سوال : معلمين و مدرسین، آئمہ مساجد و مؤذنین وغیرہم کا اجرت پر کام کرنا کیساہے ہے....
جواب : بعض علماء کرام نے سورہ بقرہ آیت 78 "ليشتروا به ثمنا قليلا"الآیہ کے تحت تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے اور دینے کا مسئلہ اٹھایا ہے، لہذا مناسب ہے کہ یہاں اس مسئلہ کے تعلق سے اہلسنت و جماعت کا موقف واضح طور پر بیان کر دیا جائے ۔ اس سلسلہ میں اگر چہ متقدمین و متاخرین علماۓ احناف کا اختلاف ہے کہ متقدمین نے تعلیم قرآن اور فقہ وحدیث وغیرہ کی تعلیم و تدریس پر اجرت لینے کو ناجائز لکھا ہے مگر متاخرین نے ضرورۃ اسے جائز قرار دیا ہے اور اب فتوای اس پر ہے کہ دینی تعلیم دینے والے معلمین اور امام و موذن اسی طرح مقرر و مبلغ کے لئے اجرت لینا جائز ہے دم کر نے اور تعویذ لکھنے کا بھی یہی حکم ہے۔
علامہ مرغینانی حنفی تحریر فرماتے ہیں:
و بعض مشائخنا استحسنوا الاستيجار على تـعـلـيـم القرآن اليوم لانه ظهر التواني في الامور الدينيه ففي الامتناع يضيع حفظ القرآن و عليه - الفتوى
ترجمہ : ہمارے بعض مشائخ نے دور حاضر میں تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو استحسان دلیل سے جائز کہا ہے، کیونکہ اب دینی امور میں سستی ہونے لگی ہے لہذا بچنے میں قرآن مجید کو حفظ کرنا ضائع ہو جاۓ گا ، اور فتوی اسی قول پر ہے ۔ (ہدایہ آخرین ،ص۳۰۳ مطبوعہ اشرفی بکڈ پودیو بند )
علامہ خوارزمی حنفی لکھتے ہیں:
وكذا يفتى بجواز الاجارة على تعليم الفقه و قال الامام الخيز أخزى في زماننا يجوز للامام و الـمـؤذن و المعلم أخذ الاجرة كذا في الروضة.
ترجمہ: اسی طرح تعلیم فقہ پر بھی اجرت کے جواز کا فتوی ہے اور امام خیزاخزی نے کہا ہے کہ ہمارے زمانہ میں امام ،موذن اور معلم کے لئے اجرت لینا جائز ہے، اسی طرح روضہ میں ہے۔ ( کفایہ علی ہامش فتح القدیر جلد ۹، ص۱۰۰، پور بندر گجرات )
علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں:
ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن و الفقه و الامامة و الاذان و يجبر المستاجر على دفع ما قیل.
ترجمہ : اس زمانہ میں تعلیم قرآن تعلیم فقہ، امامت اور اذان پر اجرت لینے کے جواز کا فتوی ہے اور اجرت پر رکھنے والے کو طے شدہ اجرت دینے پر مجبور کیا جائے گا (در مختار علی ہامش رد المحتار جلد 9،ص76، مکتبہ ذکریا، دیوبند)
خلاصہ کلام
مذکور فقہی عبارات سے واضح ہے کہ تعلیم قرآن اور دیگر دینی خدمات پر اجرت لینا جائز ہے، مگر خیال رہے کہ دینی خدمات پر اجرت لینے والوں کو اخروی اجر اس وقت ملے گا جب ان خدمات کی پیشگی اجرت مقرر نہ کی جاۓ بلکہ اجرت لینے کے لئے کسی شرعی حیلے کا سہارا لیا جاۓ اور دینی خدمت محض رضاۓ مولی کی نیت سے کی جاۓ مثلا معلم ، امام اور مؤذن وغیرہ مسجد یا مدرسہ کو اپنا جو وقت دیتے ہیں اس وقت کی پابندی کے بدلہ میں اجرت لیں اور نفس تعلیم و امامت اور نفس اذان کی اجرت لینے کی نیت نہ کریں اسی طرح مقررین و مبلغین حضرات پروگرام میں آنے جانے میں اپنا جو وقت دیتے ہیں یا تقریر وتبلیغ کے لئے اپنا جو وقت صرف کرتے ہیں اس کے عوض میں اجرت لیں نفس تقریر وتبلیغ پر اجرت لینے کی نیت نہ کریں تو یہ حضرات آخرت میں ثواب کے مستحق ہوں گے ورنہ نہیں تفصیل کے لئے بہار شریعت وغیرہ کی طرف رجوع کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
0 Comments