کیا مسجد کی دیوار پر بامبو لگاکر دکان لگانا جائز ہے

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ سے متعلق کہ ہمارے یہاں ایک مسجد ہے جس کی دیوار میں بامبو لگاکر کچھ لوگ اپنی دکان لگاتے ہیں ، جب ٹرسٹی حضرات سے کہا جاتا ہے کہ انھیں منع کریں ، مسجد کی دیوار میں بامبو نہ لگانے دیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ لگانے دو اس میں مسجد کا کیا نقصان ہورہا ہے؟۔ تواب دریافت طلب امریہ ہے کہ کیا کسی مسجد کی دیوار میں اپنی دکان کا بامبو لگانا جائزہے؟ اگرنہیں تو جو لوگ لگاتے ہیں اس پرکیا حکم ہوگا؟اورٹرسٹی حضرات جو انھیں نہیں روکتے ان پر کیا حکم شرعی عائد ہوگا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔


الجواب بعون الملک الوھاب

مسجد کی دیوار بھی چوں کہ مسجد ہی کا ایک جزء (حصہ) ہے اور مسجد بجمیع اجزائہ اللہ تعالی کی ہوتی ہے ۔

جیساکہ اللہ تعالی کافرمان ہے :"ان المسٰجد للہ” (الجن : ١۸)

لہذا کسی مسلمان کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں کہ کسی مسجد کی دیوار پر اپنی دکان کا بامبو لگائے۔

بامبو چاہے پیسے دے کر لگائے  یا بغیر پیسہ کے لگائے بہر صورت مسجد کی دیوار میں اپنی دکان کا بامبو لگانا اور اس کی دیوار کو اپنے استعمال لانا ناجائز وگناہ ہے. پس جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اس فعل سے باز آجائیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ کریں ۔ اسی طرح ٹرسٹی حضرات بھی اپنے اس گناہ سے توبہ کریں اس لیے کہ قرآن شریف میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے "ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان"۔ یعنی کسی گناہ اور سرکشی کے کام میں مدد نہ۔کرو ۔ ٹرسٹیوں ان بامبو لگانے والوں کو منع نہ کرنا گویا گناہ پر مدد کرنا ہے ۔ لہذا ٹرسٹی حضرات بھی اس فعل سے توبہ صادقہ کریں اور مسجد کی دیوار میں بامبو لگانے سے لوگوں کو سختی سے روکیں کہ یہ ان پر لازم ہے۔

البحرالرائق جلد خامس ، ص: ٤٢١ (دارالكتب العلمية) ، فتاوي قاضی خان جلد ثالث : ص: ١٦٨ (دارالكتب العلمية) ، الدرالمختار مع ردالمحتار جلد سادس ، ص: ٥٤٨(دارالکتب العلمیہ) ان تینوں کتاب میں ہے:

"واللفظ من البحر- "لایجوز للقیم ان یجعل شیئا من المسجد مستغلا ولا مسکنا”اھ.

یعنی متولی کو جائز نہیں کہ مسجد کے کسی حصہ کو نفع کمانے یابسنے کی جگہ بنائے ۔

اور ردالمحتار علی الدرالمختار جلد : ٦ ص: ٥٤۸ میں ہے: "والمراد من المستغل ان یوجر منہ شیئ لاجل عمارتہ”اھ.

یعنی مستغل سے مراد یہ ہے کہ مسجد کا کوئی حصہ کرایہ پر دیاجائے کہ اس پر خرچ کیا جائے ۔

اسی میں ہے:

"قلت: و به حكم ما يصنعه بعض جيران المسجد من وضع جذوع على جداره فإنه لايحل و لو دفع الأجرة."(کتاب الوقف ، جلد :۴ ، ص: ۴۵٨)

فتاوی رضویہ میں حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”دیوار مسجد میں جو سوراخ کیا ہے وہ سوراخ اس کے ایمان میں ہوگیا۔ اس پرفرض قطعی ہےکہ اس ناپاک کڑی کو ابھی ابھی فورا نکال لے"۔ 

(فتاوی رضویہ ، جلد ١٦ ، ص: ٣٠٨ ، رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

فتاوی مفتی اعظم جلد : ٣ ص: ١٥۸ میں ہے:

"بعد تمام مسجدیت دیوار مسجد کو کسي کام میں نہیں لاسکتے اگرچہ مسجد کے مصالح کےلئے جو اوقاف میں ہوں ان میں”اھ.

اور ص: ١٥٥/ پر ہے:

"مسجد کی دیوار کو اپنےاستعمال میں لانا حرام ہے”اھ ۔

لہذا ان ساری عبارات مذکورہ بالا سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ مسجد کی دیوار پر بامبو لگانا یا اسے کسی بھی ذاتی مقصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا جو لوگ مسجد کی دیوار میں بامبو لگاتے ہیں یا لگوانے میں کسی طرح کا تعاون و حمایت کرتے ہیں وہ اس فعل سے لازما اجتناب کریں اور رب کی بارگاہ میں صدق دلی سے توبہ کریں ۔

فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه:

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات۔

٢۴/ جمادی الاولی ١۴۴۵ ہجری  ٩/ دسمبر ٢٠٢٣ عیسوی بشب شنبہ ۔

Post a Comment

0 Comments