سوال :
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین مفتیان کرام کہ فی زمانہ کسی ایسے شخص کو”مفتی“ کہنا یا ”علامہ“ کہنا جو نہ مفتی ہو نہ علامہ تو قاٸل پر کیا حکم شرع لاگو ہوگا ؟ رہنمائی فرماٸیں ۔ برائے مہربانی
الجواب بعون الملک الوھاب
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فتاوی امجدیہ جلد چہارم ، کتاب الحظر والاباحة ، ص:١٩٠ ، ١٩١ /میں فرماتے ہیں:
"آج کل مولانا مولوی کے لیے نہ کسی درس کی ضرورت ہے نہ فراغ کی جو وعظ کہہ لے مولوی ہوگیا بلکہ لیڈر بھی مولانا کہلاتے ہیں اور وکیل کو بھی مولوی کہا جاتا ہے لہذا اس عرف عام کے ہوتے ہوئے اگر غیر فارغ التحصیل کو مولانا مولوی کہا جائے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ واقع میں عالم ہے اور سند تحریری یا دستار فضیلت یا کسی خاص مدرسے میں پڑھنا تو کسی زمانہ میں ضروری نہ تھا پھر بھی اگر زید میں علم دین کی قابلیت نہ ہو تو اسکو ان الفاظ سے بچنا چاہیے یونہی اگر قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھتا ہو تو اسے قاری کہہ سکتے ہیں اگرچہ اس کے پاس سند نہ ہو"واللہ تعالی اعلم ۔
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی اس تحریر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص کے اندر مفتی اور علامہ جیسی قابلیت اور صلاحیت موجود نہ ہو اسے مفتی یا علامہ جیسے الفاظ کہنے سے احتراز و اجتناب کرنا چاہیے بلکہ ان الفاظ کا استعمال انھیں افراد و اشخاص کے لیے کرنا چاہیے جو انکے اصل مستحق ہیں ۔
*ہاں!* اگر کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ فلاں شخص واقعی مفتی یا علامہ نہیں پھر بھی اسے وہ ایسا کہتا ہے تو یہ کہنا کہنا بالکل درست نہیں۔ بلکہ گناہ ہے۔ اور اگر کوئی شخص لاعلمی میں یا دوسروں کی دیکھا دیکھی کسی مولوی یا مولانا کو "مفتی" یا "علامہ" کہتا ہے تو وہ معذور ہے لہذا اُسے حقیقت بتادی جائے۔
اب آئیے اسی ضمن میں یہ بات بھی سمجھ لیں کہ آخر مفتی اور علامہ کسے کہتے ہیں تو لغةٙٙ فتوی دینے والے کو مفتی کہتے ہیں اور اصطلاح شرع میں "مفتی" اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کتاب وسنت ، آثار صحابہ ، اصول فقہ ، قواعد فقہ اور فقہی جزئیات کے ذخیرہ پر نظر رکھتے ہوئے پیش آمدہ مسائل کو مذکورہ علوم کی روشنی میں حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اسے مفتی کہتے ہیں
مفتی کا اطلاق مجتہد پر کیا جاتا ہےاور مجتہد کہتے ہیں اس شخص کو جس کے اندر احکام کو ان کے دلائل سے مستنبط کرنے کا ملکہ پیدا ہو چکا ہو۔
اور ہاں ! یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ "مفتی" کے لفظ کا اطلاق بعد کے دور میں ان لوگوں پر بھی کیا جانے لگا جو اپنے مذہب کے بڑے علماء تھے ، یہ استعمال مجازاً یا بطور حقیقت عرفیہ کے ہونے لگا ۔
اور موجودہ دور میں جو کسی ادارہ یا دارالافتا سے درجہ افتا کورس کی تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوتے ہیں اسے "مفتی" کہتے ہیں ۔
البتہ اگر کوئی شخص باضابطہ کسی دارالافتا یا ادارہ سے فارغ مفتی نہیں ہے ؛ لیکن اس نے کسی کہنہ مشق وتجربہ کار مفتی کی خدمت میں رہ کر فتوی نویسی کی مشق کی ہے اور اب وہ باقاعدہ فتوی نویسی کی خدمت میں مشغول ہے تو وہ بھی "مفتی" کہلائے جاسکتے ہیں ، اُسے "مفتی" کہنے میں کچھ حرج نہیں۔
حالاں کہ یہ سب چاہے وہ کسی ادارہ سے فارغ شدہ ہو یا پھر کسی ماہر مفتی کی خدمت میں مشق کنندہ مفتی ہو اکثر و بیشتر در حقیقت مفتی نہیں بلکہ ناقل ہی ہوا کرتے ہیں مگر اسے بھی مفتی ہی کہا جاتا ہے ۔ اور ناقل ہونا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بھی اچھی قابلیت و صلاحیت درکار ہے مقولہ مشہور ہے "نقل را عقل باید"۔
اب رہی بات "علامہ" کی تو اس کا جواب یہ ہے* کہ علامہ کہتے ہیں:
بہت بڑا عالم اور فاضل ، یکتائے زمانہ عالم ، بہت جاننے والا ، بڑا عالم، بہت دانا۔
اور اصطلاح میں "علامہ" اس عالم دین کو کہتے ہیں جو بیک وقت ١٨/ علوم وفنون پر ملکہ رکھتا ہو۔ اور سچ بتاوں عالم ، علامہ ، مفتی کی جو تعریفات اصول شرع میں بیان کی گئی ہیں اس کے حساب سے اگر دیکھا جائے تو عالم کی بعض تعریف کے مطابق دور حاضر میں علامہ کہلائے جانے والے کثیر علمائے کرام بشمول ما وشما علامہ و مفتی تو درکنار عالم کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔
اس لیے کہ شرع میں عالم کی تعریف تو بعض علما نے یہ بھی ہے کہ جس کے اندر دینی امور کی جانکاری ہو اور اس کے اندر خشیت الٰہی کی صفت بھی موجود ہو ۔
جیساکہ تفسیر ابن کثیر میں ہے:
وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ: الْعَالِمُ مَن خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ، وَرَغِبَ فِيمَا رَغِبَ اللَّهُ فِيهِ، وَزَهِدَ فِيمَا سَخط اللَّهُ فِيهِ، ثُمَّ تَلَا الْحَسَنُ: (إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ۔ ( تفسیر ابن کثیر ، سورة فاطر ، آیت: ۲۸)
ترجمہ:حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالم کہتے ہی اسے ہیں جو در پردہ بھی اللہ سے ڈرتا رہے اور اللہ کی رضا اور پسند کو چاہے رغبت کرے اور اس کی ناراضگی کے کاموں سے نفرت رکھے، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں، بے شک اللہ بخشنے والا عزت والا ہے۔
اور علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ تفسیر تبیان القرآن، جلد : نہم ، ص: ٨٤/ میں فرماتے ہیں:
"عالم دین وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم ہو۔ اور اس کو علم ہو کہ کن چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ واجب ہے۔ اسی طرح اس کو انبیاء علیھم السلام اور ان کے مراتب اور ان کی صفات کا علم ہو۔ اور اس کو علم ہو کہ مکلف پر کیا چیزیں فرض ہیں اور کیا چیزیں واجب ہیں۔ اور اس کو سنن و مستحبات اور مباحات کا علم ہو۔ اس کو معلوم ہو کیا چیزیں حرام ہیں اور کیا مکروہ تحریمی اور کیا مکروہ تنزیہی ہیں اور کیا خلاف اولیٰ ہیں۔ اور وہ علم کلام اور عقائد ، علم تفسیر ، علم حدیث اور علم فقہ واصول فقہ پر عبور رکھتا ہو۔ علم صرف ، علم نحو ، علم معانی اور علم بیان کا ماہر ہو اور وہ بقدر ضرورت مفردات لغت کا حافظ ہو اور اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ اس سے دین کے جس مسئلہ کا بھی سوال کیا جائے وہ اس کا جواب دے سکے ، خواہ وہ جواب اس کو مستحضر ہو یا وہ کتب متعلقہ سے از خود تلاش کر سکے۔ اور جو شخص ان صفات کا حامل نہیں ہے، وہ عالم دین کہلانے کا مستحق نہیں ہے کیوں کہ اگر اس کو صرف اور نحو پر عبور نہیں ہے تو وہ احادیث کی عربی عبارت صحیح نہیں پڑھ سکتا اور اگر عبارت غلط پڑھے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس قول کو منسوب کرے گا جو آپ نے نہیں فرمایا۔ اور اگر وہ بہ قدرِ ضرورت مفردات لغت کا حافظ نہیں ہے اور علم معانی اور بیان پر دسترس نہیں رکھتا تو وہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث کا صحیح ترجمہ نہیں کر سکتا۔ اور اگر اس کو علم کلام اور علم تفسیر اور حدیث پر عبور نہیں ہے تو وہ عقائد کو صحیح بیان نہیں کر سکتا اور نہ صحیح عقائد پر دلائل قائم کر سکتا ہے اور نہ باطل فرقوں کا رد کر سکتا ہے۔ اور اگر فقہ پر عبور نہیں ہے تو وہ حلال اور حرام کے احکام کو جان سکتا ہے نہ بیان کر سکتا ہے۔ سو ایسا شخص عالم دین کس طرح ہوگا، اور اس پر عالم دین کا اطلاق کرنا جائز نہیں ہے"-
بتائیے کیا "عالم" کی ان مذکورہ تعریفات کیا ہم لوگوں پر مکمل طور پر صادق آتی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔
مگر ہاں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے "عالم" کی جو تعریف کی ہے وہ تعریف بشمول ما وشما اکثر علمائے اھل سنت پر صادق آتی ہے۔ چناں چہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : "عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر واقف ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضرورریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی مدد کے۔ (احکام شریعت ، ص: ٢٢۴)
استاذ الاساتذہ ، رئیس الفقھا ، فقیہ العصر حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی جامعی صاحب علیہ الرحمة والرضوان کے دوران درس ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ "اے جی ! آج کے دور میں کون مفتی ہے سب ناقل ہیں جی ۔ ہمارے مجتہد فقہائے کرام نے کوئی ایسا مسئلہ چھوڑا ہی نہیں جس پر آج کے دور میں اجتہاد کیا جائے ان فقہائے کرام نے سب کچھ بیان کردیا ہے اب صرف ڈھونڈ کر نقل کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج کل تو سب نقل ہی کرتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اردو فتاوی سے نقل کرتا ہے اور کوئی عربی کتابوں سے نقل کرتا سب ناقل ہیں ۔
اور اسی طرح غالبا ٢٠١٢ یا ٢٠١٣ کی بات ہے کہ مسجد اعلی حضرت اشرفی میاں کے صحن میں ایک مجلس منعقد تھی جس میں مفتی صاحب علیہ الرحمہ ہی کو ایک نقیب صاحب نے "علامہ" "محدث جلیل" فقیہ بے بدل انھیں جیسے کئی خطاب سے متصف کرتے ہوئے انھیں دعوت خطاب دیا تو آپ علیہ الرحمہ کی سادگی دیکھیے کہ مائک پر آتے ہی نقیب صاحب پر برس پڑے اور اسی پر کئی منٹ تک تبصرہ کرتے رہے اور پر جلال انداز میں فرمایا : "کہ آج کل علامہ ، محدث وغیرہ جیسے الفاظ نے لغت کو چھوڑ دیا ہے اور یہ اپنے حقیقی معنوں سے دور ہوچکا ہے ۔ اسی لیے جو جس کو چاہتا ہے علامہ بنادیتا ہے ، کوئی کسی کو محدث بناتا ہے۔ پھر فرمایا کہ علامہ کہتے ہیں کہ : جو ١٨/ علوم و فنون پر مہارت تامہ اور ملکہ رکھتا ہو اس کو علامہ کہتے ہیں ۔ اور پھر مجلس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہنے لگے "بتاو اس میں کون اس لائق ہے جس کو علامہ کہا جا سکے ؛ کون ہے جس پر علامہ کی تعریف صادق آتی ہو"۔اس طرح آپ نے جامع اور مانع وضاحت فرمائی تھی اور اس بارے ہم طلبہ کو بڑی اچھی نصیحت بھی فرمائی تھی مگر جتنا یاد تھا میں نے اتنا لکھا ۔ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے اس بیان پر جامع اشرف کے کئی اساتذہ و طلبہ بھی عینی شاہد ہیں ۔
تو یہ باتیں بھی ہم لوگوں کے ذہن میں رہنی چاہیے ۔ ہم اور کو چاہیے کہ ہم کسی اور پر کچھ سوال کھڑا کرنے سے پہلے خود اپنے بارے بھی سوچیں کہ ہم کس لائق ہیں ۔ حدیث قدسی میں ہے : من عرف نفسہ فقد عرف ربہ" یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا گو اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے ۔ آمین ۔ فقط واللہ تعالیٰ ورسولہ الاعلی اعلم وعلمہ اتم و احکم
کتبہ:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
٢٩/ربیع الاول ١۴۴۵/ ہجری
0 Comments