سوال :
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ سے متعلق کہ زید اپنے بیٹے عمر کا نکاح اپنی خالہ زاد بہن زینب سے نکاح کرانا چاہتا ہے تو کیا یہ نکاح ہوسکتا ہے؟ کیا یہ نکاح شرعا درست ہے؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔
الجواب بعون الملک الوھاب
واضح رہے کہ کسی مرد کے لیے اس کے باپ کی خالہ زاد بہن چوں کہ شرعا محارم میں سے نہیں ہے ، لہٰذا اس سے نکاح ہوسکتا ہے(بشرطیکہ حرمت کی کوئی اور وجہ مثلاً رضاعت وغیرہ بھی موجود نہ ہو)۔
جیساکہ قرآن مجید ، سورہ نساء ، آیت نمبر ٢٣/ میں ہے:
"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا."
اور اسی میں آیت نمبر ٢۴/ میں ہے:
"وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ"-
(01) کیالڑکی کا اس کی امی کے خالہ زاد بھائی سے نکاح ہوسکتاہے؟
پس صورت مسئولہ میں زید کے بیٹے عمر کا نکاح زید کی خالہ زاد بہن زینب سے ہوسکتا ہے جب کہ نکاح سے ممانعت کا کوئی اور سبب جیسے رضاعت و حرمتِ مُصاہرت وغیرہ موجود نہ ہو ، کیوں کہ یہ زینب عمر کی سگی خالہ نہیں ہے بلکہ عمر کے باپ کی خالہ کی لڑکی ہے اور باپ کی خالہ کی لڑکی یہ ان عورتوں میں سےنہیں جن سے شریعت میں نکاح حرام قرار دیا گیا ہے ۔ فلھذا عمر کا نکاح زینب سے ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ کوئی اور دوسری وجہ مانع نکاح نہ ہو۔
فائدہ:
کس سےنکاح جائز ہے اور کس سے نکاح جائز نہیں اس بارے شریعت مطہرہ کا یہ مفید و کار آمد قاعدہ کُلیہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ :
اپنی فرع یعنی بیٹی ، پوتی ، نواسی چاہے کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو ، یونہی اپنی اصل یعنی ماں ، دادی ، نانی چاہے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو ان سےنکاح مطلقاً حرام ہے۔ اپنی اصلِ قریب کی فرع جیسے ماں اور باپ کی اولاد یا ماں باپ کی اولاد کی اولاد چاہے کتنی ہی بعید ہو اس سے نکاح حرام ہے۔ اپنی اصلِ بعید کی فرع قریب جیسے دادا ، پردادا ، نانا ، دادی ، نانی ، پرنانی کی بیٹیاں ان سے نکاح حرام ہے۔ اپنی اصلِ بعید کی فرع بعید جیسے دادا ، پردادا ، نانا ، دادی ، نانی ، پرنانی کی پوتیاں نواسیاں جو اپنی اصلِ قریب کی فرع نہ ہوں ، ان سے نکاح جائز ہے۔ اس قاعدہ کے مطابق عمر اپنے والد زید کی خالہ زاد بہن کے لیے عمر زینب کی اصلِ بعید یعنی نانی کی فرع بعید یعنی پَر نواسا کہلائے گا ، لہٰذا عمر کا نکاح زینب سے درست ہے۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
کتبہ:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
٢٩/ربیع الاول ١۴۴۵/ ہجری
١۵/اکتوبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بروز اتوار۔
0 Comments