استاذ گرامی خیر الأذکیاء علامہ احمد اعظمی أطال اللہ عمرہ رقمطراز ہیں
"امام احمد رضا کی پوری زندگی شریعتِ مصطفیٰ وسنتِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کی پابندی سے آراستہ ہے۔ان کے تقویٰ کی شان بڑی بلند وبالا ہے ۔چند واقعات پیش کرتا ہوں جن سے اندازہ ہوگا کہ وہ تقویٰ ہی نہیں وَرَع ْکی منزل بلند پر فائز تھے اوراِنْ اَوْلِیَآئُ ہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ کے مطابق متقی کامل اور ولی ّعارف تھے۔
امام احمد رضا کی زندگی کا آخری رمضان ۱۳۳۹ھ میں تھا، اس وقت ایک تو بریلی میں گرمی تھی دوسرے عمر مبارک کا آخری حصہ اور ضعف ومرض کی شدت ۔شریعت اجازت دیتی ہے کہ شیخ فانی روزہ نہ رکھ سکے تو فدیہ دے اور ناتواں مریض کو اجازت دیتی ہے کہ قضا کرے لیکن امام احمد رضا کا فتویٰ اپنے لیے کچھ اور ہی تھا جو در حقیقت فتویٰ نہیں تقویٰ تھا ۔ انہوں نے فرمایا :بریلی میں شدت گرما کے سبب میرے لیے روزہ رکھنا ممکن نہیں لیکن پہاڑ پر ٹھنڈک ہوتی ہے ،یہاں سے نینی تال قریب ہے، بھوالی پہاڑ پر روزہ رکھا جاسکتا ہے، میں وہاں جانے پر قادر ہوں لہٰذا میرے اوپر وہاں جاکر روزہ رکھنا فرض ہے چنانچہ رمضان وہیں گزارے اور پورے روزے رکھے۔
۲۵؍صفر کو وصال ہوتا ہے، مرض مہینوں سے تھا اور ایسا کہ چلنے پھر نے کی طاقت نہیں، شریعت اجازت دیتی ہے کہ ایسا مریض گھر میں تنہا نماز پڑھ لے ۔مگر امام احمد رضا جماعت کی پابندی کرتے اور چار آدمی کرسی پر بٹھا کر مسجد پہنچاتے جب تک اس طرح حاضری کی قدرت تھی،جماعت میں شریک ہوتے رہے۔
میں نے’’ جمل النور فی نھی النساء عن زیارۃ القبور‘‘ کے حاشیہ میں اپنے استاذ محترم حضور حافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب مراد آبادی علیہ الرحمہ (۱۳۱۲ھ؍ ۱۳۹۶ھ)کی روایت سے لکھا ہے :۔
ایک بار مسجد لے جانے والا کوئی نہ تھا، جماعت کا وقت ہوگیا ۔ طبیعت پریشان،ناچار خود ہی گھسٹتے ہوئے حاضر مسجد ہوئے اور باجماعت نماز ادا کی ۔آج صحت وطاقت اور تمام تر سہولیات کے باوجود ترک نماز اور ترک جماعت کے ماحول میں یہ واقعہ ایک عظیم درس عبرت ہے۔
ایک بار امام احمد رضا قدس سرہ اپنے علاقۂ زمینداری میں سکونت پزیر تھے ۔درد قولنج کے سخت دورے ہوا کرتے تھے ۔ایک دن تنہا تھے ،فرماتے ہیں: ظہر کے وقت درد شروع ہوا ، اسی حالت میں جس طرح ہوا وضوکیا،اب نماز کو کھڑا نہیں ہوا جاتا،رب عزوجل سے دعا کی اور حضور اقدس اسے مدد مانگی، مولیٰ عزوجل مضطر کی پکار سنتا ہے، میں نے سنتوں کی نیت باندھ دی ۔درد بالکل نہ تھا ۔سلام پھیرا ،اسی شدت سے تھا ۔فوراً اٹھ کر فرضوں کی نیت باندھی درد جاتا رہا،جب سلام پھیرا وہی حالت تھی ۔بعد کی سنتیں پڑھی درد موقوف اور سلام کے بعد پھر بدستور ،میں نے کہا اب عصر تک ہوتا رہ…پلنگ پر لیٹا کروٹیں لے رہا تھا کہ درد سے کسی پہلو قرار نہ تھا ،خواہ یہ کہیے کہ حالت نماز میں درد یکسر اٹھا لیا جاتا تھا یا یہ کہیے کہ توجہ اِلیٰ اللہ اور استغراق عبادت کے باعث درد کا احساس نہ ہوتا تھا ،بہر صورت امام احمد رضا کی مقبولیتِ بارگاہ اور ذوق عرفانی کی دلیلِ کافی ہے"۔(امام احمد رضا اور تصوف)
پیشکش : سرور مصباحی
(اتر دیناج پور,بنگال)
0 Comments