شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ: پس منظر، واقعہ اور پیغام
اسلامی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک، واقعۂ کربلا اور اس میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نہ صرف اسلام کے روشن اصولوں کا مظہر ہے بلکہ یہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک ہمیشہ زندہ رہنے والا پیغام بھی ہے: حق کے لیے قربانی، باطل سے انکار، اور صبر و استقامت کا عملی نمونہ۔
❖ امام حسین رضی اللہ عنہ کا تعارف
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، نواسۂ رسول ﷺ، سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہم کے بیٹے، اہلِ بیت کے معزز فرد اور صحابہ کے درمیان قدر و منزلت والے تھے۔
حدیث مبارک:
"الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة"
حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
![]() |
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ: پس منظر، واقعہ اور پیغام |
❖ پسِ منظر: یزید کی خلافت اور بیعت کا مسئلہ
▪ یزید بن معاویہ:
سن 60 ہجری میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا یزید بن معاویہ خلافت پر بیٹھا۔ اہلِ شام نے اس کی بیعت کی، مگر مکہ، مدینہ، اور عراق کے بعض جلیل القدر صحابہ و تابعین نے اس پر اعتراض کیا۔
▪ امام حسینؓ کا مؤقف:
امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی خلافت کو قبول نہ کیا کیونکہ: یزید کی فاسقانہ زندگی مشہور تھی۔ وہ عدل و شریعت کے معیار پر پورا نہ اترتا تھا۔
خلافت نبی کریم ﷺ کی سنت تھی، اسے فسق و فجور سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا۔
📌 امام حسین رضی اللہ عنہ کا مؤقف تھا:
"مجھ جیسا شخص، یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا۔"
❖ دعوتِ کوفہ
کوفہ کے لوگوں نے امام حسین کو خطوط اور پیغامات بھیجے:
"آئیے، ہم آپ کو خلیفہ بناتے ہیں۔ آپ ہمارے رہنما ہوں گے۔"
امام نے مسلم بن عقیل کو بطور نمائندہ بھیجا۔ مسلم بن عقیل کو شروع میں کوفیوں کی حمایت ملی۔ یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے مسلم کو گرفتار کر کے شہید کر دیا۔ کوفیوں کی حالت تبدیل ہو گئی اور وہ امام حسینؓ کی حمایت سے پھر گئے۔
❖ روانگی اور کربلا کا میدان
امام حسین رضی اللہ عنہ نے باوجود بدلتے حالات کے، حق کے پرچم کو بلند رکھنے کے لیے کربلا کی طرف سفر جاری رکھا۔ یزیدی لشکر نے کربلا میں امام کو محصور کر دیا۔ پانی بند کر دیا گیا، یہاں تک کہ بچے بھی پیاس سے تڑپنے لگے۔ امام حسینؓ نے خطبے دیے، نصیحت کی، مگر یزیدی فوج نے نہ مانا۔
❖ شہادتِ حسین
10 محرم 61 ہجری، یومِ عاشوراء کو: امام حسینؓ نے آخری خطبہ دیا اور خود کو اللہ کے دین کے لیے قربان کر دیا۔ آپ کے ساتھ 72 جانثار بھی شہید ہوئے، جن میں اہلِ بیت اور اصحاب شامل تھے۔ آپ کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو بھی ظالموں نے تیر مار کر شہید کر دیا۔ آپ کے سر مبارک کو نیزے پر بلند کیا گیا اور جسم بے گوروکفن کربلا کی ریت پر چھوڑ دیا گیا۔
❖ شہادت کا مقصد و پیغام
امام حسینؓ کی شہادت کا مقصد صرف تخت یا حکومت نہیں تھا، بلکہ: باطل کے سامنے کلمۂ حق کہنا. امت کو دین پر ثابت قدمی سکھانا. بدعنوان حکمرانوں کے خلاف خاموشی اختیار نہ کرنا.
سنتِ رسول ﷺ کی حفاظت
قولِ حسین:
"میں نے اس لیے خروج کیا کہ میں اپنے نانا ﷺ کی امت کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ نیکی کا حکم دوں اور برائی سے روکوں۔"
❖ اہلِ سنت و جماعت کا مؤقف
اہلِ سنت کا موقف متوازن اور اعتدال پر مبنی ہے:
✅ امام حسینؓ سے محبت:
اہلِ سنت امام حسین کو شہیدِ حق، مظلومِ کربلا اور امت کا رہبر مانتے ہیں۔
✅ یزید سے نفرت:
یزید کو ظالم، فاسق اور جابر مانتے ہیں، اور اس کے کردار سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
ہم غم ضرور کرتے ہیں مگر: ماتم، سینہ کوبی، زنجیر زنی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔تعزیہ و علم کو بدعت قرار دیتے ہیں۔ مرثیہ خوانی، نوحہ و دیگر رسومات کو خلافِ سنت سمجھتے ہیں۔
📚 امام ابن تیمیہ، علامہ ابن کثیر، امام ذہبی اور دیگر معتبر علماء نے اہلِ سنت کا یہی موقف بیان فرمایا ہے۔
❖ سبقِ کربلا
امام حسینؓ کی قربانی ہمیں سکھاتی ہے:
دین پر سمجھوتہ نہیں، چاہے جان چلی جائے۔
ظلم کے خلاف خاموشی جرم ہے۔
حق کا راستہ تنہا بھی ہو تب بھی چھوڑا نہ جائے۔
صبر، استقامت، اور اللہ پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت ہے۔
خلاصہ بیان :
شہادتِ حسینؓ تاریخِ اسلام کا وہ تابندہ باب ہے جس نے قیامت تک حق و باطل کے درمیان لکیر کھینچ دی۔ آج بھی جو کوئی باطل کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، وہ حسینؓ کے کارواں میں شامل ہوتا ہے۔
"ہر زمانے کا یزید مختلف ہوسکتا ہے، مگر حسین کا راستہ ایک ہی ہوتا ہے: سچ، قربانی، اور حق گوئی۔"
0 Comments