صاحب تفسیر بیضادی علامہ ناصر الدین محمد عبد ابن عمر بن محمد بن علی: مختصر حالات

نام و نسب اور سکونت:

نام عبدالله. لقب: ناصر الدین. کنیت: ابوالخیر اور ابو سعید ہے باپ کا نام عمر بن محمد بن علی ہے۔ بیضاء نامی بستی آپ کا اصلی مسکن ہے یہیں آپ پیدا ہوئے اور اس کی طرف منسوب ہو کر بیضاوی کہلاتے ہیں مسلکا آپ شافعی المذہب تھے۔

تحقیق بیضاء :

ولایت فارس میں ایک شہر ہے جس کا علاقہ نہایت خوشگوار اور سر سبز و شاداب ہے جس میں سانپ بچھو وغیرہ موذی جانوروں کا نام تک نہیں ہے یہاں کے انگور کا ایک ایک دانہ دس دس مثقال کا ہو تا ہے اور ایک خاص قسم کا سیب ہو تا ہے جس کا دوران دو بالشت کا ہو تا ہے۔ اس کو شاہ گشتاسپ نے اور بقول بعض، حضرت سلیمان" کے حکم سے جنات نے تعمیر کیا تھا۔ فارسیوں کے زمانہ میں اس کو ”در اسفید “ کہتے تھے تعریب کے بعد بیضاء ہو گیا۔ اصطخری کا قول ہے کہ یہاں ایک قلعہ تھا جو دور سے سفید نظر آتا تھا اس لئے اس کو بیضاء کہنے لگے۔ مشہور زاہد حسین بن منصور الحلاج اسی شہر کے باشندے تھے.

علمی مقام و جلالت شان:

علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات کبری میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قاضی صاحب عابد و زاہد ، نیک و صالح اور یگانہ روز گار امام تھے۔ ابتداء میں قضاء شیراز کے عہدہ پر فائز رہے پھر وہاں سے معزول ہو کر تبریز تشریف لائے اتفاق سے کسی فاضل کے حلقہ درس میں حاضری کا موقعہ ملا تو آپ سب سے آخر میں اس طرح خاموشی کے ساتھ بیٹھ گئے کہ حاضرین میں سے کسی کو بھی آپ کی آمد کی خبر نہ ہوئی دوران تقریر فاضل مذکور نے کوئی اشکال پیش کیا اور حاضرین سے اس کا حل چاہا اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ اگر کوئی حل کر سکتا ہو تو حل کرے ۔ ورنہ کم از کم میرے طرز پر نفس اشکال کا اعادہ ہی کر دکھائے یہ سن کر قاضی صاحب سے رہا نہ گیا اور جواب کی تقریر شروع کی۔ فاضل مذکور نے کہا کہ جب تک مجھے تم یہ باور نہ کر دو کہ میرا اشکال صحیح معنی میں سمجھ گئے ہو اس وقت تک میں جواب نہیں سننا چاہتا لہذا پہلے میرے اشکال کا اعادہ کرو۔ قاضی صاحب نے بلا تامل انہی الفاظ میں اشکال کا اعادہ کیا اس کے بعد اس کا تشفی بخش جواب دیا پھر فورا اس پر اشکال قائم کر کے فاضل مذکور سے جواب طلب کیا وہ بیچارہ قاضی صاحب کے اشکال کا کہاں جواب دے سکتا تھا بغلیں جھانکتارہ گیا۔

ہاۓ کیسی اس بھری مجلس میں رسوائی ہوئی..شیخ سعدی نے سچ کہا ہے

ہر بیشہ گمان مبر کہ خالی ست

شاید که پلنگ خفته باشد

اسی مجلس میں وزیر بھی موجود تھاوہ قاضی صاحب کے فضل و کمال کو تاڑ گیا چنانچہ اس نے قاضی صاحب کو بلا کراپنے پاس بٹھایا اور پوچھا آپ کون ہیں۔ کہاں سے تشریف لاۓ ہیں۔ قاضی صاحب نے کہا میں بیضاوی ہوں طلب قضا کی خاطر شیراز سے حاضر ہوا ہوں۔ وزیر نے نہایت اعزاز واکرام کے ساتھ خلعت فاخرہ سے نواز کر رخصت کیا۔

بعض حضرات نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک عرصہ تک آپ وہیں رہے اور شیخ محمد بن محمد کحتاتی سے سفارش کی در خواست کی شیخ نے موقعہ پاکر ان کے متعلق سفارش بھی کی مگر قاضی صاحب کا ارادہ بدل گیا اور منصب دنیویہ ترک کرکے شیخ کی خدمت میں رہ پڑے اور انہی کے ایماء سے آپ نے بیضاوی جیسی عظیم الشان کتاب تصنیف کی۔

صاحب تفسیر بیضادی علامہ ناصر الدین محمد عبد ابن عمر بن محمد بن علی: مختصر حالات
 صاحب تفسیر بیضادی علامہ ناصر الدین محمد عبد ابن عمر بن محمد بن علی: مختصر حالات


علمی کار نامے:

قاضی صاحب کو علوم دینیہ وفنون یقینیہ ، حکمت و میزان ، معانی و بیان غرض جملہ علوم میں مہارت تامہ اور کامل دسترس حاصل تھی،مختصر الوسیط یعنی الغایۃ القصوی (فقہ شافعی میں) منہاج الوصول الى علم الاصول اور شرح منہاج اور مرصاد الافهام الى مبادی الاحکام لابن حاجب اور شرح منتخب ( اصول فقہ میں طوابع الانوار ( علم کلام) میں مصباح الارواح ( اصول دین میں) شرح مصابیح ( حدیث میں ) اور شرح کافیہ (نحو میں) اور شرح مطالع ( منطق میں) منتہی المنی شرح اسماء الحسنی ، لب الالباب فی علم الاعراب ، نظام التواریخ آپ کے تجر علمی کا بین ثبوت ہے اور آپ کی عظیم الشان تفسیر انوار التنزيل واسرار التاویل مستغنی عن البیان ہے، شرح تنبیہ اور تہذیب الاخلاق بھی آپ ہی کی ہے۔


تفسیر بیضادی اور اس کا ماخد:

قاضی صاحب کی یہ تفسیر حقائق کلام و حکمت، دقائق حدیث و سنت ، اسرار معانی و بیان ، رموز فلسفه و میزان ،وجوہ قرات و تفسیر آیات ، منقول و معقول تاویلات ، غوامض صرف و نحو ، مباحث لغات محاسن نظم قرآن ، تبیین مقاصد تنزیل ، کشف معاني مصحف جلیل ۔ غرض صدہا علوم و معارف کا خزینہ ہے جس میں اعراب و معانی اور امور بیان علامہ جار اللہ زمخشری کی تفسیر کشاف سے ماخوذ ہیں بلکہ قاضی بیضادی کی تصنیفات کی فہرست میں ہم اس کتاب کا نام عموما "مختصر الکشاف" ہی پاتے ہیں تفسیر بیضاوی کا نام تو طاش کبری زادہ نے الاسوی کی طبقات سے نقل کیا۔ ہے (دیکھو مفتاح السعادۃ صفحہ ۴۳۶) تاہم بیضاوی نے کشاف کے سواد دیگر تفاسیر سے بھی چیزیں چنی ہیں چنانچہ حقائق کلام و حکمت امام فخر الدین رازی کی تفسیر مفاتح الغیب اور غوامض اشتقاق ولطائف اشارات تفسیر راغب اصفہانی سے ماخوذ ہیں اور وجوہ معقولہ و تصرفات منقولہ سونے پر سہاگہ ہے جو اس مرد میدان کا کام ہے

تفسیر بیضادی کی اہمیت:

اگر کوئی شخص ایک فقرہ کے مختلف پہلوؤں پر ادبی نقطہ نظر سے ذہن کو منتقل کرنے کی مشق بہم پہنچانا چا ہے تو اس کے لئے کشاف کے بعد قاضی بیضاوی ہی کی تفسیر ہے جس کی گرم بازاری کا حال شاہجہاں اور عالمگیر کے عہد تک تو یہ رہا ہے کہ بعض لوگ قرآن کے ساتھ پوری بیضاوی کو بھی زبانی یاد کر لیتے تھے، ملا عبدالحکیم سیالکوٹی جن کا بیضاوی پر مشہور حاشیہ ہے ان کے ایک شاگرد مولانا محمد معظم تھے تذکرہ علمائے ہند کے مصنف نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ ”قرآن مجید مع تفسیر بیضاوی حفظ گرفتہ “ مگر جب سے عقلی اور ذہنی کتابوں کا بوجھ بڑھا ہے اس وقت سے عام مدارس میں بیضاوی کے صرف ڈھائی پارے رہ گئے اور آج کل تو صرف سواپارہ ہی کو کافی سمجھ لیا گیا۔

دنیاء فانی سے رحلت:

تاج الدین سبکی نے طبقات کبری میں کہا ہے کہ قاضی صاحب نے سن ۲۸۵ھ میں تیریز مقام میں وفات پائی ، صلاح صفدی نے بھی اپنی تاریخ میں یہی سن مانا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ آپ تبریز ہی میں مدفون ہیں۔ کشکول بہائی میں بھی یہی مذکور ہے۔ بعض حضرات نے سنہ وفات سن ۱۸۲ ھ ذکر کیا ہے مگر پہلا قول رائج ہے۔

Post a Comment

0 Comments