محدثِ عصر، شمس العلماء حضرت علامہ مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی علیہ الرحمہ: مختصر تعارف

خلیفۂ اعلیٰ حضرت،بحر العلوم و الفنون ، ملک العلماء حضرت علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کی بارگاہِ علم و فضل سے اکتسابِ فیض کرنے والے آپ کے ممتاز تلامذہ میں ایک اہم اور قابلِ ذکر نام شمس العلماء و المحدثین حضرت علامہ مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : اکتوبر 2002 ء ) کا بھی ہے ۔ آپ اپنے وقت کے جید عالمِ دین ، مایۂ ناز مفتی ، بلند پایہ مدرس ، ممتاز محدث اور مختلف علوم و فنون میں مہارتِ تامہ رکھنے والے فاضل تھے ۔ خصوصیت کے ساتھ حدیث و فقہ اور تفسیر میں کمال حاصل تھا ۔ آپ موضع کوسیاری ، تحصیل پوٹیہ ، ضلع پورنیہ ( موجودہ کشن گنج ) کے باشندہ تھے ۔ والد کا نام خادم علی تھا ، جن کی اعلیٰ تعلیم و تربیت نے قوم کو ایک ایسا عالم و فقیہ اور محدثِ عظیم دیا ، جس کی علمی جلالت کا اعتراف اکابر علماء و مشائخ نے کیا ہے ۔

تعلیم و تربیت:

گاؤں کےمکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارسی و عربی کی بنیادی کتابیں مدرسہ عارفیہ ، چَنامَنا ، ضلع پورنیہ ( کشن گنج ) میں پڑھیں ، جہاں حضرت علامہ محمد نصیر الدین اشرفی علیہ الرحمہ منصبِ صدارت و تدریس پر فائز تھے اور علم و حکمت کی خیرات بانٹ رہے تھے ۔ حضرت شمس العلماء نے درس نظامی کے ابتدائی درجے کی کتابوں کا درس یہیں لیا ۔ بعد ازاں مدرسہ بحر العلوم ، کٹیہار ، بہار کا رخ کیا ۔ ماضی میں اس ادارے کو مرکزی حاصل تھی ۔ ملک العلماء حضرت علامہ ظفر الدین بہاری اور جامعِ معقول و منقول حضرت علامہ محمد سلیمان اشرفی بھاگل پوری ( جو طویل عرصے تک جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور میں نائب شیخ الحدیث کے عظیم منصب پر فائز رہے اور جن نے سے شارحِ بخاری و بحر العلوم جیسے حضرات نے اکتسابِ فیض کیا ) جیسے ماہرینِ علم و فن اس عظیم ادارے میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ حضرت شمس العلماء اس ادارے سے منسلک ہو کر حضرت ملک العلماء ، علامہ سلیمان اشرفی بھاگل پوری اور حضرت علامہ عبد المنان گیاوی علیہم الرحمۃ سے خوب خوب علمی فیض اٹھایا اور متوسطات کی تکمیل فرمائی ۔ خصوصیت کے ساتھ ملک العلماء کی علمی صحبت نے آپ کو ذرے سے آفتاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم اور درسِ نظامی کی تکمیل کے لیے منظرِ اسلام ، بریلی شریف تشریف لے گئے ۔ بحر العلوم حضرت علامہ مفتی افضل حسین مونگیری ، فقیہ الہند حضرت علامہ محمد جہاں گیر رضوی بھاگل پوری و دیگر اساتذہ سے منتہی کتب پڑھ کر دستارِ فضیلت سے نوازے گئے ۔

محدثِ عصر، شمس العلماء حضرت علامہ مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی علیہ الرحمہ: مختصر تعارف
 محدثِ عصر، شمس العلماء حضرت علامہ مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی علیہ الرحمہ: مختصر تعارف


تدریسی خدمات:

حضرت شمس العلماء کی ذہانت و لیاقت اور علمی صلاحیت زمانۂ طالب علمی سے مشہور تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ بعدِ فراغت آپ کا تقرر مدرس کی حیثیت سے منظر اسلام ، بریلی میں ہو گیا اور آپ نے وہاں بارہ سال تک پوری محنت اور دل جمعی کے ساتھ تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ منظر اسلام کی کامیاب تدریس اور تشنگانِ علومِ نبویہ کی پیاس بجھانے کے بعد ضلع امروہہ ، یوپی تشریف لے گئے اور وہاں مدرسہ محمدیہ کی از سرِ نو تعمیر و تشکیل فرمائی اور اس کے تعلیمی نظام کو مضبوط و مستحکم کیا ۔ اس جگہ پانچ برس تک اپنی علمی خیرات لٹانے کے بعد اہلِ سنت کی عظیم درس گاہ جامعہ نعیمیہ ، مراد آباد پہنچے اور تین چار سال تک وہاں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ سرکار کلاں ، حضرت سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی کے حکم و ایما آپ مراد آباد سے جامع اشرف ، کچھوچھہ شریف آ گئے ۔ یہاں آپ کو مسندِ صدارت ، شیخ الحدیث اور دار الافتاء کا منصبِ جلیل سپرد کیا گیا ، جسے آپ نے بخوشی قبول فرمایا اور تین سال تک آپ نے اس ادارے میں صدارتی ، تدریسی اور افتائی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دیں ۔ اس کے بعد وقت کا یہ علمی شہباز دار العلوم دیوان شاہ ، بھیونڈی ، مہاراشٹر کے گلشن میں آشیاں نشیں ہوا ۔ آپ اس ادارے کے مختارِ کُل تھے ۔ صدر مدرس ، شیخ الحدیث ، مفتی ، مہتم اور ناظم سب کچھ آپ تھے ۔ اس اختیارِ کلی کا یہ خوش گوار نتیجہ ہوا کہ آپ نے یہاں پورے بیس سال تک درس و تدریس اور فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دی ۔ 1969 ء سے 1999 ء تک آپ کا بھیونڈی میں قیام رہا ۔ اس کے بعد مادرِ علمی مدرسہ منظر اسلام ، بریلی ، ( جہاں آپ بارہ سال تک مدرس و شیخ و الحدیث رہ چکے تھے ) سے پھر بلاوا آیا اور آپ تشریف لے گئے اور زندگی کے آخری ایام تک وہیں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہ کر بخاری شریف و دیگر کتبِ فقہ و حدیث کا درس پورے عالمانہ و محدثانہ جاہ و جلال کے ساتھ دیتے رہے ۔


چند ممتاز تلامذہ:

 آپ کی پچپن سالہ تدریسی مدت میں ہزاروں طالبانِ علومِ نبویہ آپ کے خرمنِ علم و حکمت سے فیضیاب ہوئے ۔ آپ کے چند ممتاز تلامذہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

( ۱ ) حضرت مفتی سید محمد عارف رضوی نانپاروی ، سابق شیخ الحدیث مدرسہ منظرِ اسلام ، بریلی شریف ۔

(۲)حضرت مولانا مفتی محمد ہاشم یوسفی پورنوی ، سابق صدر مفتی دار الافتاء منظر اسلام ، بریلی شریف ۔

(۳)حضرت علامہ عبد الخالق رضوی پورنوی ،نائب شیخ الحدیث مدرسہ منظر اسلام ، بریلی شریف ۔

(۴)حضرت مفتی زین الحق اشرفی دیناج پوری ، شیخ الحدیث دار العلوم دیوان شاہ ، بھیونڈی ۔

(۵)حضرت علامہ محمد مزمل حسین دیناج پوری ، شیخ الحدیث جامعہ امجدیہ ، بھیونڈی ۔

(۶)حضرت مفتی سلیم اختر دیناج پوری ، بانی و مہتمم مدرسہ غریب نواز ، ملاڈ ، ممبئی ۔

(۷)حضرت علامہ غلام معصوم اشرفی کٹیہاری ، استاذ دار العلوم محمدیہ ، ممبئی ۔

(۸)حضرت علامہ محمد تسلیم الدین کوئی ماری ، عالم و فاضل و مشہور خطیب ۔

(۹)حضرت علامہ شاہد رضا نعیمی بھاگل پوری ، چیئرمین ورلڈ اسلامک مشن ، انگلینڈ ۔

(۱۰)حضرت علامہ محمد اسرار الحق بیل پوکھروی ، داعی و خطیب اسلام ، انگلینڈ ۔


علمی مقام و مرتبہ:

حضرت شمس العلماء کا علمی پایہ کافی بلند تھا ۔ آپ نہایت جاہ و جلال کے عالم تھے ۔ مروجہ علوم دینیہ میں کمال حاصل تھا ۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ علمِ تفسیر و حدیث اور فقہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے ۔ آپ کا شمار حضرت ملک العلماء کے قابل فخر شاگردوں میں ہوتا ہے ۔ آپ نے حضرت ملک العلماء سے دیگر علوم و فنون کے ساتھ منطق و فلسفہ اور علمِ توقیت بھی سیکھا تھا ۔ فراغت کے بعد جب آپ بریلی شریف کے مدرس ہوئے تو حضرت ملک العلماء سے بذریعۂ خطوط علمِ توقیت کے اصول و مبادی اور اس کے بنیادی قواعد و متعلقات کے بارے میں مسلسل استفسار کرتے رہے ، جس سے آپ کے علمی شغف کا اندازہ ہوتا ہے ۔ علمی لیاقت و مہارت کے سبب جہاں کہیں رہے ، صدر المدرسین،شیخ الحدیث اور صدر شعبۂ افتا کی حیثیت سے ممتاز رہے ۔ حضرت شمس العلماء کا سراپا اور آپ کے بلند علمی مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی رقم طراز ہیں :

حضرت شمس العلماء رحمۃ اللہ علیہ سے میری دو تین ملاقاتیں تھیں ........... ساؤلا رنگ ، دہرا بدن ، درمیانہ قد ، آنکھوں میں بے پناہ چمک ، آنکھوں پر عینک بھی ، آواز بے حد گرج دار تھی ، کڑک اور کھنک بھی ۔ قدیم وضع دار ، با اخلاق ، شفیق ، حلیم ، بُرد بار ، عمدہ برتاؤ اچھا سلوک ............. حضرت شمس العلماء کا علمی مقام بہت بلند تھا ۔ ان کے معاصرین اور اکابر علما و مشائخ ان کے علمی رتبے سے بخوبی واقف بھی تھے اور معترف بھی ۔ چوں کہ وہ پرانی وضع کے آدمی تھے ۔ اپنے علم و فن کی نمائش کبھی نہیں کی ۔ " جوہری را جوہری می شناسد " اہلِ علم جانتے تھے کہ شمس العلماء کی علمی گہرائی کتنی تھی ۔ جب اکابر اہلِ علم کی مجلس جمتی ، وہاں ان کا جوہر کھُلتا ۔ نہ کبھی انہوں نے شوقیہ فتویٰ نویسی کی ، نہ نمائشی مضمون نگاری ، لیکن جب ضرورت پڑی تو لکھا اور ضرور لکھا اور ایسا لکھا کہ فقیہانِ حرم کے کان کھڑے کر دیے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کبھی فتویٰ سے رجوع کیا ہو ۔ جو بات کہتے یا لکھتے ، انتہائی ٹھونس ہوتی ۔ مجال نہیں کہ کوئی ان کا منہ لگے ۔ مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ انہوں نے کبھی کسی سیمینار میں شرکت کی ہو ۔ سیمینار سازی اور سیمینار بازی دورِ جدید کی پیدا وار ہے ۔ وہ خود اپنی ذات میں ایک سیمینار اور کانفرنس تھے ۔ بنگال ، بہار ، یوپی اور مہاراشٹر جہاں کہیں رہے ، اپنے علمی سرمایہ کی بنیاد پر ہر جگہ ہمیشہ چھائے رہے ۔ پورے ملک میں وہ ایک مستند مفتی ، ایک فقیہِ بصیر اور ایک دیدہ ور مدرس کی حیثیت سے جانے مانے گئے ۔

( کاملانِ پورنیہ ، ص : 366 )


شمس العلماء کا مکتوب بنام حضور ملک العلماء:

شمس العلماء ، ملک العلماء حضرت علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کے بڑے چہیتے شاگرد تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بحر العلوم ، کٹہیار سے تحصیل علم کے بعد جب اپنے استاذ سے جدا ہوئے اور مختلف مقامات پر درس و تدریس کی خدمت انجام دینے لگے تو خط و کتابت کے ذریعے اپنے مشفق استاذ کی خبر خیریت دریافت کرتے اور مختلف النوع علمی مسائل میں آپ سے استصوابِ رائے کرتے ۔ '' تذکرہ کاملانِ پورنیہ '' میں آپ کے تین خطوط حضرت ملک العلماء کے نام ملتے ہیں ۔ راقم الحروف تبرکاً ایک مکتوب یہاں نقل کرنا مناسب سمجھتا ہے ۔ اس مکتوب سے ایک سعادت مند شاگرد کا کردار ایک استاذ کے تئیں ظاہر ہوتا ہے ۔ مکتوب کا مضمون ملاحظہ کریں:

باسمہٖ و حمدہٖ

سیدی و مولائی حضور ملک العلماء صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

بعد ما ہو المسنون مؤدبانہ عرض ایں کہ فقیر بحمدہٖ تعالیٰ حضور والا کی مبارک دعاؤں کی برکت سے با عافیت ہے اور حضور والا کی عافیت کا خواہاں ۔ حضور والا کا کرم نامہ فیض شمامہ موصول ہوا ۔ میں اپنی خوش قسمتی پر بہت مسرور ہوا کہ حضور والا نے ذرہ نوازی فرمائی ۔ کاش مجھے عقل ہوتی تو میں اب تک حضور والا کی برکت سے علم ہیئت و توقیت میں کامیاب ہو چکا ہوتا ۔ حضور ہی کا فیض ہے کہ ' توضیح التوقیت ' وغیرہ سے ایک حد تک کامیابی حاصل کر چکا ہوں ۔ اب تک میرے مطالعہ میں تصریح ، شرح چغمنی اور توضیح التوقیت تھی ۔ لیکن حضور والا کے فرمانے سے باب تشریح الاخلاق تلاش کرنے پر مدرسہ کے کتب خانہ میں دستیاب ہو گئی ۔ نہایت بہترین کتاب ہے اور انداز بھی سہل ہے ۔ ' المنک ' کی تلاش برابر جاری ہے ، مگر اب تک حاصل نہ ہو سکی ۔ لیکن امید ہے کہ پندرہ بیس روز میں ہاتھ آ جائے گی ۔ دعا فرمائیں کہ مولیٰ تعالیٰ ان علوم میں بھی کامیاب فرما دے ۔ ان فنون میں کامیابی کے لیے جو کتابیں مفید ہوں گی ، اگر حضور والا ان کے نام تحریر فرما دیں تو عین نوازش و ذری نوازی ہو ۔ ' توضیح التوقیت ' کے بعض مقامات پر شبہات اب بھی باقی ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دو روز میں اول فرصت میں جوابی لفافہ حاضر خدمت کروں گا۔ امید کہ سب حل ہو جائیں گے ۔ عرس حامدی کی تاریخ ۱۶ / ۱۷ / جمادی الاولیٰ ، مطابق ۱۷ / ۱۸ / اکتوبر ، جمعہ ، ہفتہ کو ہے ۔ ہفتہ کا دن ختم ہونے پر اتوار کی شب ۱۰ / بج کر ۴۵ / منٹ پر قل ہے ۔ کیا ہندوستان میں کہیں اسطرلاب موجود ہے کہ وہاں پہنچ کر اس کا مشاہدہ کر سکیں ۔ اگر حضور والا کے علم میں ہو تو مطلع فرمائیں ۔

فقط و السلام

غلام مجتبیٰ اشرفی

مدرس دار العلوم منظر اسلام ( بریلی )

۲۱ / اکتوبر ۱۹۶۱ ء

کاملانِ پورنیہ ، ص : 372 )


علمی و تصنیفی خدمات:

گذشتہ سطور میں بیان ہوا کہ آپ درسِ نظامی کے ایک بلند پایہ مدرس اور فقہ و حدیث میں مہارتِ تامہ رکھنے والے ایک عظیم المرتبت محدث و مفتی تھے ۔ آپ کی پوری زندگی درس و تدریس میں بسر ہوئی ۔ جہاں رہے شیخ الحدیث کے منصبِ جلیل پر متمکن رہے اور زندگی بھر بخاری شریف و دیگر کتبِ احادیث کا درس دیتے رہے ۔ فقہ و افتا کے علاوہ آپ کو حدیث و علومِ حدیث میں مہارت حاصل تھی ۔ تدریسی مصروفیات اور فتاویٰ نویسی کی مشغولیات کے علاوہ متعلقہ تعلیمی ادارے کی صدارت و اہتمام نے آپ کو تصنیف و تالیف کی مہلت نہ دی ۔ بایں ہمہ بخاری شریف کی جامع شرح موسوم بہ " منظر آیات الباری ما فی صحیح البخاری " اور " کئی جلدوں میں " فتاویٰ شمس العلماء " آپ کی عظیم علمی و تصنیفی یاد گار ہے، آپ کی محدثانہ عظمت اور فقہ و افتا میں اجتہادی بصیرت کو ظاہر کرنے کے لیے آپ کی یہی دونوں کتابیں کافی ہیں ۔


منظرِ آیات الباری ما فی صحیح البخاری:

بخاری شریف کی یہ بلند پایہ علمی و تحقیقی شرح آپ کے علمی تبحر و حدیثی مہارت کو اجاگر کرتی ہے ۔ یہ کتاب خالص علمی و تحقیقی نوعیت کی حامل ہے اور چار جلدوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں آیاتِ قرآنیہ ، احادیثِ قدسیہ یا بخاری شریف کے وہ مباحثِ علمیہ جو طلبہ و اساتذہ کے لیے غایت درجہ مشکل و مبہم ہیں ، آپ نے ان کی عالمانہ و محدثانہ انداز میں توضیح و تشریح فرمائی ہے ۔ حضرت شمس العلماء فرماتے تھے کہ میں نے یہ شرح بطورِ خاص علمائے کرام ، مفتیانِ عظام و شیخ الحدیث حضرات کے لیے لکھی ہے ۔

شمس العلماء حضرت علامہ مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی، حضور سرکارِ کلاں سید شاہ مختار اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی قدس سرہ کے مرید و خلیفہ تھے ۔ قیامِ بھیونڈی کے دوران آپ دو مرتبہ زیارتِ حرمین شریفین سے مشرف ہوئے ۔ افسوس کہ اسلاف کی علمی وراثتوں کے امین اور سر زمینِ بہار کے یہ نام ور سپوت ہمیشہ کے لیے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور  ۱۴ / اکتوبر ۲۰۰۲ ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علمی فیضان سے ہم سب کو مالا مال فرمائے ۔ آمین !!


ازقلم... طفیل احمد مصباحی

Post a Comment

0 Comments