی حرام ہے ۔

لیکن اگر کوئی وہابی اس معنى کر ہو کہ وہ نیاز فاتحہ کو ناجائز جانتا ہے یوں ہی دیگر معاملات اہلسنت کو بدعت سمجھتا ہے وہابی مولوی کو سنی عالموں کی طرح اپنا دینی عالم سمجھتا ہو مگر ان کے عقائد کفريہ سے مطلقا باخبر نہ ہو تو گمراہ بدمذہب ہے کافر نہیں لہذا اگر اس طرح کا وہابی ہے تو اس کا ذبیحہ حلال ہے تو اس سے گوشت خريدنا اور اسکا کھانا حلال ہے

فتاوی رضویہ میں ہے کہ

"جو بدمذہب ضرورت دین اسلام میں سے کسی عقیدہ کا منکر ہو یا اس میں شک کرے یا تاویلیں گڑھے باجماع تمام علمائے اسلام وه سب کے سب کافر و مرتد ہیں غرض ایسے لوگوں کے کفر میں ہرگز شک نہ کیا جائے کہ جو ان کے عقیدے پر مطلع ہوکر پھر سمجھ بوجھ کر ان کے عقیدے میں شک کرے وہ خود کافر ہو جاتا ہے. ہاں! جو بدمذہب دين اسلام کے ضروری باتوں میں سے کسی بات میں شک نہ کرتا ہو صرف ان کے نیچے درجے کے عقیدوں میں مخالف ہو وہ اگرچہ گمراہ ہے مگر  کافر نہیں اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے" اھ ( فتاوی رضویہ ج 8 ص 330 ) اور درمختار میں ہے کہ " لا تحل ذبيحة غير کتابى من وثنى و مجوس و مرتد " اھ ( در مختار ج 6 ص 298 ) اور اسی میں دوسری جگہ ہے کہ"و شرط کون الذابح مسلماحلالا" اھ ( در مختارج 6 ص 269 ) فتاوی ہندیہ میں ہے کہ " لا توکل ذبيحة اهل الشرک و المرتد "اھ ( فتاوی ھندیہ ج 5 ص 285 ) اور بڑے جانور میں ان کی شرکت سے سنی کی قربانی نہیں ہوگی کیونکہ وہابی دیوبندی کی شرکت سے تقرب الى اللہ نہ پائی گئی جیسا کہ علامہ مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ"قربانی کے جانور میں دیوبندی شریک ہو تو سنى کی قربانی نہیں ہوگی دیوبندى پر علمائے عرب و عجم نے کفر کا فتویٰ دیا ہے" اھ ( فتاوی بحر العلوم ج 5 ص 189 : کتاب الاضحیة)

واللہ اعلم باالصواب

کریم اللہ رضوی

عام وہابی کا ذبیحہ حلال ہے۔ ایساجواب پیغام قادری رضوی گروپ میں مفتی محمد غفران رضا نعمانی پالوجوری ضلع دیو گھر جھارکھنڈ نے دیا ہے اور اس کی تصدیق مفتی محمد اظھر الدین علیمی (صدر المدرسین حسینیہ نظامیہ رضانگر بٹھنڈی جموں و کشمیر نے فرمائی ہے۔


دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے،

اس گھر کو آگ لگ گئی ہے گھر کے چراغ سے


میری مذکورہ بالا تحریرات سے یہ ثابت ہوچکا کہ حضور شیخ الاسلام کا بیان بالکل حق و درست اور عین صواب پر محمول ہے۔ اور ان تحریروں سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام وہابی ذبیحہ سے متعلق جو جواب حضور شیخ الاسلام نے دیاہے اس طرح کا جواب اعلی حضرت کے فتاوی میں بھی موجود ہے اور مفتی شریف الحق امجدی ، مفتی جلال الدین امجدی ، مفتی کریم اللہ رضوی ، مفتی مشاہد رضا امجدی ، مفتی غفران رضا نعمانی ، مفتی اسماعیل خان امجدی وغیرھم حضرات نے بھی دئے ہیں جو انھیں ہفوات بکنے والوں کی آئی ڈی و انسٹال گرام ، ٹیلی گرام وغیرہ میں موجود ہیں ۔ مگر آج تک ان نام نہاد مولویوں کاجی ، رجوی وغیرہ نے کوئی زبانی بیان دیا ہے اور نہ کوئی تحریری وضاحت پیش کیا ہے ۔ میں نے اپنی تحریر سے انھیں آئینہ دکھادیا ہے تبھی تو کہتا ہوں کہ

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے،

نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں.

 مگر جب حضور شیخ الاسلام نے بیان دیا تو یزیدی خیموں میں پناہ گزیں سارے چوہے اپنے اپنے بل سے باہرآگئےاور برساتی مینڈکوں کی طرح سانٹھ پینسٹھ ، سانٹھ پینسٹھ کرنے لگے۔ آخر ایسا کیوں؟ ع

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

بات کہاں کسی مسئلہ کی تھی مگر کچھ ناعاقبت اندیش نے اس مسئلہ کی آڑ میں اپنے بغض و حسد کا ثبوت دیتے ہوئے حضور شیخ الاسلام کو نام نہاد شیخ الاسلام اور فسادی الاسلام حضور غازی ملت کو غاصب ملت اور نہ جانے کیا کیا اپنی غلیظ زبان و قلم سے مغلظات بکا اور لکھا اور پھر پچھلے نزاعات کو پیش کرکے ان کی شان میں طرح طرح کے نازیبا کلمات لکھ گئے۔ اور حضور شیخ الاسلام اور حضور غازی ملت کو کچھ سے کچھ کہہ گئے۔ العیاذ باللہ

حالاں کہ جو حقیقی اور صحیح رضوی ہوتے ہیں وہ کبھی ایسی جرات نہیں کرتے اس لیے جو حقیقت میں رضوی اور مسلک اعلی حضرت کا ماننے والا ہوتا ہے ان کے دل و دماغ میں  حضور اعلی حضرت کی یہ بات ضرور بسی رہتی ہے کہ اگر کوئی سید زادہ گمراہ بھی ہوجائے تب بھی وہ واجب التعظیم ہے

مگرجو نام نہاد رضوی اور فی الحقیقت رجوی کہلانے اور مسلک اعلی حضرت کا وفادار فقط اپنی روٹی بوٹی سینکنے تک ہوتا ہے۔ تو پھر ایسے لوگ مخبوط العقل ہوکر کچھ سے کچھ بکے چلے جاتے ہیں ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں اور کسی سید زادہ کی گستاخی کرتے ہیں میرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ اس طرح کے بیانات میں وقت ضایع نہ کرکے اپنی پیدائش کی تحقیق  کریں کہ آخر وہ کس قسم کی پیداوار ہے۔ کما ورد فی الحدیث:

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي وَ الْأَنْصَارِ وَ الْعَرَبِ فَهُوَ لإِحْدَي ثَلاَثٍ : إِمَّا مُنَافِقٌ، وَ إِمَّا لِزِنْيَة، وَإِمَّا امْرَؤٌ حَمَلَتْ بِهِ أمُّهُ لِغَيْر طُهْرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخض میرے اہل بیت اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے : یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے اس سے حاملہ ہوئی ہو ۔

اب دیکھنا میری اس تحریر پر کتنے ناعاقبت سیال قلم ، فتین زمانہ ، میرے خلاف کیا کیا لکھ جائیں گے،اور شاید یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے کفر و گمراہیت یا پھر صلح کلیت و غدار مسلک اعلی حضرت والی مشینوں میں سے کسی ایک مشین میں میرے متعلق کچھ نہ کچھ چھپوائیں گے۔ یہ بھی امکان ہےکہ مجھے سنیت ہی سے نکال دے۔ اور پھر وہ کل اناء بما یترشح فیہ یعنی ہر برتن وہی چھلکاتا ہے جواس میں ہوتاہے کے مطابق اپنی غلیظ زبان سے مجھے طرح طرح کی گالیاں اور دھمکیاں بھی دیں گے۔ اور مجھے بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کریں گے

مگر میں اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتا۔ 

میں زمانے میں بدنام فقط اس لیے ہوں

مجھے اوروں کی طرح بدل جانا نہیں آتا

اس لیے کہ الحمد للہ ! خوش قسمتی میں آل رسول  سے محبت کرنے والوں میں سے ہوں اور انھیں کی حمایت میں کچھ لکھنے کی سعادتیں حاصل کرتا ہوں ۔ 

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اللہ تعالیٰ مجھے ایمان کی سلامتی کے ساتھ جینے اور تاحیات آل رسول سے محبت کرنے کی توفیق عطاکرے آمین۔


محب سادات کرام

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی ، اتر دیناج پور ، بنگال

٢٠/ ذی الحجہ ١۴۴٣/ ٢٠/ جولائی ٢٠٢٢ ۔ بروز چہار شنبہ۔

Post a Comment

0 Comments