کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں....
کہ شوہر اور بیوی کے اپسی جھگڑے میں بیوی نے شوہر سے کہا شادی کر کے کیا فائدہ ہوا؟ نہ تم میرے ساتھ رات گزارتے ہو اور نہ ہی تمہیں اولاد کی خواہش ہے. صرف رہنے کے لیے ایک گھر دیے ہو اور بس.
اپنے والدین کی سنتے ہو اور انہی کے کہنے پر دوسری ریاستوں میں مزدوری کے لیے چلے جاتے ہو اسی دوران شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کیا تم طلاق چاہتی ہو؟ کیا تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی؟ تو ٹھیک ہے میں تمہیں طلاق دے دوں گا. دریافت طلب امر یہ ہے کہ شوہر کے اس طرح کہنے سے بیوی پر طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ جو بھی حکم شرع ہو قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائے. والسلام.
المستفتی: محمد اشرف، بدھان نگر دار جلنگ
حامدا مصلیا و متبسملہ
اجمالی جواب: طلاق واقع نہیں ہوگی.
تفصیلی جواب: شوہر کا اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ "میں تمہیں طلاق دے دوں گا" صرف دھمکی اور اسے ڈرانا مقصود ہے یا وعدہ طلاق ہے لہذا اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی. کیونکہ صیغہ مستقبل سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے. البتہ شوہر کا بیوی کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے طلاق کا استعمال کرنا نہایت ہی گری ہوئی حرکت ہے اس سے ازدواجی رشتہ مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہو جاتا ہے اور شوہر کی تئیں بیوی کے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے.
نکاح ایک نازک رشتہ ہے لہذا اس کی قدر کریں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں والدین کی سنیں اور بیوی کی جائز طلب کی پوری کریں وقتا فوقتا تحفہ وغیرہ پیش کر کے ازدواجی زندگی کو خوشحال بنائیں. بیوی پر بھی ضروری ہے کہ شوہر کی قدر کرے ایسی بات نہ کرے جس سے خاوند کو تکلیف ہو. اس کے دکھ درد کو اپنا دکھ در سمجھے اور اس کے والدین یعنی ساس سسر کا بھی احترام کرے. واللہ اعلم بالصواب.
حوالہ جات:
طلاق بدست تو است مرا طلاق کن فقال الزوج طلاق میکنم طلاق میکنم طلاق میکنم و کرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قولہ کنم لانہ استقبال فلم یکن تحقیقا بالتشکیک.
(فتاوی ہندیہ ج 1 ص 384)
کتبہ؛
مفتی محمد چاندعلی اشرفی قمر جامعی،
استاذ: مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال
0 Comments