سردار بنائے جانے سے پہلے دین کاعلم حاصل کرو

 تفقھوا قبل ان تسودوا

سردار بنائے جانے سے پہلے دین کاعلم حاصل کرو

سیدناعمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کایہ قول بہت سی حکمتوں پہ مبنی ہے۔آدمی کوجب جاہ ومنصب حاصل ہوجاتاہے توعام لوگوں کی نظر میں باعظمت وباعزت ہوجاتاہے،پھر وہ اپنے سے چھوٹوں سے علم حاصل کرنے میں عار محسوس کرتاہے،نتیجۃً علم سے محروم رہتاہے،صاحب منصب ہونے کے سبب لوگ اسے صاحب علم سمجھتے ہیں اور اپنے دینی مسائل اسی سے پوچھتے ہیں،اپنے منصب وجاہ پر نظر کرتے ہوئے اپنی لاعلمی کااظہار کرنے میں عار محسوس کرتاہے،اور لاعلمی کے باوجود الٹے سیدھےجوابات دے کرقوم کوگمراہ کرتاہے۔حدیث پاک میں آیاہے کہ قیامت کے قریب علمااٹھالئے جائیں گے اور علم اٹھ جائے گا،لوگ جاہلوں کواپناسردار بنالیں گے،انھیں سے دین کی باتیں پوچھیں گے،وہ بغیر علم کے لوگوں کودین کی باتیں بتائیں گے،خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کوگمراہ کریں گے۔امام قسطلانی سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی تشریح کرتے ہوئے یہ تحریر فرماتے ہیں:قال أبو عبيدة أي تفقهوا وأنتم صغار قبل أن تصيروا سادة فتمنعكم الأنفة عن الأخذ عمن هو دونكم فتبقوا جهالا۔حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا کہ بڑے ہونے سے پہلے دین کاعلم سیکھ لو کیوں کہ اگر علم سیکھنے سے پہلے سردار بنائے دئے جاؤگے تو تم سے چھوٹوں سے علم لینے میں عار مانع ہوگی اور تم جاہل رہ جاؤگے۔(ارشاد الساری شرح البخاری ج ۱ص ۱۷۱)ابن بطال لکھتے ہیں: فإن من سوده الناس يستحيى أن يقعد مقعد المتعلم خوفًا على رئاسته عند العامة.۔اگرحصول علم سے پہلے کوئی شخص لوگوں کاسردار بن جائے تومعلم کے سامنے متعلم بن کر بیٹھنے میں اسے شرمندگی کااحساس ہوگا،کہ جب لوگ اسے شاگرد کی طرح استاذ کے سامنے دیکھیں گے تو اس کی سرداری عوام کے سامنے داغدار ہوگی۔(شرح صحیح البخاری ج۱ص۵۸)وقال يحيى بن معين: من عاجل الرئاسة فاته علم كثير۔امام یحیٰ بن معین نے فرمایاہے،جس نے سرداری حاصل کرنے میں جلد بازی کی اس سے ڈھیر ساراعلم فوت ہوگیا۔(ایضا)۔اگر کسی سبب سے سرداری اور حصول جاہ ومنصب سے پہلے علم دین حاصل نہ ہوسکے تواس کے حصول میں کوتاہی اور عار محسوس نہیں کرناچاہئے۔علامہ عینی لکھتے ہیں:وَالْمعْنَى: تفقهوا قبل أَن تسودوا وتفقهوا بعد أَن تسودوا، إِذْ لَا يجوز ترك التفقه بعد السِّيَادَة، إِذا فَاتَهُ قبلهَا، وَالدَّلِيل على صِحَة مَا قُلْنَا أَن البُخَارِيّ أكد ذَلِك بقوله: وَقد تعلم أَصْحَاب النَّبِي، عَلَيْهِ السَّلَام، فِي كبر سنهم، لِأَن النَّاس الَّذين آمنُوا بِالنَّبِيِّ، عَلَيْهِ السَّلَام، وهم كبار مَا تفقهوا إلاَّ فِي كبر سنهم.۔یعنی سرداری ملنے سے پہلے دین کاعلم حاصل کرو اور بعد میں بھی، کیوں کہ سراداری ملنے کے بعد حصول علم کاترک جائز نہیں۔نبی کریم ﷺ کے اصحاب آپ پر ؓکبر سنی میں ایمان لائے تھے اور آپ ﷺ سے اسی عمر میں علم حاصل کئے تھے۔(عمدۃ القاری ج ۲ ص ۵۶)علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی حصول منصب سے پہلے علم حاصل کرنے کی ترغیب کایہ سبب بیان کیاہے:قَدْ تَكُونُ سَبَبًا لِلْمَنْعِ لِأَنَّ الرَّئِيسَ قَدْ يَمْنَعُهُ الْكِبْرُ وَالِاحْتِشَامُ أَنْ يَجْلِسَ مَجْلِسَ الْمُتَعَلِّمِينَ۔ریاست وسرداری حصول علم سے مانع ہوتی ہے،کیوں کہ صاحب منصب شخص کواس کی بڑائی اورحشمت کاخیال اسے طالب علموں کی صف میں بیٹھنے نہیں دیتا۔(فتح الباری ج ۱ص١٦٦) دور حاضر میں دینی فساد، سماجی اضطراب اور گمراہی کاسب سے بڑاسبب یہ ہے کہ بے علم افراد سیاسی اوردینی رہنمائی کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔سیاست میں عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے گنگاجمنی تہذیب کوپرموٹ کرنے کے نام پرنام نہاد مسلم لیڈران کفروالحاد سے بغل گیر ہورہے ہیں۔دوسری طرف دینی اسٹیج پہ مذہنی رہنماکی حیثیت سے ایسے علم دین سے بے بہرہ نام نہاد علما ومشائخ مفتی ،علامہ،مولانا شیخ طریقت،براجمان ہیں،جوغیر ذمہ دارانہ اور جاہلانہ باتیں عوام میں پھیلاکر انہیں گمراہ کررہے ہیں۔۔۔کبھی کوئی مفتی برسر اسٹیج وعظ کی جگہ گمراہ کن تقریروں کے ذریعہ قوم کوگمراہ کرہاہے،کبھی کوئی شیخ طریقت بن کر علمائے دین سے قوم کوبیزار کررہاہے۔۔الغرض جس کے جی میں جوآتاہے برسر اسٹیج بک کر چلاجاتاہے اورروز کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑاہوجاتاہے۔۔۔

میری درس گاہ میں ایک بڑے خاندان کے ایک شہزادے حاضری دیاکرتے تھے،لیکن سبق بالکل نہیں سناپاتے تھے،انہیں سمجھایاجاتالیکن اس کاکچھ اثر نہیں ہوتاتھا۔۔ایک دن شہزادے کے ایک رفیق درس نے مجھ سے کہا:حضرت !وہ صاحب ہم ساتھیوں سے یہ کہتے ہیں کہ ’’تم لوگ پڑھو،مجھے پڑھنے کی ضرورت نہیں،ِمیں نے پوچھاکیوں؟توانہوں نے کہاکہ تم لوگ پڑھ لکھ کر چاہے جتنے بڑے عالم بن جاؤ لوگ تمہارانہیں میراہی ہاتھ چومیں گے،مجھے کرسی پہ بٹھائیں گے اور تمہیں فرش پہ جگہ دیں گے اور تم سے زیادہ نذرانہ بھی دیں گے،،۔۔اس سوچ پہ مجھے سخت افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی کہ آخر اس فکر کا ذمہ دار کون ہے؟ اور جس کے اندر یہ سوچ ہوگی وہ علم دین سے قریب کیوں کر ہوگا؟؟۔۔۔۔ایک شہزادے کا ایک اور واقعہ سننیے،وہ مدرسے میں داخل توہوئے لیکن گنتی کے چند دن ہی درسگاہ میں آئے،لیکن انہیں دستار فضیلت بھی مل گئی اور آج ایک بہت بڑے آستانے کے سجادہ نشین ہیں۔۔ایک شہزادے کی بات اور سن لیجیے۔۔۔ثانیہ میں داخلہ لیا پوری جماعت بھی نہیں پڑھی اوردستار فضیلت وغیرہ سے نواز دئے گئے۔۔آج وہ ایک عظیم آستانے کے گدی نشین کی حیثیت سے مراسم عرس اداکرتے ہیں۔۔ایک جلسے میں لوگوں نے خطاب کرنے کی گزارش کی تو سیادت کی فضیلت پہ تقریر کرتے ہوئے یہ بول پڑے’’ پیر کے لئے سید ہوناضروری ہے‘‘تقریر کے بعد ایک بزرگ عالم ( جو اب دنیامیں نہیں رہے) نے کہا: میاں آپ نے جویہ کہاکہ پیر کے لئے سید ہونا ضروری ہے،یہ بات کس کتاب میں ہے؟ اور یہ بتائیے کہ حضور مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کے پیر ومرشد سید تھے یانہیں؟توصاحب زادے بزرگ عالم دین پہ بگڑ گئے اور بولے آپ لوگ سیدوں سے جلتے ہیں۔۔۔

                   ایک دل چسپ لطیفہ*:

حضور شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں دام ظلہ علینا کی کسی تقریر میں میں نے یہ لطیفہ سناتھا،ایک صاحب جوگاؤں کے سردار تھے،تھے ان پڑھ،گاؤں کےلوگ ان سے بھی زیادہ ان پڑھ تھے۔لوگ سردار صاحب سے تاریخ پوچھنے آتے تھے۔۔سردار صاحب نے اتناکسی سے سیکھ لیاتھاکہ مہینہ تیس دن اور اکتیس دن کاہوتاہے۔ انھوں نے اپنے سرہانے تکیہ کے نیچے ۳۱مینگنیاں رکھ لی تھیں مہینہ شروع ہونے کے بعد جب گاؤں کاکوئی آدمی تاریخ پوچھنے آتاتوسردار صاحب تکیہ کے نیچے ہاتھ ڈال کر مینگنیاں گنتے اور تاریخ بتاتے تھے۔۔سردار صاحب کے انتقال کے بعد لوگوں نے ان کی گدی پہ ان کے بیٹے کوبٹھادیا۔۔بیٹا باپ سے بھی بڑاجاہل تھا،اس نے صرف اتنا دیکھاتھا کہ ان کاباپ تکیہ کے نیچے رکھی ہوئی مینگیاں گن کر تاریخ بتاتاہے،سووہ بھی وہی کرنے لگا۔۔اتفاق سے ایک دن بکری نے گدی کے پاس منگنیاں کردیں۔۔سردار صاحب کے جانشین نے دیکھاتوسوچا تکیہ کے نیچے کی مینگنیاں کسی نے باہر نکال دی ہوگی یہ سوچ کر ساری مینگیوں کو تکیہ کے اندر رکھ لیا۔۔مہینہ ختم ہورہاتھا،کسی نے آکر پوچھا سردار صاحب آج کتنی تاریخ ہے؟ سردار صاحب تکیہ کے نیچے ہاتھ ڈال کر مینگنیاں گننے لگے،تیس اکتیس،بتیس تینتیس چونتیس گنتے گنتے چونسٹھ تک پہنچ گئے ،مینگنیاں ختم ہی نہیں ہوتیں،توسردار صاحب پریشان ہوکر بولے ’’آج چونسٹھ تاریخ ہے‘‘تاریخ پوچھنے والے نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا:سردار صاحب!یہ چونسٹھ تاریخ،مطلب؟ آپ کے والد بزرگوار نے توہمیں اتنی زیادہ تاریخ کبھی نہیں بتائی تھی!سردار صاحب بولے: بھائی! میں نے بہت ہی احتیاط سے چونسٹھ تاریخ بولاہے ،سچ پوچھو تو آج سو دوسوتاریخ سے کم نہیں ہے۔۔یہ لطیفہ ہے لیکن آج جس قسم کی جہالت کی باتیں سرعام کہی جاتی ہیں وہ بھی ایسے لوگوں کی زبانوں سے جنہیں عوام الناس مفتی،عالم اور پیر طریقت تصور کرتے ہیں۔۔کیا ایسے ماحول میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کاارشاد تفقھوا قبل ان تسودوا کی اہمیت دوچند نہیں ہوجاتی؟.

 *رضاء الحق مصباحی راج محلی *

٢٧جولائی ٢٠٢٥ء

Post a Comment

0 Comments