سوال:
حضرت جیساکہ آپ نے بتایا کہ ناپاکی کی حالت میں جس طرح قرآن پاک کو پڑھنا ، چھونا اور چومنا ہے تو کیا اُسی طرح قرآن پاک کے ترجمے کا حکم ہوگا؟ اردو ، فارسی یا ہندی وغیرہ کسی زبان میں اگر قرآن کا ترجمہ ہو تو کیا ناپاکی حالت میں اس ترجمہ کو بھی پڑھنا ، چھونا اور چومنا منع ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب
محترم ابوالعلائی صاحب !
لگتا ہے کہ آپ سوال کرنے کے بعد جب اس کا جواب ملتا ہے اس جواب کو آپ غور سے پڑھتے ہی نہیں ہے۔ میرے یار ! جب بھی کوئی آپ کو آپ کے کسی سوال کا جواب لکھ کر بھیجتا ہے تو کم سے کم ایک بار اسے پڑھ لیا کریں ۔
کاش ! آپ نے اگر ایسا کیا ہوتا تو پھر آج آپ کو یہ سوال کرنے کی نوبت ہی نہ آتی ۔
ابوالعلائی صاحب ! جب ہم نے آپ کے پانچویں سوال کے جواب میں درمختار اور نھرالفائق کے حوالے سے صاف صاف یہ لکھ دیا ہے۔ کہ"۔حیض و نفاس کی حالت میں قصدا قرآن کی قرات کرنا حرام ہے یوں ہی اسے چھونا بھی حرام ہے اصح قول کے مطابق خواہ وہ قرآن (عربی کے علاوہ) فارسی زبان میں ہی کیوں نہ لکھا گیا ہو۔
مگر افسوس ! ایسا نہیں ہوا تو پھر سنیے جناب کہ جس طرح ناپاکی (حیض و نفاس وغیرہ) کی حالت میں قرآن پاک کو پڑھنا ، چھونا اور چومنا منع اور گناہ ہے اسی طرح اس کا ترجمہ چاہے وہ کسی بھی زبان میں کیا گیا ہو ، اس ترجمہ کو بھی پڑھنا ، چھونا اور چومنا منع و ناجائز اور گناہ ہے۔
البتہ ناپاکی کی حالت میں بغیر پڑھے صرف دل ہی دل میں اس کے ترجمے کو دہرایا جائے اور اس پر نظر پھیرائی جائے تو پھر اس انداز سے قرآن کا ترجمہ یاد کرنا شرعاً ممنوع نہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہوگا کہ قرآن پاک یا اس کے ترجمہ کو بلاحائل چھونے والی صورت نہ پائی جائے۔
چناں چہ تنویر الابصار مع الدر المختار ، جلد اول ، کتاب الطھارة ، ص: ۵٣۵/ میں ہے:
”(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوبا بالفارسية في الاصح“ یعنی حیض و نفاس کی حالت میں قصداً قرآن کی قراءت کرنا حرام ہے یوں ہی اسے چھونا بھی حرام ہے ، اصح قول کے مطابق خواہ وہ قرآن عربی کے علاوہ دوسری کسی زبان ہی میں کیوں نہ لکھا گیا ہو ۔
اور نہرالفائق ، جلد اول ، کتاب الطھارة ، ص: ١٣۵/میں ہے:
”ويمنع أيضا حل مسه أي القران ولو مكتوبا بالفارسية إجماعا هو الصحيح“ یعنی حیض و نفاس کی حالت میں اسی طرح قرآن کو چھونے سے بھی منع کیا جائے گا اگرچہ وہ قرآن عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں لکھا گیا ہو، یہ اجماعی مسئلہ ہے اور یہی صحیح ہے۔
فتاوٰی رضویہ جلد اول ، ص:١٠٧۴/ میں ہے:
’’ترجمہ کا چھونا خود ہی ممنوع ہے اگرچہ قرآن مجید سے جدا لکھا ہو۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
کتبہ؛
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
۵/ ربیع الثانی ١۴۴۵/ ہجری
٢١/اکتوبر٢٠٢٣۔ بروز سنیچر۔
0 Comments