سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:جو عمرہ کر کے آتے ہیں ان کواگرکوئی حاجی صاحب کہ کر پکارے کیا اس طرح عمرہ کرنے والےکو حاجی صاحب پکارناگناہ ہے؟ جبکہ عمرہ کرنے والاخود سے نہیں کہتا ہے اور نہ کہلواتا ہے۔ بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
حج اور عمرہ دونوں الگ الگ رکن ہیں اس لیے قرآن و حدیث میں ان دونوں کے بجانے لانے والے کی اصطلاح بھی الگ الگ بیان کئے گئے ہیں پس مخصوص ایام میں مخصوص مقامات پر مخصوص ارکان ادا کرنے کو حج کہتے ہیں اور اس کے بجالانے والے کو حاجی کہتے ہیں۔ لہذا جب کبھی کسی کو حاجی کہا جاتا ہے تو ذہن حج کے ارکان ادا کرنےوالے کی ہی طرف متبادر ہوتاہے۔ اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے شرع نے ایام مخصوص نہیں کیا وہ کبھی بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور اس کے ادا کرنے والے کو قرآن و حدیث میں معتمر کہا گیا ہے ۔ اگرچہ حدیث میں عمرہ کو بھی حج اصغر کہا گیا ہے مگر حج وعمرہ کے لیے الگ الگ لفظ بھی ہے۔
جیساکہ قرآن مقدس کے سورہ بقرہ ، پارہ ٢/ کے اندر فرمایا گیا
فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَاؕ - وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًاۙ - فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ(١۵٨)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے چکر لگائے اور جو کوئی اپنی طرف سے بھلائی کرے تو بے شک اللہ نیکی کابدلہ دینے والا ، خبردار ہے۔
اور مسلم شریف کے ص: ٢٧/ حج و عمرہ کے حوالے سے فرمایا گیا:
"فانْطَلَقْتُ أنا وحُمَيْدُ بنُ عبدِ الرَّحْمَنِ الحِمْيَرِيُّ حاجَّيْنِ ، أوْ مُعْتَمِرَيْنِ"۔
قرآن و حدیث کی ان مذکورہ مقدس عبارات سے یہ واضح ہوچکا کہ حج و عمرہ دونوں الگ الگ رکن ہے۔ لہذا شریعت اسی بات کا متقاضی ہے کہ حج کرنے والے کو حاجی اور عمرہ کرنے والے کو معتمر کہا جائے۔
پھر اگر اسے اصولی طور پر دیکھاجائے تو اس حساب سے بھی کسی عمرہ کرنے والے کو حاجی صاحب کہہ کر پکارنا درست نہیں ۔
دیکھیے! حاجی اسم فاعل ہے اور اسم فاعل وہ ہوتا ہے جس چیز کی اس کو آپ منسوب کرتے ہیں جیسے "کاتب" یعنی لکھنے والا تو لفظ "کاتب" کو لکھنے کی طرف منسوب کرتے ہیں تو پتہ چلا کاتب کہنے کے لیے پہلے لکھنا ثابت ہونا ضروری ہے۔ ایسے ہی حاجی اسم فاعل ہے تو اب کوئی حاجی اس وقت کہلائے گا جب اس کے لیے حج کیا جانا ثابت ہو کہ حج سے حاجی بنتا ہے ۔ لیکن اگر صرفی اعتبار سے کہوں تو ہر صیغہ صفت وہ اپنے اندر مصدر کے وجود کا تقاضہ کرتا ہے کہ اگراسم فاعل کا صیغہ کسی کے لیے بولا جائے تو پہلے معنی مصدری کا اس ذات کے اندر موجود ہونا ضروری ہے اگر ایسا ہے تو اس پر اسم فاعل کا اطلاق درست ہوگا ورنہ نہیں ۔ مثال کے طور پر حاجی اسم فاعل ہے اور حج اس کا مصدر اور یہ حج کا معنوی لحاظ سے معنی مصدری اس کے اندر پایا جائے یعنی اس نے حج کیا ہو تو حاجی کہہ سکتے ہیں ۔ اور عمرہ کرنے والا حاجی نہیں ہوتا ۔ پس کسی عمرہ کرنے والے کو حاجی صاحب نہیں کہہ سکتے ہیں ۔
لیکن بہتوں جگہ یہ عرف س رواج ہے کہ جب کوئی حرمین شریفین سے آتے ہیں تو اسے بطور تعظیم "حاجی صاحب" کہہ دیتے ہیں پس اگر واقعی اسی تعظیم کے طور پر کسی عمرہ کرنے والا حاجی صاحب کہتا ہے تو بظاہر تو اس میں کوئی حرج تو نظر نہیں آتا مگر ایسا کہنے احتیاط کرنا انسب و اولی ہے کہ شرع نے دونوں کے لیے الگ الگ اصطلاح قائم۔کر رکھی ہے پس قرآن و حدیث میں جس کے لیے جو اصطلاح قائم کی گئی ہے اسی کے حساب سے اس کا استعمال کیا جائے ۔ لیکن جس طریقے سے حج کرنے والے کو حاجی کہتے ہیں کہ اس نے حج کیا ہے اور حج کے فضائل و دگر معاملات حاجی کے ساتھ پیش آتے ہیں ، جو باتیں "حاجی" سے متعلق ہوتی ہیں وہ باتیں عمرہ کرنے والے کے اندر نہیں ہوتی ۔ پس اس معنی کے لحاظ سے عمرہ کرنے والے کو "حاجی صاحب" نہیں کہا جا سکتا - رہی بات یہ کہ عمرہ کرنے والے کو "حاجی صاحب" کہہ کر پکارنا گناہ ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میرے مطالعہ سے کوئی صریح جزئیہ ابھی تک نہیں گزرا ہے۔ ہاں اتنا تو واضح ہے کہ جو عمرہ کرنے والا شخص خود کو حاجی نہیں کہتا اور نہ کہلواتا ہے مگر لوگ پھر بھی اسے حاجی کہہ دیتے ہیں تو اس کی وجہ سے اس عمرہ کرنے والے شخص پر کوئی الزام وارد نہ ہوگا۔
قرآن مقدس میں ہے:
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى:
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اُس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عِوَض نہ پکڑی جائے گی ۔ البتہ جو گمراہ کرنے والے ہیں ان کے گمراہ کرنے سے جو لوگ گمراہ ہوئے ان کی تمام گمراہیوں کا بوجھ ان گمراہوں پر بھی ہوگا اور اُن گمراہ کرنے والوں پر بھی۔
جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا
’’وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ‘‘(سورہ عنکبوت:۱۳)
ترجمۂ کنزُ العِرفان:
اور بے شک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گےاور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں گے۔
البتہ: اس شخص (معتمر) کو بھی چاہیے کہ حتی المقدور لوگوں کو ایسا کہنے سے روکے اس لیے کہ شرع میں اپنے اعمال کے چھپانے کا حکم ہے۔
اور محترم ! عصر حاضر حالات کے پیش اضافی طور پر یہ بھی رقم کردیا جانا مناسب ہے کہ یہ بات تو کچھ حد تک برداشت بھی کی جاسکتی ہے کہ کچھ لوگ اپنی غلط فہمی یا عدم کی جانکاری کی بنیاد پر کسی عمرہ کرنے والے کو حاجی کہہ دیتے ہیں مگر زیادہ حیرت تو تب ہوتی ہے کہ ایک عمرہ کرنے والا اپنے آپ کو حاجی کہلواکر سینہ چوڑا کرکے گھومتا پھیرتا ہے ۔ حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حج کرنے والا بھی اپنے آپ کو احتیاط برتتے ہوئے حاجی نہ کہلوائے اس لیے کہ شریعت مطہرہ اعمال کو چھپانے کا تقاضہ کرتی ہے مگر آج تو حال یہ ہے کہ اگر کوئی حرمین سے واپس آگیا تو وہ حرمین سے واپس آتے ہی اپنے نام کے آگے الحاج فلاں الحاج فلاں لکھوانے لگ جاتے ہیں ۔ یہ مناسب نہیں لگتا کہ اس سے ریا کاری اور نمود کی بو آتی ہے۔
ہاں! اگر آپ چھپا رہے ہیں اور آپ نہیں چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کو حاجی کہہ کر پکارے ، بلائے مگر پھر بھی لوگ اگر اپنی محبت میں آپ کو حاجی فلاں وغیرہ کہہ کر پکارتے اور عزت دیتے ہیں یہ تو ٹھیک ہے لیکن از خود یہ خواہش ظاہر کرنا مجھے حاجی صاحب کہا جائے تو یہ بالکل صحیح نہیں اور غیر مناسب ہے ۔
ھذا ما ظهرلی والعلم بالحق عند اللہ تعالی ورسولہ الاعلی اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
کتبہ:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
٣/ربیع الثانی ١۴۴۵/ ہجری
١٩/ اکتوبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بروز جمعرات۔
0 Comments