فلسطین اور قبلۂ اول کا مذہبی و تاریخی پس منظر

ایک انتہائی بدبختانہ فیصلہ کرتے ہوئے امریکہ کے سابق صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا بلکہ اس فیصلہ پر موثر عمل آوری کے لیے امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کے احکامات بھی جاری کردییتھے جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک مسلم و دیگر سیکولر ممالک اور حقوق انسانی کیے لیے کام کرنے کرنے والی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اگر کسی جانور کو شکار کرنے کا مختصر ترین سین بھی فلمایا جاتا ہے تو مختلف تنظمیں حرکت میں آجاتی ہیں اور مقدمات درج ہوجاتے ہیں لیکن فلسطین کے رہائشی علاقوں پر بمباری کی جاتی ہے، راکٹوں سے حملے کیے جاتے ہیں جس میں ضعیف مرد و خواتین اور معصوم بچے تشدد کا شکار بنا جاتے ہیں، اور کئی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں پھر بھی پوری دنیا تماش بین بنی ہوئی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو غزہ میں ہوئے حالیہ حملوں کی ذمہ داری بشمول اسرائیل ان تمام پر عائد ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کے سنگین مسائل پر دنیا کی مجرمانہ خاموشی اس لیے ہے چونکہ ایک طرف اقرا کی مخاطب قوم کی اکثریت زیورِ علم سے محروم ہے تو دوسری طرف مہاجر ین و انصارمیں اخوت کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے والے آج خود داخلی اختلافات و خلفشار کا بری طرح شکار ہیں۔ یروشلم مسئلہ فلسطین کا ایک اہم اور مرکزی موضوع ہے لہٰذا اس بدبختانہ فیصلہ سے ہر مسلمان کا مغموم ہونا ایک فطری بات تھی۔ واضح باد کہ امریکہ، یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔ اگر امت مسلمہ خواب غفلت میں سوئی ہوئی نہ ہوتی اور مسلم حکمران ذاتی مفادات کے اسیر نہ ہوتے تو یروشلم کواسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے کی جرأت کسی ملک میں نہ ہوتی۔اگر بنظر غائر امت مسلمہ کے علمی، عملی، ایمانی، اخلاقی، روحانی، معاشی اور سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ملکی سطح سے لیکر عالمی سطح تک امت مرحومہ ہر محاذ پر بے شمار مصائب و مشاکل کا شکار ہے جس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ مسلمان اسلام کے پیغامِ اخوت و بھائی چارگی، اتحاد و اتفاق اور امت واحدہ کے تصور کی اہمیت کو بالائے طاق رکھ کر محض نفسانی خواہشات و شہوات اور ملکی و ذاتی مصالح و مفادات کی بناء پر اختلافات کا شکار ہیں اور کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی نوجوان نسل کی اکثریت ایک طرف مذہب بیزار نظر آرہی ہے تو دوسری جانب ان کی دینی معلومات نہ کے برابر ہیں۔ علم اور عمل سے محروم قوم دشمنان اسلام کے اعتراضات اور اقدامات کا موثر جواب کیسے دے سکتی ہے؟ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ علم و عمل سے محروم قوم کو دنیا نے ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار بنایا ہے۔ اگر ہم واقعی مسئلہ فلسطین اور قلبہ اول کو لیکر سنجیدہ ہیں تو ہمیں محض غم و غصہ کا اظہار کرنے اور جذبات سے مغلوب ہوکر موقتی احتجاج کرنے کے بجائے مستقل مزاجی کے ساتھ علم و عمل کے میدان میں آگے آنا پڑے گا۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں سرپرست اور والدین کی اولین ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے نونہالوں کی اسلامی نہج پر تربیت کو ترجیح دیں چونکہ اغیار اور دشمن اسلام کو صرف احتجاجی جلوس اور ریالیوں کے ذریعہ مسکت جواب نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے لیے اسلامی معلومات اور عظیم کردار کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جنگیں تعداد کی بنیاد پر نہیں جیتی جاتیں اگر ایسا ہوتا تو جنگ بدر میں مسلمان شاندار کامیابی سے ہمکنار نہ ہوتے جبکہ ان کی تعداد دشمن اسلام کے لشکر جرار کے مقابل صرف 313 تھی۔ دشمن کو زیر کرنے اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اسباب و وسائل حرب، تعداد اور کانفرنسوں میں تجاویز و مذمتی قراردادیں منظور کرنے، جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے سے کہیں زیادہ جذبہ اخلاص، حمیت دینی اور دانشمندانہ حکمت عملی کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس کا حصول اسلامی تعلیمات کو سمجھے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہوے بغیر ممکن نہیں۔ امت مسلمہ میں علم و عمل کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے اسرائیل کے اطراف و اکناف متعدد مسلم ممالک ہونے اور ملت اسلامیہ کے پاس زبردست اسبا ب و وسائل ہونے کے باوجود امت مسلمہ پچھلے 51 سالوں سے ظالم و غاصب اسرائیل سے بیت المقدس واپس لینے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ تاریخ اسلام شاہد ہے جس نے بھی پیغام اسلام کو اپنے لیے حرز جان بنالیا وہ قیصر و کسریٰ جیسی دنیا کی سوپر پائور کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے بن گئے اور ان کے سامنے عظیم ممالک و اقوام سرنگوں ہوگئیں نہ رومی لشکر ان سے مقابلہ کرنے کی حماقت کی اور نہ ہی عیسائی سورما پیوندزدہ لباس اور کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ استعمال کرنے والے مسلمانوں کے کامیابی سے بڑھتے قدم کو روک پائے۔ اس کے برعکس جس نے بھی پیغام اسلام اور مومنانہ کردار سے بے اعتنائی برتی اس کے پاس دنیوی اسباب و ذرائع ہونے کے باوجود اسے دنیا سے حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے۔ لہٰذا غزہ کے معصوم فلسطینیوں کی شہادت پر غم و غصہ کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نوجوان نسل کو قبلہ اول کی شان و عظمت کے بارے میں بتائیں تاکہ قبلہ اول کا نام سنتے ہی ان کے قلب میں خوشی و انبساط کا چراغ جل اٹھے اور ان کی زبان بے ساختہ عشق و محبت کے ترانے گنگنانے لگے۔ کیوں کہ یہ بیت المقدس اس پاکیزہ سرزمین پر واقع ہے جس کی برکت، طہارت اور قدسیت کا ذکر قرآن و حدیث میں ملتا ہے جس کا عمیق مطالعہ کرنے اور سمجھنے کے بعد اس سرزمین سے محبت و عقیدت فطری طور پر ہمارے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ سرزمین اسراء و معراج یعنی فلسطین کا شمار زمانے قدیم سے برکت والے علاقوں میں ہوتا ہے جس کا ذکر خود خالق کونین نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر کیا ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ سورۃ الاعراف آیت نمبر 137 اور سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 81 کی عبارت ’’جس میں ہم نے برکت دی ہے‘‘ کا مصداق بیت المقدس ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے ترجمہ:’’بابرکت بنادیا ہم نے جس کے گرد و نواح کو تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں‘‘ (سورۃ الاسرا آیت نمبر 1) مفسرین کرام مسجد اقصی کے ارد گرد موجود برکتوں میں سے بعض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہی وہ مقدس سرزمین ہے جہاں پر بے شمار انبیاء علیھم الصلاۃ و السلام مبعوث اور مدفون ہوئے۔علاوہ ازیں کئی سعادت مند نفوس یعنی جلیل القدر صحابہ کرام بشمول فاتح شام حضرت ابو عبیدۃ بن الجراح ؓ بھی فلسطین ہی میں مدفون ہیں۔ مسجد اقصی تمام انبیاء سابقین کی عبادت گاہ اور ان کا قبلہ رہا ہے، اس علاقے میں دریا اور درخت بکثرت پائے جاتے ہیں، اس علاقہ کا شمار ان چار مقامات میں ہوتا ہے جہاں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔ واقعہ اسراء میں مسجد اقصی کو حضوراکرمﷺ کی پہلی منزل بنائے جانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے علماء کرام فرماتے ہیں اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ پچھلے انبیاء اور حبیب داورﷺ کی نبوت ایک زنجیر مسلسل کی طرح ہے جس کی تمام کڑیاں ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل کے نافرمانی و سرکشی میں غرق ہوجانے کی وجہ سے اب وقت آگیا ہے کہ سابقہ انبیاء کے مقدسات کی امانت و وراثت امت مسلمہ کے سپرد کردی جائے۔ چونکہ رب کائنات نے ان مقدسات کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں کے حوالے کی ہے اس لیے ہر مسلمان کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ایسے فکر مند رہے جیسے وہ اپنے گھریلو مسائل کے حل کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ جب مسلم بچے فلسطین کی تاریخ اور وہاں پر مدفون انبیائ، صحابہ، صلحاء کے بلند کردار سے واقف ہوں گے تو ان کے اندر قبلہ اول کی حفاظت و صیانت کے لیے تڑپ پیدا ہوگی۔  حضرت ضحاکؒ اور قتادہؒ فرماتے ہیں کہ سورۃ المومنون آیت نمبر 50 میں مذکور عبارت ’’ہم نے دونوں (یعنی حضرات عیسیؑ اور مریمؑ) کو بسایا ایک بلند مقام پر جو (غلہ اور میوہ جات ہونے کی وجہ سے) رہائش کے قابل تھا اور جہاں چشمے جاری تھے ‘‘ سے مراد بیت المقدس ہے۔ علاوہ ازیں مفسرین کے قول کے مطابق سورۃ مریم کی آیت نمبر 52، سورۃ طہ کی آیت نمبر 80 اور سورۃ القصص کی آیت نمبر 30 میں مذکور لفظ ’’الأیمن‘‘سے مراد بھی ارض فلسطین ہے اور جس وادی کو قرآن مبین نے وادی مقدس کہا وہ بھی اسی سرزمین پر واقع ہے۔ آقائے نعمت ﷺفرماتے ہیں فلسطین زمین کا وہ حصہ ہے جس پر اللہ کے فرشتے اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں (ترمذی)۔ اسی فلسطین کے شہر المقدس کی گود میں مسلمانوں کا قبلہ اول یعنی مسجد اقصی واقع ہے۔ رحمت عالمﷺ نے فرمایا جو مسجد اقصیٰ میں حاضر ہونے کی استطاعت نہ رکھے تو اسے چاہئے کہ وہاں زیتون کا تیل بھیج دے جس سے وہاں چراغ جلایا جائے اس مسجد میں چراغ جلانے کا اجر بھی وہاں نماز پڑھنے کے برابر ہے (مسند احمد)۔ مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ تاریخی حقائق کے اعتبار سے بھی فلسطین اور بیت المقدس پر مسلمانوں کا دعویٰ زیادہ قوی اور مضبوط ہے چونکہ 636ء میں حضرت خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی فوجوں نے اس کو فتح کیا تھا جس کے بعد سے بیت المقدس کی تولیت مسلسل مسلمانوں کے پاس ہی رہی۔تاریخ اسلام شاہد ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم ؑ کے دور میمونت میں تعمیر کعبہ کی تکمیل کے بعد حضرت سیدنا حضرت سیدنا یعقوب نے مسجد اقصی تعمیر کروائی جس کی تجدید حضرت سیدنا سلیمانؑ نے فرمائی اور ہیکل کی عمارت اٹھائی۔636ء میں فاروق اعظمؓکے دور خلافت میں مسلمانوں نے شہر قدس کو فتح کیا ۔1099ء میں مسلمانوں کے داخلی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائیوں نے اس شہر مقدس پر دوبارہ اپنا قبضہ جمالیا جو 88 سال تک جاری رہا پھر 1187ء میں خاندان کرد کے مرد مومن سلطان صلاح الدین ایوبیؒ (1193-1137) نے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی بنیاد پر ارض مقدس کو ظالموں کے خونی پنجوں سے آزاد کرالیا جو تقریباً حکومتِ عثمانیہ کے اختتام تک مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے فلسطین بھی لبنان اور اردن کی طرح سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد شکست خوردہ سلطنت عثمانیہ کے مقبوضات کو برطانیہ، روس اور فرانس جیسی فاتح استعماری طاقتوں نے باہم تقسیم کرلیا۔ اس وقت فلسطین برطانیہ کے حصہ میں آیا جس نے خفیہ طور پر یہودیوں سے کیے ہوئے معاہدے (جس کو بالفورمنشور Declaration Balfourکہا جاتا ہے) کے تحت امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کو ہزاروں میل دور سے لاکر عربوں کی سرز مین فلسطین میں آباد کرنے کا گھنائونا کام کیا جس کے لیے برطانیہ کو مغربی ممالک اور روس کی بھرپور تائید و نصرت حاصل رہی۔ صلیبیوں اور صہیونیوں کے اتحاد اور مشترکہ سازش اور شاطرانہ اسکیم کا نتیجہ تھا کہ 1948ء میں ارض مقدس پر اسرائیل کے نام سے ایک یہودی مملکت قائم ہوگئی جو دنیا کی تاریخ کا ایک انتہائی مکروہ اور افسوسناک باب ہے اور 1967ء میں ان بدباطنوں نے قبلہ اول یعنی مسجد اقصی کو بھی جبراً اپنے غاصبانہ قبضہ میں لے لیا جو ترکی میں خلافت اسلامیہ کے خاتمہ کے بعد دنیائے اسلام کا دوسرا عظیم ترین المیہ تھا۔ تب سے یہ مسئلہ ملت اسلامیہ کے دلوں کا زخم اور ہلال و صلیب کا رزم گاہ بنا ہوا ہے۔بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک ایمانی اور روحانی اعتبار سے متحد و ہم آہنگ ہو جائیں ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے.

قرآن حکیم نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ جو بھی پیغمبر بت شکن حضرت سیدنا ابراہیم ؑ کے اسوہ حسنہ اور ابراہیمی آئین سے اعراض کرے گا اسے انسانیت کی امامت، قیادت و سیادت کا حق نہیں دیا جائے گا۔ لہٰذا جب تک بنی اسرائیل اپنے دین میں تغیر و تبدل نہ کیا تھا رب نے ان پر بے شمار انعامات کی بارش کی لیکن جب انہوں نے اپنے رب سے کیے ہوئے عہد کو توڑا اور احکامات الہیہ میں تحریف کرکے گمراہی کے دلدل میں دھنس گئے تو اس عدم ایفائے عہد کے باعث ذلت و مسکن ان کا مقدر بن گیا۔ ایسے حال اور ماحول میں رب کائنات نے اپنے حبیبﷺ کو نبی القبلتین بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا اور آپﷺ کے نعلین پاک کے صدقہ میں امت مسلمہ کو کعبۃ اللہ شریف اور بیت المقدس کاامین و وارث بنادیا۔ لیکن جب یہی خیر امت نفسا نفسی، خودغرضی داخلی خلفشار اور فروعی اختلافات کے باعث بکھر گئی اور خانوں میں بٹ گئی تو اس کا راست فائدہ یہود و نصاری کو ہوا اس طرح یہ اقوام بیت المقدس پر دوبارہ قابض ہوگئے۔عالم اسلام کے تمام مسلمان اس سے درس عبرت حاصل کریں اور فوراً تائب ہوکر رجوع الی اللہ ہوجائیں اوربیت المقدس کی بازیابی کے لیے متحد و منظم ہوکرجد و جہد کریں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

از :۔ ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

Post a Comment

0 Comments