سوال:
السَّلام علیکم مفتی صاحب کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ عورت کا اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کے بال اتارناکیساہے؟اس بارے میں فتوی سینڈ کر دیں جزاک اللہ خیرا۔
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
عورتوں کے لیے اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کے بال اتارنا جائز ہے شرعا اس میں کوئی حرج وقباحت نہیں ہے۔
بہار شریعت ، حصہ ١٦/ ص: ١٨٧/میں ردالمحتار کے حوالے سے صاف لکھا ہے:
ہاتھ پاؤں پر سے بال دور کرنا جائز ہے۔ سینہ اور پیٹھ سے بال کاٹنا خلاف ادب ہے۔ (بہارِ شريعت بحواله رد المحتار)
یہ اصول ذہن نشیں کرلیں کہ شرعی حدود و قیود لحاظ کرتی ہوئی خواتین کے لیے بناؤ سنگھار اور زیب وزینت اختیار کرنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اور اگر زیب وزینت اور بناؤ سنگھار میں کسی بھی طرح شریعت کی مخالفت لازم آئے تو پھر ایسی صورت میں عورت کے لیے زیب و زینت جائز نہیں ، چاہے وہ زینت شوہر ہی کے لیے کیوں نہ ہو ۔
اور یہ بھی خیال رہے کہ بناؤ سنگھار کے جو امور شرعی حدود اور جائز درجہ میں ہیں اُن میں بھی مقصود شوہر کو خوش کرنا ہو ، نہ کہ نامحرم مردوں کو دکھانا یا دوسری عورتوں کے سامنے اترانا ، اگر شوہر کو خوش کرنے کے لیے بناؤ سنگھار کرے گی تو اس کو ثواب ملے گا اور اگر نامحرم مردوں کو دکھانے یا فخر کی نیت سے بناؤ سنگھار کرے گی تو گناہ گار ہوگی۔ پس اس مختصر سی وضاحت کے بعد یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے بازووں ، ٹانگوں علاوہ ازیں اپنے چہرے کے غیر معتاد بال مثلاً داڑھی ، مونچھ ، پیشانی وغیرہ کے بال صاف کرنا جائز ہے، البتہ ان بالوں کو نوچ کر نکالنا مناسب نہیں ، کیوں کہ اس میں بلا وجہ اپنے جسم کو اذیت دیناہے پس کسی پاؤڈر وغیرہ کے ذریعہ صاف کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔جیساکہ حاشية رد المحتار على الدر المختار جلد سادس ، ص: ٣٧٣/ میں ہے:
"(والنامصة الخ ) ذكره فی الاختيار ايضا ، وفی المغرب : النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما اذا فعلته لتتزين للاجانب ، والا فلو كان فی وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففی تحريم ازالته بعد ؛ لان الزينة للنساء مطلوبة للتحسين ، الا ان يحمل على ما لاضرورة اليه ؛ لما فی نتفه بالمنماص من الايذاء وفی تبيين المحارم : ازالة الشعر من الوجه حرام الا اذا نبت للمرأة لحية او شوارب فلا تحرم ازالته بل تستحب"۔
اور اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ، فتاوی رضویہ جدید ، جلد ٢٢/ ص: ١٢٦/میں فرماتے ہیں:
"عورت کا اپنے شوہر کے لیے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعِثِ اجرِ عظیم اور اس کے حق میں نمازِ نَفل سے افضل ہے۔ بعض صالحات کہ خود اور ان کے شوہر دونوں صاحبِ اولیائے کرام سے تھے ، ہر شب بعد نمازِ عشا پورا سنگار کر کے دلہن بن کر اپنے شوہر کے پاس آتیں، اگر انہیں حاجت ہوتی تو حاضر رہتیں، ورنہ زیور و لباس اتار کر مصلے بچھاتیں اور نماز میں مشغول ہو جاتیں"۔ اور عورت کے لیے یہ سارے بال اتارنا ایک طور سے اس کی زینت میں اضافے کا ذریعہ ہے فلھذا عورت کے لیے اپنے بازو اور ٹانگوں کا بال اتارنا درست ہے شرعا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
کتبہ:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات ،
۴/ربیع الثانی ١۴۴۵/ ہجری
٢٠/اکتوبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بروز جمعہ۔
0 Comments