قربانی کا گوشت کافر کو دینا جائز ہے یا نہیں، کیا قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا جائز ہے

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ آیا قربانی کا گوشت کافر کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ کتب معتبرہ سے جواب تحریر فرمائیں۔

الجواب:

ہندوستان کے کفار موجودہ دور میں بھی حربی ہیں اور حربی کا فر پر احسان یا اس کو صدقہ دینا جائز نہیں۔ لہذا قربانی کا گوشت کافر کو دینا خواہ بطور احسان ہو یا بطور صدقہ بہر حال ناروا ہے۔ ہندوستان کے کفار کے حربی ہونے کی تصریح حضرت شیخ احمد المعروف بملا جیون رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیرات احمدیہ ص ۲۵۸ میں زیر آیت قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ .....(الآية) [التوبة: ۲۹ ) ( قتل کر دو جونہ مانیں اللہ کو اور نہ پچھلے دن کو اور نہ حرام جانیں جس کو حرام فرما دیا اللہ اور اس کے رسول نے اور نہ قبول کریں دین برحق کو جن کو کتاب بھی دی گئی تھی یہاں تک کہ دیں جزیہ اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر یہ فرمائی ہے۔ تفكروا يا ايها المسلمون إن هم الا حربي ولا يعقلها الا العالمون. مسلمانو ! ذرا سمجھ سے کام لو یہ تو حربی ہی ہیں۔ اسے جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

اس تصریح سے صاف ظاہر ہے کہ جب اس زمانہ کے کفار حربی تھے تو اب بر طریق اولی واتم حربی ہوں گے ۔ تفسیر مذکور کے ص ۷۰۰-۱۹۹ میں زیر آیت ولا يَنھٰكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمُ فِى الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبرُّوُهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمُ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴾ [الممتحنة: ۸] (نہیں روکتا تمہیں اللہ ان لوگوں سے جنہوں نے جنگ نہیں کی تم سے دین میں اور نہ نکالا تمہیں تمہارے گھروں سے کہ حسن سلوک رکھو ان سے اور انصاف برتو ان سے بیشک اللہ پسند فرماتا ہے انصاف والوں کو) ﴿إِنَّمَا يَنْهٰكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوْكُمْ فِي الدِّينِ وَ أَخْرَجُوكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَ ظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجكُمُ أَنْ تَوَلَّوهُمْ ، وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ﴾ [الممتحنة: 9) (الله تو تمہیں منع کرتا ہے بس انہیں لوگوں سے جنہوں نے جنگ کی تم سے دین میں اور نکالا تم لوگوں کو تمہارے گھروں سے اور مدد کی تمہارے نکالنے پر یہ کہ دوستی کرو ان سے جو دوستی کرے ان کی تو ظالم وہی ہے )۔ یوں تحریر فرماتے ہیں۔ والحاصل ان الآية الأولى ان كانت في الذمى والثانية في الحربي كما هو الظاهر و عليه الاكثرون كان دالا على جواز الاحسان الى الذمى دون الحربى ولهذا تمسك صاحب الهداية في باب الوصية ان الوصية للذمى جائزة دون الحربى لأنه نوع احسان و لهذا المعنى قال فى باب الزكوة ان الصدقة الناقلة يجوز اعطاءها للذمى دون الحربى لانا مانهينا عن البر في حقهم بخلاف الزكوة لانا لايجوز الا لمسلم. خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت اگرچہ کہ ذمی کے حق میں ہے اور دوسری آیت حربی کے حق میں جیسا کہ ظاہر ہے ، اسی پر اکثر علماء ہیں۔ دلیل ہے ذمی پر احسان کے جواز پر نہ کہ حربی کے۔ اسی لئے صاحب ہدایہ نے باب الوصیۃ میں تمسک کیا کہ ذمی کے لئے وصیت جائز ہے نہ کہ حربی کے لئے ۔ کیونکہ یہ بھی احسان کی ایک قسم ہے۔ اسی معنی کی وجہ سے باب الزکوۃ میں کہا کہ صدقہ نافلہ ذمی کو دینا جائز ہے حربی کو جائز نہیں۔ کیونکہ ان کے حق میں احسان سے ہم منع نہیں کئے گئے بخلاف زکوۃ کے۔ کیونکہ زکوۃ مسلمان کے علاوہ کسی کو دینا جائز نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم.

(حبیب الفتاوی)

Post a Comment

0 Comments