سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک اونٹ میں دس آدمی کی طرف سےقربانی ہوگی یا نہیں؟
الجواب:
ایک اونٹ کی قربانی دس آدمی کی طرف سے جائز نہیں بلکہ اونٹ میں سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں۔ عن جابر ان النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قال البقرة عن سبعة والجزور عن سبعة. گائے سات آدمی کی طرف سے اور اونٹ سات کی طرف سے۔ (مشکوہ باب الاضحیۃ فصل اول) یہ حدیث صحیح و معتبر ہے۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث حسن غریب میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے۔ قال كنا مع رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم في سفر فحضر الاضحى فاشتر كنا في البقر سبعة و في البعير عشرة.
ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ قربانی کا جانور لایا گیا۔ ہملوگ گائے میں سات اور اونٹ میں دس شریک ہو گئے ۔ اس سے ایک اونٹ میں دس کی شرکت منقول ہے۔ اس پر بعض علماء کا عمل ہے۔ جمہور ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے اور گائے بھینس اونٹ سب کا ایک ہی حکم ہے کہ سات شخصوں کی طرف سے ان جانوروں کی قربانی ہوگی۔ زیادہ شریک نہیں ہو سکتے ۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات جلد اول ص ۶۵۳ میں لکھتے ہیں۔اشتراك ده كس در شتر عمل بعضی از علماء است و جمهور بر آنند که این منسوخ است و گاو وشتر يك حكم دارند.
اونٹ کے اندر دس آدمی کا اشتراک بعض علماء کا عمل ہے۔ جمہور اسی پر ہیں کہ یہ منسوخ ہے۔ اور گائے واونٹ کا ایک ہی حکم ہے۔ واللہ تعالی اعلم
0 Comments