رکشا بندھن کی شرعی حیثیت: فقہائے اہل سنت کی روشنی میں تجزیہ
تاریخی و مذہبی پسِ منظر
رکشا بندھن ہندو تہوار ہے جس میں بہن اپنے بھائی کی کلائی پر رنگ برنگا ڈوریا (راکھی) باندھتی ہے اور بھائی اس کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ اسے شراون مہینے کی پورن ماشی (عام طور پر اگست میں) کے دن منایا جاتا ہے۔ اس دن بہن بھائی ایک دوسرے کو تحائف اور مٹھائیاں دیتے ہیں اور بندھنِ محبت و حفاظت کو یاد کرتے ہیں۔ قدیم ہندو متون میں محافظ تار باندھنے کا رواج ملتا ہے؛ مثلاً آتھرویدا اور گرہ سُتروں میں حفاظتی بازو بندھنے کا ذکر ہے۔ اس کا بنیادی مقصد بہن بھائی کے درمیان محبت کو فروغ دینا اور بھائی کی حفاظت کی ذمہ داری کو یاد دلانا ہے۔ تاہم یہ رسم خالصتاً ہندو روایات و تہذیب سے منسلک ہے، اور اسلامی تاریخ یا شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
اسلام میں عبادات و رسوم کا تصور
اسلام میں عبادات اور دینی رسومات صرف وہی ہیں جن کا حکم قرآن و سنت سے ثابت ہو ۔ اس بنا پر صرف اسلام کے مقرر کردہ طریقے ہی عبادات کہلاتے ہیں۔ جو رسومات غیر دینی حوالوں سے آئیں، وہ شریعت کا حصہ نہیں ہوتیں۔ فقہائے کرام بتاتے ہیں کہ ایسی رسموں کو دین کا حصہ سمجھنا بدعت ہے۔ شریعت کے مطابق بدعت وہ عمل ہے جو قرآن و حدیث میں مذکور نہ ہو اور اسے دین کا تقرب حاصل کرنے کے ارادے سے کیا جائے، اور ایسی بدعت ہمیشہ گمراہی ہے۔
دیگر مذاہب سے لی گئی رسومات کے بارے میں عمومی اصول یہ ہے کہ اگر وہ رسم خالصتاً دینی نوعیت کی ہو تو اس میں شرکت کرنا اسلام میں ممنوع ہے۔ فقہی فتاویٰ اس پر متفق ہیں کہ غیر مسلموں کی خوشی و غمی میں اس وقت تک شرکت جائز ہے جب تک اس میں کوئی غیر شریعی رسوم (مثلاً عبادات یا مذہبی تہوار) شامل نہ ہوں۔ رکشا بندھن چونکہ ہندو مذہب کا مذہبی تہوار ہے، اس لیے اس میں شرکت کو اسلام میں دینی رسم میں شرکت کے زمرے میں لیا جائے گا۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ گہری محبت و دوستی سے روکا گیا ہے، اور رسول ﷺ نے فرمایا: "من تشبہ بقوم فهو منهم" یعنی جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہو گا۔
فقہائے اہل سنت کے فتاویٰ
اہل سنت کے اکابر علماء نے رکشا بندھن کو غیر اسلامی، من گھڑت اور ناجائز رسم قرار دیا ہے۔ مثلاً دارالافتاء کے فتاویٰ میں واضح طور پر ذکر ہے کہ یہ ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے، اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار میں کسی بھی طرح شرکت یا معاونت کرے؛ لہٰذا راکھی بنانا اور اس کے عوض اجرت وصول کرنا بھی جائز نہیں۔
مفتی شرف الحق امجدی لکھتے ہیں: “جو مسلمان عورتیں ہندوؤں کو یہ ڈورا باندھتی ہیں یا مسلمان مرد ہندو عورت سے باندھواتے ہیں، وہ سب فاسق و فاجر ہیں اور ان پر عذابِ نار کا حق ہے، اور ان پر توبہ لازم ہے۔”
مفتی نِظام الدین رضوی برکاتی (جامعہ اشرفیہ مبارک پور) سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی مسلمان ہندوؤں سے ہاتھ پر راکھی باندھواتا ہے تو کیا حکم ہے؟ ان کا جواب تھا کہ چونکہ یہ ان کا مذہبی شعار ہے، اسے پسند و رغبت سے کرنا نہ صرف حرام بلکہ کفر ہے؛ ایسے شخص کو توبہ کر کے دوبارہ اسلام میں داخل ہونا ہو گا۔
علماء کا عمومی موقف ہے کہ ایسی رسومات کو اختیار کرنے کو “تقلید کفار” یا “بدعت” تصور کیا جاتا ہے، اور مسلمانوں پر اسے ترک کرنا واجب ہے۔
تقلید، مشابہت اور بدعت کے اصول
اسلام میں غیر مسلموں کی تہذیب اور شعائر کی مشابہت سے سختی سے روکا گیا ہے۔ قرآن نے فرمایا: "اے ایمان والو! کفار کو مسلمانوں کا دوست نہ بناؤ" اور "تم ان کی طرح نہ ہو جاؤ جو کافر ہو گئے"۔
رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع پر صحابہ کرام کو کفار کی رسومات اور تہذیبی علامات کی مشابہت سے منع فرمایا۔ فقہاء کے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم قوم کی مخصوص دینی یا تہذیبی علامت کو اختیار کرتا ہے، تو وہ شرعی اعتبار سے انہی میں شمار کیا جاتا ہے۔
مفتی شرف الحق امجدی لکھتے ہیں کہ راکھی باندھنا ہندوؤں کا قومی شعار ہے، اور کسی کافر کی قومی علامت کو اختیار کرنا شرعاً حرام ہے۔ دراصل کفار کے ساتھ معاملات تین قسم کے ہیں: مولاۃ (دوستی)، مداراة (نرمی)، اور مواساۃ (ہمدردی)۔ ان میں سے مولاۃ یعنی ان کی مذہبی رسومات میں شامل ہونا کسی صورت جائز نہیں۔
رکشا بندھن کو اگرچہ بعض لوگ ثقافتی رسم سمجھتے ہیں، مگر اس کا اصل پس منظر ہندو مذہبی روایات سے جڑا ہے، اس لیے یہ "بدعت" اور "تشبہ بالکفار" کے زمرے میں آتا ہے۔
مسلمان معاشرے میں حکمِ رائجیت
اگر کسی مسلمان معاشرے میں رکشا بندھن کی رسم رائج ہو جائے تو بھی اس کا شرعی حکم تبدیل نہیں ہوتا۔ فقہی اصول ہے کہ کسی عمل کا عمومی رواج اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، اگر وہ شریعت کے خلاف ہو۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو توبہ کرنی چاہیے اور اس رسم سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ بہن بھائی اپنے پیار اور تعلق کو اسلامی انداز سے ظاہر کریں، جیسے ایک دوسرے کے لیے دعا کرنا، تحفہ دینا، یا صلہ رحمی کے دیگر جائز ذرائع اختیار کرنا۔
خلاصہ و شرعی رہنمائی
رکشا بندھن اسلام میں جائز نہیں۔ فقہائے اہل سنت کا اس پر واضح اور متفقہ موقف ہے:
راکھی باندھنا یا بندھوانا جائز نہیں۔ یہ غیر اسلامی تہوار ہے۔
اس رسم میں شریک ہونا یا اس کے طور طریقے اپنانا شرعی طور پر گناہ ہے، بعض صورتوں میں کفر تک پہنچتا ہے۔
بدعت اور تقلید کفار سے بچنا ضروری ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے عقائد، عبادات اور تہواروں میں اسلام کی پیروی کریں۔
عملی راہنمائی:
اگر کسی مسلمان نے لاعلمی میں راکھی باندھی یا بندھوائی ہو، تو اسے چاہیے کہ فوراً سچی توبہ کرے اور آئندہ مکمل اجتناب کرے۔ اپنے غیر مسلم رشتہ داروں سے تعلقات کو خوش اخلاقی، دیانت، اور حسنِ سلوک سے قائم رکھیں، لیکن ان کے مذہبی شعائر یا رسموں میں شرکت سے مکمل پرہیز کریں۔
دعا:
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بدعت، شرک، اور کفار کی مشابہت سے محفوظ رکھے اور دینِ اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین۔
#rakhshabandan,
#rakhi,
#rakhiBandhnaKaisaHe,
0 Comments