وارث پاک کی مختصرحالات زندگی

وارث پاک کی مختصرحالات زندگی 


دنیامیں ایسی نادرالوجود ہستیوں کا ظہور شاذ اورعرصۂ دراز کے بعد معزز وممتاز خاندان میں ہوتاہے ۔ اور اُ ن کے چشمۂ فیوض وبرکات سے ہزاروں دل افراد روحانی آبِ حیات سے سیراب ہوتے ہیں۔ ان کمیاب ہستیوں میں سے ایک ذات عارف باللہ،فانی فی اللہ،امام الاولیاء ، سیدالسادات، آفتاب ولایت حضرت حافظ وقاری حاجی سید شاہ وارث علی علیہ الرحمہ کی ہے۔آپ کا خاندانی پس منظر کچھ اس طرح ہے : ۱۲۵۸ء / ۶۵۶ھ میں ہلاکو خان نے خلیفہ مستعصم باللہ کی حکومت کو ختم کرکے بغداد کوتباہ وبرباد کر دیا اوراطراف و اکناف میں داخل لگا چنانچہ شرفائے اسلام اپنی عزت وآبرو بچانے کی خاطر وطنِ عزیز کو چھوڑ کر دور دراز محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کر گئے ۔ اسی پُر آشوب دور میں سادات کاظمی کے روشن چراغ حضرت مولانا سید اشرف ابی طالب جو اپنے وقت کے شیخ کامل تھے۔ اہل وعیال کے ساتھ نیشاپور سے ہجرت فرماکر ہندوستان تشریف لائے اورضلع بارہ بنکی (یوپی) کے قصبہ :رسول پور میں آباد ہوگئے ۔ چار صدی بعد آپ کے خاندان کے رہنمائے شریعت، فخرِ ولایت حضرت سید عبدالاحد رسول پور سے’’ دیوہ‘‘ چلے آئے اوراپنے سارے خاندان سمیت یہیں مستقل طور پر مقیم ہوگئے۔ ۱۷۲۸ء میں آپ کواللہ تعالیٰ نے ایک فرزند عطا فرمایا جن کانام میراں سید احمد رکھا گیا۔ انہوں نے آگے چل کر فقرودرویشی میں بڑی شہرت حاصل کی ۔ ان کے صاحبزادے سید کرم علی تھے ۔ جن کے دوفرزند ہوئے۔ ایک سید سلامت علی اوردوسرے سید قربان علی شاہ ۔حافظ سید وارث علی کے والد حکیم حافظ وقاری سید قربان علی شاہ ہیں۔ ولادت : یکم رمضان المبارک ۱۲۳۸ ھ /۱۸۲۲ءکو دیوہ شریف، بارہ بنکی ، یوپی میں ہوئی ۔آپ کی ولادت سےایک مدت دراز پہلے بانسہ شریف میں اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی دیوے شریف کی طرف منہ کر کے دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ اگر کوئی شخص پوچھتا تو آپ فرماتے : ’’ادھر سے آفتاب ولایت طلوع ہوگاجس کی روشنی سے دنیا جگمگا اٹھے گی، یہ آفتاب ہمیں میں سے ہوگا مگر اس کے طلوع ہونے میں ابھی وقت لگے گا‘‘۔ اسی طرح اس زمانے کے کئی ولیوں نے آپ کی آمد کے متعلق پیشین گوئیاں کیں۔ آخر کار وہ خوبصورت لمحہ آہی گیا جس کا انتظار تھا ۔ حسینی باغ کا یہ حسین پھول یکم رمضان المبارک کوکھلاتھا اس لئے پورے مہینے کبھی اس نومولود نے دن میں دودھ نہ پیا اورنہ ہی بھوک سے بے تاب ہوکر رویا چلایا بلکہ نہایت صبر وسکون کے ساتھ اور عام بچوں کی خوراک کے مقابلے میں مقدار میں بہت کم ،اس کے علاوہ نہ کبھی بے وضو ماں کادودھ پیا اورنہ کبھی مقررہ وقت کے علاوہ دودھ کی طرف رغبت کی، دیگر بچوں سے بالکل الگ تھے ۔آپ کی عمر دو سال کی ہوئی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ غمزدہ ماں کےسایہ کفالت میں پروان چڑھنے لگے ۔ تین برس کے ہوئے تو والدہ ماجدہ بھی اللہ کوپیاری ہوگئیں۔ ماں کی رحلت کے بعد دادی جان کی آغوش شفقت میں پرورش پانے لگے۔جب آپ پانچ سال کے ہوگئے تو بڑے ہی تزک واحتشا م کے ساتھ رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی ۔اور آپ کی تعلیم وتربیت کے لئے مولانا صاحب کو مقرر کیاگیا جو باقاعدہ گھر پرآنے لگے مگر مٹھن میاں (وارث پاک کا عرفی نام) کھانے کی اشیا دیکر استاذ کا دھیان درس وتدریس سے ہٹا دیتے ۔جب مولانا صاحب چلے جاتے تومٹھن میاں گھرکے باہراپنے ہم عمر بچوں کو کھیل کے دوران محبتِ الٰہی کادرس دینے لگتے۔ اکثر وبیشتر دادی صاحبہ کے صندوقچے سے کچھ روپے نکال لیتے اوروعظ ونصیحت سننے والے لڑکوں کو مٹھائی کھلاتے اور بقیہ رقم غریبوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ اسی عمل کی بنیاد پر آپ "مٹھن میاں"کے عرف سے مشہور ہوئے ۔ابتدائی تعلیم کے بعد علوم مروجہ کی تحصیل کے لئے دادی جان نے آپ کواپنے پیرو مرشد حضرت امیر علی شاہ کے پاس بھیجا جو کنز المعرفت حضرت شاہ ولایت محمد عبدالمنعم قادری کے سجادہ نشین تھے۔ استادِ کامل نے اپنے ہونہار شاگرد کودیکھا تو فرمایا: ’’یہ صاحبزادہ تو خلقِ خداکے رہنما ہوں گے اور تمام عالم میں ان کاڈنکا بجے گا"۔ مدرسہ جاتے ہوئے راستے میں قرآن مجید کواپنے سرپر رکھ کر لے جاتے اورپھر اسی طرح مکتب سے مکان تک نہایت ادب واحترام سے لے کر واپس آتے ۔ گھر واپسی پر کسی گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کرکسی گہرے خیال میں ڈوب جایاکرتے تھے۔آپ صرف دو سال میں بہترین حافظ قرآن بن گئے اورکچھ ابتدائی کتابیں بھی پڑھ لیں۔مزید تعلیم کے لئے آپ کو علامہ امام علی صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا جب آپ ان کی درسگاہ میں حاضر ہوتے توآپ کودیکھ کراستاذ ادب سے کھڑے ہوجاتے اورتعظیم بجالاتے ،مٹھن میاں روکتے توفرماتے : ’’شہزادے میں تو ظاہری علوم کااستاذ ہوں مگر میری نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ تم خلقِ خدا کوباطنی علوم سے مالامال کروگے‘‘۔آپ نے ۷/۸ سال کی عمر میں قدم رکھا ہی تھاکہ دادی جان بھی رب کو پیاری ہوگئیں اورمحبت وشفقت کایہ گہوارہ بھی چھوٹ گیا۔دادی کے وصال کے بعد قریبی رشتہ میں بڑی بہن ہی تھیں جن کے شوہر حضرت خادم علی شاہ اپنے وقت کے کامل بزرگ اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد تھے ۔ لکھنؤ میں قیام تھا،اس لئے بزرگ بہنوئی مٹھن میاں کودیوے سے اپنے ہمراہ وہیں لے آئے۔ اوراعلیٰ تعلیم کے لئے فرنگی محل میں آپ کا داخلہ کرادیا۔ یہاں آپ سے حیرت انگیز کرامتیں ظاہرہونے لگیں جس کے سبب خود اساتذہ آپ کاادب کرتے تھے۔وارث پاک صغر سنی ہی سے ہمیشہ یاد الٰہی میں گم سم رہا کرتے تھے۔ پڑھائی میں آپ کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے استاد کہاکرتے کہ" صاحبزادے محنت نہیں کرتے ہوآخرکیانتیجہ ہوگا ؟ آپ فرماتے کہ حضرت مجھے توسبق یاد ہے۔ چنانچہ ایک روز کاذکرہے کہ آپ کے معلم نے آپ سے آموختہ سنانے کے لئے کہا ،پھر کیا تھا جس جگہ سے پوچھتے آپ من وعن پڑھ کرسنادیتے ۔ یہ دیکھ کراستاذحیرت واستعجاب کے عالم میں یہ بول پڑے کہ ایسا بچہ اب تک میری نظروں سے نہیں گزرا۔ اس محفل میں موجودایک دوسرے بزرگ نے کہا کہ شہزادے کوکچھ نہ کہا کیجئے ورنہ غضب ہوجائے گا۔کیونکہ ان کی پیشانی پر لڑکپن ہی سے اثارولایت چمک رہے ہیں۔ حضرت حاجی خادم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے مٹھن میاں کی طبیعت میں عشقِ الٰہی کاجب زیادہ جوش وخروش دیکھاتو آپ کوباقاعدہ بیعت کرکے سلسلۂ قادریہ چشتیہ میں داخل فرمالیا۔آپکی عمر صرف گیارہ سال ہوئی تھی کہ پیرِ روشن ضمیر نے اپنے کمسن مرید کے اعلیٰ روحانی مقامات دیکھ کرآپ کوخلعتِ خلافت سے نواز دیا۔ تیرہ برس کی عمرمیں ۱۴/ صفرالمظفر ۱۸۳۷ء / ۱۲۵۳ھ پیرکے دن حضرت حاجی خادم علی شاہ دارِ فانی سے داربقاکورخصت ہوگئے۔ جب آپ پندرہ سال کے ہوگئے تو دل میں حج بیت اللہ وزیارت روضہ رسول اللہ کی خواہش انگڑائی لینے لگی ۔اس خیال کے آتے ہی گھر کاساراسامان غرباء میں تقسیم کردیااور آبائی جائیداد رشتہ داروں میں بانٹ دی،اس کے بعد مالکانہ حقوق کے سارے کاغذات تالاب میں ڈبو دیئے ۔ اس طرح دنیا کے جھمیلوں سے چھٹکارا حاصل کرکے سفرِ حج پر تن تنہا پیدل روانہ ہوگئے۔ اناؤ،کانپور ہوتے ہوئے اٹاوہ پہنچے ۔ اٹاوہ میں قیام کے دوران سرکارِ وارث پاک کی خدمت میں ایک عاشق مزاج شاعر بیدم حاضرہوئے جونہی وارث پاک نے دیکھا پھرکیاتھاایک ہی نظرمیں اس کے عشق مجازی کوعشق حقیقی میں بدل دیا۔دیوہ شریف بلاکر سترہ سال کی عمر میں احرام عطا فرماکر فقیری کی سند عطاکردی ۔اسی طرح سفرکرتے ہوئے آگرہ ،شکوہ آباداور پھر فیروزآباد پہنچے اوروہاں سے جے پور،راجستھان میں چند ایام قیام کرنے کے بعد آپ خواجہ کی نگری اجمیر شریف روانہ ہوگئے۔اجمیر شریف پہنچ کر جب آپ آستانۂ خواجہ پر حاضری دینے کے لئے جانے لگے تواز راہِ ادب اپنے جوتے اتار دیئے پھر اس کے بعد کبھی بھی جوتا،چپل استعمال نہیں کیا۔چند دن قیام کرنے کے بعد آپ اپنی منزل کی طرف نکل پڑے اوربمبئ پہنچ کر کشتی میں سوار ہوکر جدہ پہنچے۔احرام زیب تن فرمایا اور اس طرح ۱۸۳۶ء میں پہلا حج ادا فرمایا۔ادائیگی حج کے بعد مدینہ منورہ تشریف لائے اوریہاں تین مہینے آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں گزارا۔جمادی الاولیٰ ۱۲۵۴ ھ /۱۸۳۸؁ ءمیں نجف اشرف کی زیارت کوپیدل ہی روانہ ہوگئے۔ یہاں اکیس روز قیام کرنے کے بعدننگے سر،ننگے پاؤں پیدل سفرکرتے ہوئے دشوار گزار راستے کے مصائب جھیلتے ہوئے کربلائے معلیٰ کی زیارت کوگئے۔کاظمین شریف،بغداد مقدس کی زیارت سے فارغ ہوکر بیت المقدس کی زیارت کرتے ہوئے واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے۔حجاز مقدس کے اس پہلے سفر میں چار مرتبہ حج ادا کرنے کے بعد جہاز کے ذریعے بمبئی پہنچے اوریہاں سے اندور،اجین،اجمیر شریف، دہلی وغیرہ ہوتے ہوئے ۱۸۴۱ء میں لکھنؤ تشریف لائے۔ یہاں ایک ہفتہ قیام فرمانے کے بعد’’دیوہ شریف‘‘ آکر رونق افروز ہوئے۔پہلےتو ننگے سر،ننگے پاؤں ،احرام پوش فقیر کو دیکھ کر لوگ نہیں پہچانے لیکن بعد کوشہرت ہوگئی کہ ’’ مٹھن میاں‘‘ حج کرکے احرام پہنے ہوئے آئے ہیں چنانچہ سب کوخوشی ہوئی ،عزیزوں نے دعوتیں کیں اورکچھ رشتہ داروں کو آپ کی شادی کابھی خیال پیداہوا چنانچہ سید اعظم علی کی لڑکی سے رشتہ داروں نے نکاح کراناچاہا۔مگرآپ نے انکار کردیا۔جب رشتہ داروں کا اصرار بہت زیادہ بڑھتا دیکھاتو خاموشی کے ساتھ لکھنؤ آگئے ۔چند روز وہاں قیام کرنے کے بعد ۱۲/ ربیع الثانی ۱۲۵۷ھ /؁1841ء میں دوبارہ سفر حج کےارادے سے نکل پڑے اورآپ کی بلند ہمتی نے یہ سفر جہاز سے بے نیاز ہوکرپیدل شروع کردیا۔اس زمانہ میں نہ ایسے پختہ راستے تھے اورنہ ہی آرام گاہیں مگر اللہ کا یہ ولی لق ودق صحراؤں کو عبور کرتا ہوا اور بلند و بالا پہاڑوں کو روندتا ہوا چلا جارہاتھا۔آخر کار دل وجان سے بھی زیادہ محبوب منزل ’’مدینہ منورہ‘‘ذیقعدہ کے تیسرے ہفتے پہنچے ۔وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد حج بیت اللہ کے لئے مکہ معظمہ چلے گئے۔۱۸۴۴ء میں اس سفر سے جب دیوہ واپسی ہوئی تو جلد ہی دل اگتاگیا ۔ محبوب خدا کی یاد تڑپانے لگی ۔پھر کیاتھادیوانہ وار آپ پیدل روانہ ہوگئے۔یہ تیسراسفر حج تھا۔ اس طرح بارہ سال تک مسلسل آپ عرب وحجاز،ایران وعراق ،فلسطین وشام ،مصرو ترکی،روس وجرمنی اورتمام یورپ میں روحانیت کاتبلیغی دورہ کرتے رہے، غرض کہ آپ نے اسلام کی بلند ترین روحانی تعلیمات کوساری دنیا میں عام کیا۔ اورعشقِ الٰہی کی لامحدود ،لافانی اقدار کواپنی بے پناہ قوتِ باطنی سے دلوں میں جاگزیں فرمایا۔پوری زندگی میں آپ کاکوئی سانس ذکرِ الٰہی سے کبھی خالی نہ گیا، آخر وقتِ وصال تک ایک وقت کی نماز کوکئی کئی بار ادافرمایا، احرام کوکفن اورزمین کوقبرکی منزل سمجھا چنانچہ ’’موتوا قبل ان تموتوا‘‘ کی سچی تصویر بنے رہے۔آپ کی بزرگی کاچرچا برصغیر کے علاوہ ایشیا ، افریقہ اور یورپ کے باشندوں تک پھیلاہواتھا،تقریباً ڈیڑھ لاکھ غیرمسلموں کوآپ نے مشرف بہ اسلام کیا اورہزاروں مشرکوں کوموحد بنا دیا ۔ آپ کے معتقدین میں ہندوستان کی بڑی بڑی ہستیاں شامل تھیں مثلاً سر سید احمد خاں، استاد ناسخ،مولاناحسرت موہانی ،اصغرگونڈوی،ریاض خیرآبادی،بے نظیر شاہ سیماب اکبر آبادی، راجہ شری کشن شاد،وزیر اعظم دکن، میر محبوب علی خاں، نظام حیدر آباد دکن، سر شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا، علامہ اقبال ودیگر علمائے فرنگی محل (مشکوٰۃ حقانیہ بحوالہ آفتاب ولایت) ہزاروں ہندو آپ کے اثرِ روحانی سے مسلمان بنے جن میں بڑے بڑے تعلقدار ،جج اوربیرسٹر شامل ہیں۔آپ کی بزرگی کی شہرت ایشیا، افریقہ اور یورپ کے باشندوں تک پھیلی ہوئی تھی ۔ روس اورجرمنی کے باشندے بھی وارث پاک کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے۔ سب سے بڑی چیز جو آپ کے اندر موجودتھی وہ آپ کی قوت باطنی تھی جس کے زور سے بیمار تندرست ہوجاتے تھے۔ مفلسوں کوتونگری حاصل ہوتی تھی اوربھٹکے ہوؤں کوراہِ خدا ملتی تھی ۔آپ کسی سے یہ نہ کہتے کہ مسلمان ہوجاؤ۔ نہ ہی مذہبی بحث ومباحثہ کرتے تھے بلکہ آپ تو مشاہدہ کرا دیاکرتے تھے۔وارث پاک کی نورانی زندگی کاہر لمحہ ذکرِ الٰہی سے مملو، دل ہمہ وقت یادِ الٰہی میں غرق اورجسم اطہر عجزو نیاز کی مکمل تصویر بنا ہواہے مگر افسوس کہ پھر بھی دن دہاڑے بعض اندھے پجاری یہ الٹادعویٰ کرتے ہیں کہ :’’ہم تو وارث پاک کی محبت اورپیروی میں نماز نہیں پڑھتے ‘‘۔ ان لوگوں سے  پوچھا جائے کہ ذرا یہ تو بتاؤ کہ سیدنا وارث پاک نے نماز کب چھوڑی ؟........ ہاں سرکار وارث پاک کے ملفوظات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وارث پاک نے زندگی میں نماز کبھی نہیں ترک کی البتہ بے نمازیوں کو ضرور چھوڑ دیا۔ چنانچہ صاف صاف یہ اعلان فرمادیاکہ:"جونماز نہ پڑھے وہ ہمارے حلقۂ بیعت سے خارج ہے"! (آفتاب ولایت، عین الیقین) 

جہاں تک وارث پاک سے نماز کا تعلق ہے تو یہ بات جان لیں کہ نماز کے ساتھ آپ کا بڑا ہی مضبوط رشتہ ہے ۔ اور نماز کے لئے آپ اتنی زیادہ دلچسپی رکھتے تھے کہ با جماعت نماز ادا کرنے کے لئے چلچلاتی دھوپ میں بھی ننگے سر، ننگے پاؤں پیدل چل کر مسجد تک تشریف لے جاتے اور طویل مسافت بغیر کسی سواری کے طے کیا کرتے تھے۔ (حیات وارث از شیدا وارثی) انوار اولیاء میں لکھا ہے کہ وارث پاک ہمیشہ اول وقت میں بڑے ہی اطمینان سے تعدیل ارکان کی رعایت کے نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ 1306ھ/ 1888ء میں سرکار وارث پاک نے قاضی بخش علی وارثی کو حکم دیا کہ کاغذ اور قلم دوات لاؤ اور لکھو کہ :

"ہماری منزل عشق ہے جو جانشینی کا دعویٰ کرے وہ باطل ہے ۔ ہمارے یہاں کوئی چمار ہو یا خاکروب جو ہم سے محبت کرے وہ ہمارا ہے" ۔ حاضرین کی تصدیق کے ساتھ یہ تحریر آپ نے سب کے روبرو خادم کو دے کر فرمایا : "اگر کوئی شخص اس کی نقل مانگے تو اسے دے دینا" ۔ چنانچہ اس طرح سلسلہ وارثیہ میں خاندانی خلافت، نسبی جانشینی اور پشتینی سجادگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا ۔ وارث پاک نے کسی ایک شخص کی ذات میں اپنی سجادگی کو محدود نہ کیا اور نہ ہی چند شخصیتوں کو اپنی خلافت کا حقدار ٹھہرایا بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر آپ نے ہر محبت کرنے والے دل کو اپنا روحانی جانشین قرار دے کر اپنی باطنی خلافت کا حقدار ٹھہرایا... چنانچہ فرمایا : "جو ہم سے محبت کرے وہ ہمارا ہے" ۔

وصالِ پرملال: 1/ صفر المظفر ، وقت : چار بج کر تیرہ منٹ پر آپ اس دار فانی کو الوداع کہتے ہوئے دار بقا رحلت کر گئے ۔

نوٹ : افادہ عام کی غرض سے اس مضمون کے اکثر اقتباسات "آفتاب ولایت" سے اخذ کئے گئے ہیں ۔

 Stabrazalimi786@gmail.com


از... الحاج،مفتی) محمدشمس تبریز تابش علیمی(.ایم.اے.)) ارریہ. بہار:بی. پی. ایس. سی. ٹیچر +2 اردو اسکول، (مشرقی چمپارن ) 

Post a Comment

0 Comments