سگی بھانجی سے نکاح کرنا کیسا ہے

سگی بھانجی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟

اس نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد کے نسب اور ایسے شخص کی اذان واقامت اور اس کے یہاں کھانے کا کیا حکم ہے؟


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان کرام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں  زید کی سگی بہن ہندہ کی بیٹی خالدہ ہے زید نے اپنی سگی بھانجی خالدہ سے شادی کیا ہے زید کا اپنی سگی بھانجی سے شادی کرنا کیا صحیح ہے؟ زید کا اپنی سگی بھانجی سے نکاح کرنا جائز ہے یا ناجائز اب اس کی بھانجی اس کی نکاح میں ہے یا نہیں ہے؟ اس سے دو بچے بھی ہوئے ہیں شریعت زید کے اوپر اور اس کے بچے کے اوپر کیا حکم لگاتی ہے؟

2 ۔ زید مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے اور مسجد کی صاف صفائی بھی کرتا ہے اور مسجد میں کبھی کبھی وہ اذان واقامت بھی دیتا ہے کیا اس کی آذان و اقامت درست ہے؟ اس کی اذان و اقامت سے نماز ہو جائے گی یا پھر نماز کو لوٹانا پڑے گا؟

 3 ۔ مسجد کے نمازی لوگ کہتے ہیں کہ اس کو اذان و اقامت دینا جائز نہیں ہے کیوں کہ وہ اپنی سگی بھانجی جو غیر محرم ہے اس سے وہ شادی کیا ہے جو حرام ہے اس لیے اس کی اذان و اقامت دینا جائز نہیں 

4 ۔ اب زید کے گھر جانا آنا ان کے گھر کھانا پینا ان سے رشتہ رکھنا ملنا جلنا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اس کے گھر میں رشتہ وغیرہ وغیرہ کرنا درست ہے یا پھر ان سے قطع تعلق رکھنا ہے؟ 

اور بچے کے نسب کے متعلق ارشاد فرمائیے کہ دونوں بچوں کا نسب خالدہ کی طرف ہوگا یا زید کی طرف ہوگا؟

مفتیان کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔  

*سائل: محمد نصیر الدین رضوی* 

 گلبرگہ شریف ، کرناٹک17 دسمبر 2024ء ، 14 جمادی الثانی 1446ھ بروز منگل


الجواب بعون الملک الوھاب

سوال میں زید کا اپنی سگی بھانجی سے نکاح کرنا حرام اور اس نکاح سے پیدا ہونے والے بچے ثابت النسب نہیں کہلائیں گے ۔ زید و خالدہ پر لازم ہے کہ فورا ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں ۔ اور جب تک زید اپنے اس فعل شنیع و قبیح سے سچی توبہ نہیں کرلیتا ہے اسے مسجد کی صفائی اور اذان و اقامت سے دور رکھا جائے کہ اس کی اذان و اقامت مکروہ ہے اور اس کی دی ہوئی اذان کو لوٹانا مستحب ہے۔

اسی طرح زید جب تک توبہ نہ کرلے اس کا سماجی بائکاٹ رکھا جائے اس کے گھر کھانے ، پینے حتی کہ اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بھی پرہیز کیا جائے تاکہ لوگ عبرت حاصل کرے۔ 

یہ رہا 👆آپ کے تمام سوالات کا اجمالی جواب ۔

اب آئیے آپ کے سوالات کے تفصیلی جوابات مع دلائل ملاحظہ کریں ۔ 

سوال میں مذکور زید کا اپنی سگی بھانجی سے نکاح کرنا حرام اشد حرام ہے۔ کہ یہ نکاح شرعٙٙا منعقد ہی نہیں ہوا ہے بلکہ باطل ہوا ۔

 شریعت مطہرہ میں جب علاتی اور اخیافی بھانجیوں سے نکاح ناجائز و حرام ہے تو حقیقی(سگی) بھانجی سے نکاح بدرجہ اولی حرام ۔ بھانجیاں چاہے عینی یعنی حقیقی ہوں یا علاتی یا اخیافی ان سب سے نکاح حرام ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جن عورتوں سے نکاح کرنے کو حرام قرار دیا ہے ان میں بھانجیاں بھی شامل ہیں کما قال اللہ تعالی :

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهٰتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوٰتُكُمْ وَعَمّٰتُكُمْ وَخٰلٰتُكُمْ وَبَنَاتُ الْاَخِ وَبَنَاتُ الْاُختِ (النساء: ٢٣)


*فتاوی عالمگیری، جلد اول ، كتاب النكاح ،الباب الثالث فی بیان المحرمات ،ص: ٢٧٣/میں ہے:*

"و هي تسعة أقسام (القسم الأول المحرمات بالنسب) و هنّ الأمهات و البنات و الأخوات ‌و العمات و الخالات و بنات الأخ و بنات الأخت فهنّ محرمات نكاحًا و وطئًا و دواعيه على التأبيد"۔ 

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید نے جو اپنی سگی بھانجی خالدہ سے نکاح کیا ہے ، یہ نکاح جائز نہیں ہے اور شرعًا یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا ہے ، دونوں میں فی الفور علیحدگی ضروری ہے۔ ان کا آپس میں ملنا زنائے محض ہے۔ 

اور یہ مسئلہ فقط عالم ، علما ہی نہیں بلکہ جاہل و اجہل لوگ بھی جانتے ہیں کہ بھانجی سے نکاح حرام ہے۔ یقین ہے کہ جس زید نے اپنی بھانجی سے نکاح کیا ہے وہ بھی جانتا ہی ہوگا کہ بھانجی سے نکاح جائز نہیں ہے۔  اس کے باوجود اس نے ایسا کیا ہے لہذا زید کا یہ فعل حرام و ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف بھی ہے۔ زید پر لازم ہے کہ فورا اپنی بھانجی سے علیحدگی اختیار کرے اور جو کچھ ہوا اس پر زید اور اس کی بھانجی خالدہ دونوں سچے دل سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرے۔


اور اس نکاح باطل سے جو بچے پیدا ہوئے ہیں وہ بچے شرعٙٙا ثابت النسب نہیں کہلائیں گے۔ 

*فتاوی شامی مع در مختار ، جلد ثالث ، کتاب النکاح ، ص: ١٣١/میں ہے:*

قلت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومقتضاه الفرق بين الفاسد والباطل في النكاح، لكن في الفتح قبيل التكلم على نكاح المتعة. أنه لا فرق بينهما في النكاح ، بخلاف البيع ، نعم في البزازية حكاية قولين في أن نكاح المحارم باطل أو فاسد. والظاهر أن المراد بالباطل ما وجوده كعدمه ، ولذا لا يثبت النسب ولا العدة في نكاح المحارم أيضا كما يعلم مما سيأتي في الحدود.......-

*اب رہ گیا سوال نمبر٢-٣-۴)*

*(٢۔٣)* تو اس کا جواب یہ ہے اگر زید از خود صاف صفائی کرتا ہے تو اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ۔

 ہاں ! اگر وہاں کے مصلیان اس چیز کو ناپسند کرتے ہیں تو زید کو منع کردیا جائے تاکہ لوگ عبرت حاصل کرے اور مسجد کی صفائی کا کام کسی اور لیا جائے یہی بہتر ہے۔ 

 زید کی اذان و اقامت کا حکم یہ ہے کہ زید کی اذان و اقامت مکروہ ہے لہذا اس کی کہی گئی اذان لوٹائی جائے کہ یہ اعادہ مستحب ہے۔ البتہ اقامت کا اعادہ نہیں، اگرچہ مکروہ ہے۔ اس لیے کہ اقامت کی تکرار مشروع نہیں ہے ۔ بہ خلاف اذان کے۔ 

*مراقی الفلاح میں ہے:*

 یکرہ أذان الفاسق ؛ لأن خبرہ لایقبل في الدیانات، و یستحب إعادۃ الأذان ؛ لأن تکرارہ مشروع کما في الجمعۃ، دون الإقامۃ ۔ 

*فتح القدیر میں ہے:*

قَولُ الفاسِقِ فِي الدّياناتِ غَيرُ مَقْبُولٍ ۔ 

*تنویر الابصار و عالمگیری میں ہے:*

 وَيُكْرَہُ أَذَانُ الْفَاسِقِ ۔ 

*بحر الرائق میں ہے:*

 لكِنْ فِي الْقُھُسْتَانِيِّ: اعْلَمْ أَنَّ إعَادَۃَ أَذَانِ الْجُنُبِ وَالْمَرْأَۃِ وَالْمَجْنُونِ وَالسَّكْرَانِ وَالصَّبِيِّ وَالْفَاجِرِ وَالرَّاكِبِ وَالْقَاعِدِ وَالْمَاشِي وَالْمُنْحَرِفِ عَنْ الْقِبْلَۃِ وَاجِبَۃٌ ؛ لِأَنَّہُ غَيْرُ مُعْتَدٍّ بِہِ۔ وَقِيلَ : مُسْتَحَبَّۃٌ ؛ فَإِنَّہُ مُعْتَدٌّ بِہِ، إلَّا أَنَّہُ نَاقِصٌ، وَھُوَ الْأَصَحُّ، كَمَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ ۔ 

*اسی میں ہے:*

 وَيَنْبَغِي أَنْ لَا يَصِحَّ أَذَانُ الْفَاسِقِ بِالنِّسْبَةِ إلَی قَبُولِ خَبَرِہِ وَالِاعْتِمَادِ عَلَيْہِ ؛ لِمَا قَدَّمْنَاہُ مِنْ أَنَّہُ لَا يُقْبَلُ قَوْلُہُ فِي الْأُمُورِ الدِّينِيَّۃِ ۔ ان عبارات مذکورہ سے یہ بات امس و شمس کی طرح واضح ہوچکی کہ فاسق معلن کی اذان مکروہ ہے، اعادہ کا حکم ہے۔ اس لیے کہ اذان امور دینیہ میں سے ہے اور اس فاسق معلن کی خبر امور دینیہ میں معتبر نہیں ہے۔ تو جب ایک عام فاسق معلن کی اذان کو شرع نے لوٹانے کا حکم ہے تو جو زانی معروف ہو اس کی کہی گئی اذان واقامت بدرجہ اولی مکروہ ہوگی ۔ لہذا زید کو اذان و اقامت اس وقت تک روکیں جب کہ وہ اپنے فعل حرام سے صدق دل سے توبہ کرکے اپنی بھانجی سے جدا نہ ہوجائے۔ ہاں اگر قبل از توبہ وہ کبھی اذان واقامت کہہ دے تو ایسی صورت میں اس کی اذان کو لوٹانے مستحب ہوگا۔ لیکن اقامت نہیں لوٹائے جائے گی اگرچہ یہ بھی مکروہ ہے کیوں کہ اقامت کی تکرار مشروع نہیں ۔

رہ گئی بات اگر کوئی فاسق و فاجر اذان و اقامت کہہ دے تو اس اذان و اقامت سے پڑھی گئی نماز اگر درست پڑھی گئی ہے تو نماز درست ہے۔ اس کی اذان و اقامت کا اثر نماز پر نہ ہوگا ۔

لوگوں کا یہ کہنا "اپنی سگی بھانجی جو غیر محرم"۔ سگی بھانجی غیر محرم نہیں بلکہ محرمات میں سے ہے۔ اگر سگی غیرم محرم ہوتی تو نکاح حرام ہی نہیں ہوتا ۔ لوگوں کو جملے کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ یہ ان سے بولنے میں غلطی ہوئی ہے جیسے بسااوقات کبھی کوئی بولنے والا کام کی بات نہیں کرتا ہے تو لوگ بے سمجھی میں غلط بول جاتے ہیں "بے فضول کی باتیں مت کرو"۔ 

*(۴)* زید کے گھر کھانے ، پینے ، ملنے ، جلنے وغیرہ سے اس وقت قطع تعلق رکھا جائے جب تک وہ توبہ و استغفار کرکے اپنی بھانجی خالدہ سے علیحدہ نہ ہوجائے ۔

اس لیے کہ زید اس وقت زانی اور فاسق معلن اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔  

*اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :*

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(2)

ترجمہ: کنزالایمان

جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔ 

اگر یہاں اسلامی حکومت ہوتی تو ایسے شخص کو سخت سزائیں دی جاتی لیکن جہاں اسلامی حکومت نہ ہو وہاں کوئی اور سزا نہیں دے سکتا۔ البتہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ اس وقت تک رکھیں جب تک وہ شخص توبہ نہ کر لے اور اپنے فعل بد سے باز نہ آجائے ۔ 

*قرآن مقدس میں ہے:*

وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(٦٨)

ترجمہ: اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔

 فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔ 

*کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــبه:*

*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ* 

خادم الافتا والتدریس مدنی دارالافتا و مدرسہ اشرفیہ شیخ الاسلام وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ۔ دارالعلوم معین الاسلام مع جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات تھام ، بھروچ ، گجرات۔ 

٢/رجب المرجب ١۴۴٦/ ہجری 

٣/ جنوری ٢٠٢۵عیسوی۔ بروز جمعہ

[

Post a Comment

0 Comments