عن سعید بن جمہان قال قال رسول اللہ ﷺ{ الخلافۃ ثلاثون عاما ثم یکون بعد ذالک ملک}(سنن ترمذی، حدیث نمبر:۲۲۲۶) ترجمہ: سعید بن جمہان فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد ملوکیت ہوجائے گی۔
خلفاے اربعہ اور امام حسن رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے زمانے پر خلافت اسلامیہ کی یہ مدت ختم ہوگئی ۔ یعنی تیس سال مکمل ہوگئے۔ (تاریخ الخلفا ، امام جلال الدین سیوطی ، ص: ۷۳)
نبی کریم ﷺ کے حیات ظاہری سے پردہ فرماجانے کے بعد تمام صحابہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا۔حضرت علی رضی اللہ حضور نبی اکرم ﷺ کی تجہیز وتکفین میں مصروف تھے ،اس لیے وہ سقیفہ بنی سعد کی اس مجلس میں شامل نہ ہوسکے جہاں تمام صحابہ نے بالاجماع حضرت صدیق اکبر کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔اسی وجہ سے حضرت علی نے چند دنوں کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔اس سے بعض رافضیوں کو خیال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمانے کے لیے عہد لیا تھا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ زبر دستی منصب خلافت پر متمکن ہوگئے۔ حالاں کہ یہ ان کی خام خیالی ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل میں ایک خطبہ کے درمیان ارشاد فرمایاکہ لوگو! رسول اللہ ﷺ نے اس خلافت کے سلسلے میں ہم سے کوئی عہد نہیں لیا تھابلکہ حضرت ابوبکر صدیق کو ہم نے باتفاق راے خلیفہ منتخب کر لیا اور وہ امور خلافت کو بحسن و خوبی انجام دے کر اس دار فانی سے دار بقا کو تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر صدیقرضی اللہ عنہ نے باتفاق آراء حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خلیفہ بامزد فرما دیا۔ انھوں نے بھی بڑی خوبی اور عمدگی کے ساتھ امور خلافت انجام دیے اور اسلامی بنیادوں کو مستحکم کیا ۔ ان کے بعد لوگ دنیا طلبی میں پڑگئے جس کے باعث ایسے معاملات در پیش ہوئے جن میں قضائے الٰہی جاری ہوگئی۔(مصدر سابق: ص:۷۰)
![]() |
حضرت علی کے دورخلافت کا تجزیاتی مطالعہ |
امام ہذیل بیان فرماتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عہد لیتے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے خلاف عمل فرماتے !!(مصدر سابق، ص: ۷۱)
اس سے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرما یا تھا۔
جیسا کہ اوپر معلوم ہوا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت کے آخری ایام میں جلیل القدر صحابہ سے مشورہ کر کے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ نامزد کردیا تھا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ساڑھے دس سالہ دور امارت میں خلافت اسلامیہ کو حد درجہ مستحکم کیا ۔آپ کے دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ دینی اور سیاسی مشوروں میں برابر شریک ہوا کرتے تھے اور کوئی بھی کام آپ کے مشورہ کے بغیر طے نہیں پاتاتھا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو صحابۂ کرام نے آپ سے عرض کیا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیں تو آپ نے ارشاد فرمایا : میرے سامنے دو عظیم پیش رؤں کی مثالیں ہیں ۔اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتاہوں تو اس کی بھی مثال ہے کہ اس شخص نے مجھے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر ہیں یعنی ابو بکر ۔ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتاہوں تو اس کی بھی مثال موجود ہے کہ اس عظیم ہستی نے خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی رائے پر چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر ہے یعنی رسول اللہ ﷺ۔ (صحیح بخاری ، باب الاستخلاف ،حدیث نمبر:۷۲۱۸)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری دور میں چھ رکنی کمیٹی منتخب کی تھی جس کے ارکان حسب ذیل صحابہ تھے: (۱)حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ(۲)حضرت علی رضی اللہ عنہ (۳) حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ (۴) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ (۵) حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (۶)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ۔اورخلافت کا معاملہ انہی برگزیدہ حضرات کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ یہ جس کسی کو اپنا امیر مقرر کرلیں اس کی اطاعت سب پر واجب ہے ۔ آخر بڑے غور وفکر کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ان کے ہاتھ پر تمام صحابہ نے بیعت کی ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس مجلس میں بیعت کی اور پورے بارہ سال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص رہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی پانچ سال نہایت امن و سکون سے گزرے ، باطل کے خلاف لڑائیاں گئیں اور ان میں فتوحات حاصل ہوئیں ۔مال غنیمت کی فراوانی اور محاصل و خراج کی زیادتی سے پوراملک خوش حال اور عیش وتنعم کے سامان سے مالامال ہوگیا۔ پھر اس کے بعد فتنہ انگیزیاں شروع ہوئیں،خلافت عثمانیہ کے باغیوں اور مخالفین نے پورے ملک کے امن و امان کو خطرے میں ڈال کر دہشت کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔حضرت عثمان غنی پر بے سرو پا الزامات لگا کر منصب خلافت سے دست برداری کا مطالبہ کرنے لگے، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سختی سے انکار کیا تو قتل کی دھمکیاں دینے لگے اور کاشانہ خلافت کا محاصرہ کر لیا اور ان بد بختوں نے مل کر مسلسل وار کرکے آپ کو شہید کر ڈالا۔یہ دل خراش حادثہ ۳۵ھ کو پیش آیا جس کے تصور سے آج بھی دل دہل جاتا ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ملت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہوگیا ۔ ملی وحدت فرقوں میں بٹ گئی ۔ شرفاے مدینہ اس روح فرسا المیہ کے بعد بالکل سہمے ہوئے تھے ۔ایسے حالات کے تناظر میں خلیفۃ المسلمین کا انتخاب بہت بڑا چیلنج تھا ۔ تمام اصحاب رسول ﷺ نے جو اس وقت مدینہ میں موجود تھے ، حالات کی برہمی کو دیکھتے ہوئے شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دوسرے روز ۱۹؍ذی الحجہ ۳۵ھ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے بیعت لے لی ۔کچھ صحابہ بیعت کرنے میں صرف اس لیے متردد تھے کہ ابھی پورے طور پر امن امان نہیں ہوا تھا ۔والی شام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت سے اس لیے منع کیا کیوں کہ وہ چاہتے تھے پہلے قاتلین عثمان سے قصاص لیا جائے ،اس کے بعد بیعت کی جائے گی ۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما بھی خون عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم قصاص لینے میں تاخیر کے روادار نہیں تھے لیکن حالات ایسے پیدا ہوچکے تھے کہ باغیوں کے خلاف جلد اقدام کرنا ممکن نہیں تھا ۔
جنگ جمل :
حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما قاتلین عثمان کو مدینہ کی گلیوں میں پھر تے دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے ،اسی لیے یہ دونوں حضرات عمرہ کی اجازت لے کر مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ان دنوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حج کے لیے مکہ مکرمہ گئی ہوئی تھیں اور حج سے فارغ ہوکرمدینہ منورہ آرہی تھیں کہ مقام سرف میں شہادت عثمان کی خبر ملی ۔یہ جاںکاہ خبر سن کرآپ مکہ مکرمہ واپس چلی گئیں ۔ادھر حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہمابھی مکہ مکرمہ پہنچ چکے تھے ۔ام المومنین نے ان کی زبان سے مدینہ منورہ کے حالات دریافت کیے تو معلوم ہوا کہ خون عثمان کے چھینٹے ابھی تک دوو دیوار پر نظر آرہے ہیں اور اس وقت دارالخلافہ میں بلوائیوں کا قبضہ ہے۔ ان دونوں حضرات کے مشورہ اور اصرار پر ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے لوگوں کو حضرت عثمان غنی کے قصاص کی دعوت دی ۔آپ کی دعوت پر مسلمانوں کا ایک بڑا لشکر تیار ہوگیا۔یہ سوچ کر کہ کہیں مدینہ میں حالات برہم ہونے کی وجہ سے جنگ کی نوبت نہ آجائے،ام المومنین۳۶ھ کو لشکر کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جب حالات سے واقف ہوئے تو رفع فساد اور اصلاح بین المسلمین کی خاطرآپ بھی فوج کےساتھ بصرہ تشریف تشریف لے گئے۔معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لیے آپ نے قعقاع بن عمرو کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تحقیق حال کی غرض سے بھیجا ۔ ام المومنین نے دریافت کرنے پر فرمایا :مسلمانوں کی اصلاح کرنا مقصود ہے تاکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لیا جائے۔
کیوں کے دونوں جانب سے دل صاف تھے،صلح مصالحت کی باتیں ہونے لگیں لیکن بلوائی اور سبائی عناصر دونوں فوج میں شامل تھے جن کا مقصد فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ نہ تھا ، وہ لوگ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ صلح ہوجائے ، کیوں کہ انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اگر خانہ جنگی ختم ہوگئی اور مسلمان متحد ہوگئے تو ان سے قصاص ضرور لیا جانا ہے ۔ جس صبح کو صلح نامہ لکھا جانا تھا،عین اس رات سبائیوں اور بلوائیوں نے حضرت عائشہ کی فوج پر حملہ کر دیا ۔ مدافعت میں ادھر سے بھی تلواریں بے نیام ہوگئیں ۔ دونوں جانب کے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ دوسرے نے بد عہدی کی ہے ۔ اس غلط فہمی سے جنگ کی آگ اور بھڑک اٹھی ۔ آخرمیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار ہوکر تشریف لائیں تو آپ کا اونٹ لڑائی کا مرکز بن گیا۔لیکن جب اونٹ کی کونچیں کاٹ دی گئیں تو لڑائی بند ہو گئی۔اس طرح ایک غلط فہمی سے شروع ہونے والی جنگ ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیرکے علاوہ طرفین کے تیرہ ہزار آدمی کے خون پر ختم ہوئی۔ یہ معرکہ تاریخ میں جنگ جمل کے نام سے مشہور ہے جو جمادی الآخرہ ۳۶ھ میں پیش آیا۔
جنگ صفین:
معرکہ جمل ختم ہوتے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سامنے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کا معاملہ تھا۔ کیوں کہ انھوں نے آپ کی خلافت تسلیم نہیں کی تھی۔ اور آ پ سے قاتلین عثمان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ جنگ جمل پیش آجانے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی جانب توجہ نہ دے سکے ۔ اس سے فراغت کے بعد آپ نے جریر بن عبد اللہ کے ذریعے امیر معاویہ کو بیعت کی دعوت دی ۔ حضرت امیر معاویہ نے جریر بن عبداللہ کو اہل شام کے جذبات دکھائے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون آلود پیراہن اور آپ کی بیوی بائلہ کی کٹی ہوئی انگلیوں پر رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جب تک خون کا بدلہ نہ لیں گے اس وقت تک بستر پر نہ سوئیں گے۔ جریر بن عبداللہ نے ان سارے حالات کے بارے میں حضرت علی کو تفصیل سے بتایا ۔ آپ نے اس کے بعد بھی خطوط کے ذریعے مصالحت کی کوشیشیں کیں لیکن حضرت امیر معاویہ اپنے موقف پر اڑ ے رہے ۔ آخر کار آپ کو چار و ناچار مقابلہ کے لیے نکلنا پڑا ۔ آپ ۳۶ھ میں اسی ہزار فوج کے ساتھ شام کی طرف بڑھے ۔ اس فوج میں عام مسلمانوں کے علاوہ ستربدری صحابہ ، سات سو بیعت رضوان کے جاںنثار اور جار سو عام مہاجر و انصار صحابی تھے۔حضرت امیر معاویہ پہلے ہی جنگ کے لیے نکل چکے تھے ۔ صفین کے مقام پر دونوں فوجوںکا سامنا ہوا اور مسلسل کئی روز تک جنگ جاری رہی ۔ پھر لیلۃالحریر کی فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں دونوں جانب سے ستر یا اسی ہزار آدمی کام آئے۔اس کے بعد شامی کمزور پڑ چکے تھے ۔ جب شامیوں کو شکست کا خوف ہوا تو مصاحف کو بلند کر کے صلح کی دعوت دی اور کہنے لگے کہ اگرشامی ختم ہوگئے تو رومیوں سے شام کی حفاظت کون کرے گا اور اگرعراقی فنا ہوگئے تو عجمیوں سے عراق کو کون بچائے گا۔ پھرتحکیم کی تجویز پرجنگ رک گئی۔حضرت علی نے ابوموسی اشعری کو اور امیر معاویہ نے عمرو بن العاص کو اپنا اپنا حکم بنایا۔ پھر ایک تفصیلی عہد نامہ مرتب ہوا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں کسی فریق کی رو رعایت کے بغیر امت کی خیر خواہی کا لحاظ کرتے ہوئے جو فیصلہ کر دیں گے وہ سب کے لیے واجب التسلیم ہوگا ، فیصلہ کے اعلان تک جنگ بالکل ملتوی رہے گی اور کامل امن و امان قائم رکھا جائے گا۔
اس عہد نامہ کے بعد لوگ جدا ہوگئے ۔حضرت امیر معاویہ شام واپس آگئے اور حضرت علی کوفہ ۔ اتنے میں حضرت علی کے خلاف آپ ہی کے ہمراہیوں میں سے ایک بڑی تعداد نے خروج کیا اور وہ سب مقام حرورا میں جمع ہونے لگے۔ان کا دعوٰی تھا کہ حضرت علی نے تحکیم کی تجویز مان کر گناہ کبیرہ کیاہے ۔اور وہ لا حکم الا للہ کا نعرہ لگانے لگے ۔ حضرت علی نے عبداللہ بن عباس وغیر ہ کو افہام و تفہیم کے لیے بھیجا ، کافی بحث و مباحثہ کے بعد ایک بڑی جماعت نے رجوع کرلیا لیکن ایک جماعت اپنی رائے پر قائم رہی اور یہ لوگ نہروان چلے گئے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم خود مقابلہ کے لیے نہروان پہنچے اور پورے لشکر خوارج کا صفایا کردیااور ان کے سرغنہ ذوالثدیہ بھی مارا گیا۔یہ واقعہ ۳۸ھ میں پیس آیا ۔
اسی سال شعبان کے مہینے میں لوگ اذرح کے مقام پر حکمین کا فیصلہ سننے کے لیے جمع ہوئے۔ سعد بن ابی وقاص ، عبد اللہ بن عمر اور دیگر اجلہ صحابہ صحابہ کرام بھی تشریف لائے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ نے چالاکی کرتے ہوئے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کواپنا فیصلہ سنانے کے لیے آگے کیا۔ آپ نے اپنا فیصلہ سنایا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں کو خلافت سے دست بردار کرتا ہوں ۔ پھر عمرو بن العاص نے فرمایا کہ میں امیر معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں ۔ اس فیصلہ پر لوگوں میں افرا تفری شروع ہوگئی ، قریب تھا کہ صفین کی طرح مقام اذرح بھی محاذ جنگ بن جاتا۔
نوٹ: کتب تاریخ میں فیصلہ تحکیم کو متضاد روایات کے سا تھ درج کیا گیا ہے۔ مسئلہ تحکیم کے حوالے سے مؤرخین کے اقوال پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام خیالات درآمدہ ہیں ۔ کیوں کہ اس سے جلیل القدر صحابہ کی عدالت مجروح ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ دونوں حکمین کسی نتیجے تک نہ پہنچے ہوں جیساکہ واقعۂ تحکیم کے بعد کے واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت علی عراق پر اور حضرت معاویہ شام پر حکومت کرتے رہے یہاں تک کہ خوارج کے ساتھ جنگ کرنے کے نتیجے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔
فتنۂ خوارج :
حضرت عثمان کی شہادت کے بعدہی سے مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ان فرقوں میں شیعان علی اور خوارج نے مسلمانوں کی وحدت کوبہت زیادہ متاثر کیا ۔خاص طور سے خوارج نے تو اسلامی بنیادوں کو بھی متزلزل کردیا تھا ۔خوارج یہ وہی باغی فرقہ ہے جس نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قتل کیاتھا۔ پھر فیصلہ تحکیم کے بعد اس تحریک نے منظم فرقہ کی شکل اختیار کرلی ۔ حضرت علی پر کفر ارتداد اور گمرہی کے فتوے لگا کر توبہ کا مطالبہ کرنے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس کے عقائد باطلہ کا رد و ابطال کیااور مقام نہروان میں اس کی جمعیت کو شکست دی اور اس فتنہ کا استیصال فرمایا۔
حضرت علی کے پورے دور خلافت پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تومجموعی طور سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی خلافت کا بیشتر زمانہ خانہ جنگی اور اندورنی جھگڑوںمیں گزرا ہے۔جس کے سبب ملکی نظم ونسق اور بیرونی فتوحات پر توجہ نہ ہوسکی۔ اس سے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی خلافت ناکام رہی۔وہ آپ کے دور کا موازنہ حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زریں ادوار سے کرتے ہیں کہ ان ادوار میں مسلمانو ںکو کس قدر فتوحات حاصل ہوئیں۔یہ باتیں علم تاریخ سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں ۔ماہرین یہ بات جانتے ہیں کہ فتوحات اور بحران ، سلطنوں کی تاریخ کا ہمیشہ سے حصہ رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر و عمر کے ادوار اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ابتدائی سالوں میں امن و امان تھا ، مسلمانوں کا اتحاد مضبوط تھا ، ان کو عسکری قو ت حاصل تھی جس کے نتیجہ میں فتوحات حاصل ہوئیں اور اسلامی حکومت کے حدود وسیع ہوئے۔لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بحران کی کیفت تھی اور ہر چہار جانب سے فتنے سر ابھار رہے تھے ۔ایسے مخالف حالات میں نظام حکومت سنبھالنا ہی بہت بڑی کام یابی ہے۔ پھر بھی آپ نے مخالف حالات کا مقابلہ کرکے اپنی خلافت کو دین وتقوٰی اور اخلاص کی بنیادوں پر استوار کیا، خلافت صدیق و فاروق کی طرح قرآن وحدیث کے اصولوں پر قائم رکھا اور اندرونی اور بیرونی تمام خطرات سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائی۔
وصال:
۱۷؍ رمضان ۴۰ھ کو آپ پر عبد الرحمن بن ملجم اور شبیب بن بجرہ نے تلوار سے حملہ کردیا جس آپ بہت زیادہ زخمی ہوگئے اور تیسرے دن ۱۹؍رمضان ۴۰ھ کو آپ کا وصال ہوگیا۔وقت وصال آپ کی عمرتریسٹھ برس تھی۔(الطبقات الکبرٰی لابن سعد، ج: ۳،ص : ۲۲)
از سفیر مصباحی
استاذ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف (مالدہ)
0 Comments