اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے زیادہ اسلامی تجارت کا فروغ ضروری

پچھلے 60 یا 70 سال سے جب بھی فلسطینی عوام بالخصوص وہاں کے معصوم اور بے گناہ ضعیف العمر حضرات، خواتین اور بچے اسرائیلی ظلم و بربریت کا شکار ہوتے ہیں تو امت مسلمہ کی طرف سے ٹھوس لائحہ عمل طے کرکے اس دیرینہ حل طلب مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنے کے بجائے مسلمان رسماً غم و غصہ کا اظہار کرنے ، احتجاجی جلوس نکالنے، کردار میں تبدیلی لائے بغیر دعائوں اور قنوط نازلہ کا اہتمام کرنے اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کرنے پر اکتفا کرتے آرہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ فلسطین سالہاسال سے لیت و لعل کا شکار بنا ہوا اور آج تک اس کا کوئی ٹھوس حل تلاش نہ کیا جاسکا۔ بالخصوص اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کی جوبات اکثر کہی جاتی ہے اس پر ہم ذرا غور کریں کہ اگر بالفرض محال مسلمان اس بات کو مان بھی لیں تو اس سے اسرائیلی مصنوعات کی تجارت پر کیا اثر پڑے گا؟ چونکہ دنیا میں مسلمان کی آبادی صرف 25 فیصد ہے۔ ان میں 50 فیصد آبادی مسلمانوں کی ایسی ہے جو غربت کا شکار ہے گویا دنیا کی کل آبادی کا 12 یا 13 فیصد مسلمان ہی ایسا ہے جس کی زندگی کی اکثر ضروریات کی تکمیل کے لیے اسرائیلی مصنوعات کا استعمال کرتا ہے اس طرح ہم دنیا کی 12 یا 13 فیصد آبادی سے ہم مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اگر بالفرض محال تمام مسلمانوں نے بائیکاٹ کربھی دیا (جو ناممکن ہے) تب بھی دنیا میں غیر مسلموں کی 85 آبادی ایسی جو اسرائیلی مصنوعات خریدیں گی اور استعمال کریں گی تو ہمارے بائیکاٹ کرنے سے اس اسرائیلی کے کاروبار اور اس کے آمدنی پر کوئی خاصہ اثر نہیں پڑے گا۔جب ہم اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کا اسرائیل جس قدر ذمہ دار ہے اسی طرح وہ ممالک بھی اتنے ہی قصوروار ہیں جو خود مختار ریاست فلسطین کے مقابل میں دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مثلاً امریکہ نے اسرائیل کی تائید و حفاظت کے لیے جنگی مددکا نہ اعلان کیا بلکہ اسلحہ بھی فراہم کردیا۔ ہمیں ان 57 مسلم ممالک کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہیے جو مسئلہ فلسطین پر کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کے بجائے محض ہنگامی اجلاس منعقد کرنے، اسرائیل اور اس کے ہمنوا ممالک کے جنگی جرائم کی مذمت کرنے اور دنیا کے دوہرے معیار پر تنقید کرنے پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ساتھ اس کے ہمنوا ممالک کے مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ اگر ہم واقعی ان ممالک سے اظہار بیزاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا بلکہ ان ممالک میں روزگار تلاش کرنے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ کیا ایسا کرنا ہمارے لیے ممکن ہے؟اگر ممکن نہیں ہے تو ہمیں ایسے جذباتی نعروں سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے کوئی ٹھوس، دیرپا اور قابل قبول حل نہ نکالتا ہو۔ کس قدر معیوب بات ہے کہ مسلمانوں نے مساجد کو بھی اپنے مکتب فکر کے مطابق بانٹ لیا ہے اور بعض تو اس قدر شدت پسند واقع ہوئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دیگر مکتب فکر کا بورڈ جس مسجد پر آویزاں ہوتو اس مسجد میں نماز پڑھنے سے ان کی نماز ادا ہی نہیں ہوگی حالانکہ تمام مسجد تو اللہ کا گھر ہیں اگر اللہ کے گھر میں نماز نہیں ہوگی تو پھر کہاں ہوگی؟ طرفہ تماشہ یہ کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس مسجد پر دیگر مکتب فکر کا بورڈ لگا ہوا ہو تو اس مسجد میں نماز کی ادائیگی درست نہیں لیکن فلسطین اور قبلہ اول پرمظالم ڈھانے والے ملکوں میں کاروبار کرنے ، ملازمت کرنے اور ان سے حاصل ہونے والی ان کی آمدنی جائز ہے! یہ ہماری فکری زوال کی انتہا نہیں تو پھر کیا ہے؟علاوہ ازیں ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کسی ملک کی تجارت کے کامیاب و ناکام ہونے کا مدار انسان کی پسند یا ناپسند پر نہیں ہے بلکہ اس کا راست تعلق اللہ تعالی کی عطا، اوراس کی گوناگوں مصلحتوں اورحکمتوں سے ہے۔ اگر آج اسرائیلی مصنوعات دنیا بھر میں استعمال ہورہی ہیں تو اس میں بھی اللہ تعالی کی قدرت و حکمت کاملہ کارفرما ہے کہ اللہ تعالی اس قوم کو کاروباری صلاحیتوں سے مالامال فرمایا ہے ۔ اسرائیل نے ساری دنیا میں کاروبار کے حوالہ سے اپنا دبدبہ قائم کرلیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے ان سرفرازیوں کے ساتھ دائمی ذلت و مسکنت کو اس قوم کا مقدر بنادیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسرائیل موجودہ اقتدار و تسلط کے باوجود بھی دنیا میں ذلیل و رسوا ہے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ یہ قوم ڈھائی ہزار برس سے لا یموت فیھا ولا یحییٰ کے مصداق اس دنیا میں زندگی گزار رہی ہے چونکہ اس قوم نے انبیاء کرام کو کثرت سے قتل کیا ہے اور ان کی نافرمانی کی ہے اسی لیے اللہ تعالی اس قوم کو ختم نہیں فرمایا بلکہ دنیا میں اسے عبرت کا نشان بناکر رکھا ہے تاکہ ہم اس قوم کے کالے کرتوت سے عبرت حاصل کرسکیں۔ موجودہ دور میں بھی اسرائیلی جارحیت اور اس کے جنگی جرائم کی نہ صرف مسلمان مذمت کررہے ہیں بلکہ پوری دنیا میں سلیم فطرت کے حامل بے شمارغیرمسلم حضرات بھی اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ غلامانِ مصطفی ہوکر اگر ہم تجارت میں ناکام ہورہے ہیں تو اس کی اہم وجہ اسوہ حسنہ اور تعلیمات مصطفویؐ سے دوری ہے جس کی سزا کے طور پر آج ہم دشمن ممالک کے اشیا خریدنے پر مجبور ہیں۔ اگر ہمیں واقعی اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کے مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ اس کے ساتھ ہم اسلامی نہج پر تجارت کو فروغ دینا شروع کردیں۔ جب اسرائیل تن تنہا اپنی مصنوعات کو دنیا بھر میں وسعت دے سکتا ہے تو دنیا کے 57 مسلم ممالک اپنی مصنوعات کا کاروبار دنیا بھر کیوں نہیں کرسکتے؟۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بعض اسرائیلی مصنوعات میں مضرصحت اشیاء کا استعمال ہوتا ہے اس کے باوجود لوگ وہ اشیاء استعمال کرنے پر مجبور ہیں چونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اگر مسلمان اسلامی نہج پر تجار ت کریں اور انتہائی صاف و شفاف ، صحت بخش، کفایتی اور معیاری اشیاء متعارف کروائیں تو یقینا لوگ ان اشیاء کی خریداری کریں گے نہ کہ ان اشیاء کی جو ان کی صحت کو متاثر کرنے والے ہوں۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اسراف والی تقاریب سے اجتناب کریں گے جن میں یومیہ کروڑہا روپیہ فضول میں ضائع ہورہا ہے۔ اگرہم ان پیسوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے تجارت میںمشغول کریں گے تب ہم اسلامی تجارت کو فروغ دینے میں آسانی سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔اسرائیل کی مصنوعات یقینا دنیا بھر میں استعمال ہوتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے ، دنیا کی شاید ہی کوئی سپر مارکٹ ایسی ہے جہاں اسرائیلی اشیا موجود نہ ہوں لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسرائیلی صنعتوں کا مدار سود (Interest)پر ہے جس کے باعث نہ صرف مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس سے مہنگائی (Inflation) میں بھی مسلسل اچھال آتا رہتا ہے ، جس کے باعث یہ اشیا عام انسان کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہے پھر نتیجتاً غربت اور بے روزگاری کا انسانی معاشرے میں رائج ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ پوری دنیا امیر اور غریب کے غیر انسانی تقسیم میں بٹ جاتی ہے ۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم میں اضافہ ہوتا تو پھر ظلم و ستم کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اگر فلسطینی ملک اور عوام معاشی طور پر مستحکم ہوتے تو اسرائیل اور اس کے ہم خیال ممالک کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ سکیں۔ اگر آج بھی مسلم قوم اور ممالک سود سے پاک تجارت کو فروغ دینے کی حتی الوسع کوشش شروع کرنا شروع کردیںگے تو مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے ، بیروزگاری کو دور کیا جاسکتا ہے، غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت بلاتفریق مذہب و ملت ہر ملک کے اہم اور سنگین مسائل ہیں اگر مسلمان سودی کاروبار کو دفن کرکے (جس کی کوکھ سے یہ تمام مسائل جنم لیتے ہیں) اسلامی نہج یعنی حلال و جائز، نرمی وسہولت  ، عدل و انصاف ، امانت و دیانت پر مبنی اور دھوکہ دہی و جھوٹی قسموں، مکاسب محرمہ ،حرص و لالچ سے پاک تجارت کو فروغ دے کر ان مسائل کا حل دنیا کے سامنے عملی طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی ملک یا قوم اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرے۔ خلیفہ ثالث حضرت سیدنا عثمان غنیؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کا شمار اپنے دور کے کامیاب تاجروں میں ہوتا ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ کا اہل دولت و ثروت میں جو اعلی مقام تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود نبی رحمتؐ نے آپ کو غنی کے لقب سے ملقب فرمایا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ حضرات عثمان غنیؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ کے کاروباری تعلقات صرف مسلمانوں سے تھے بلکہ وہ لوگ بھی ان حضرات سے تجارتی تعلقات قائم رکھنے میں پیش پیش رہتے تھے جو اسلام کے بدترین دشمن تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان حضرات حضرات کی تجارت اسلامی نہج پر ہوتی تھی جس سے ہر کسی کو فائدہ ہوتا تھا۔ اسلامی کے ادوار میں بہت مشکل سے کوئی زکوٰۃ کا مستحق ملتا تھا مجبوراً لوگ اپنی صدقات و عطیات بیت المال میں جمع کروایا دیا کرتے تھے۔ بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ جنہیں عمر ثانی اور خلیفہ خامس بھی کہا جاتا ہے یعنی حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ کا دور حکمراں تقریباً ڈھائی سال کا تھا اس دور میں غربت تو کجا خط غربت سے نیچے (Below Poverty Line) زندگی گزارنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ یہ ہے اسلامی تجارت و حکمرانی کے برکات اور فوائد۔ آج پوری دنیا کو اس کی اشد ضرورت ہے اسی لیے ضروری ہے کہ مسلمان تجارت میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے آگے آئیں۔ پھر دیکھیں نہ مسلمانوں کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کروانے کے لیے کسی کے آگے منت و سماجت کرنی پڑے گیبلکہ ہم خود معاشی طور پر اس قدر خود مکتفی ہوجائیں گے ہر کوئی ہماری عظمتوں کا قائل ہوجائے گا۔ میدان عمل میں اتر کر جد و جہد کرنے کے بجائے زبانی طور پر کسی ملک کی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کرنا ’’دل کو بہلانے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوگا۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

از:۔ ڈاکٹرابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

فلسطین اور قبلہ اول کا مذھبی اور تاریخی پس منظر

Post a Comment

0 Comments