صاحب نور الانوار ملا جیون کا مختصر سوانحی خاکہ

 

ملا جیون – ایک مختصر سوانحی خاکہ


ملا احمد بن ابوسعید، جنہیں "ملا جیونؒ" کے نام سے جانا جاتا ہے، برصغیر کے مشہور فقیہ، مفسر اور مدرّس گزرے ہیں۔ آپ کی ولادت 1047 ہجری بمطابق 1637 عیسوی کو اودھ (موجودہ اتر پردیش، بھارت) کے ایک قصبے امیٹھی میں ہوئی۔ آپ کا خاندان علم و فضل اور دین داری میں مشہور تھا۔

ملا جیونؒ نے کم عمری ہی میں قرآن مجید حفظ کیا اور اعلیٰ دینی علوم حاصل کیے۔ آپ نے فقہ، اصول، حدیث، کلام، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی اور بائیس برس کی عمر میں مکمل عالم بن گئے۔ آپ نے کئی اساتذہ سے علم حاصل کیا، جن میں شیخ محمد صادق ستارکھھی اور مولانا لطف اللہ کوروی نمایاں ہیں۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد آپ امیٹھی میں ہی تدریس میں مصروف ہو گئے، جہاں آپ کے علمی کمالات کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ بعد میں آپ نے دہلی، لاہور، حیدرآباد دکن اور اجمیر جیسے شہروں میں بھی تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ آپ کچھ وقت کے لیے مدینہ منورہ بھی تشریف لے گئے، جہاں آپ نے اپنی مشہور کتاب "نور الانوار" مکمل کی۔

ملا جیونؒ کی علمی خدمات میں کئی قیمتی تصانیف شامل ہیں، جن میں سب سے زیادہ شہرت "نور الانوار" کو حاصل ہے۔ یہ کتاب اصول فقہ کی ایک نہایت معتبر اور علمی شرح ہے، جو آج بھی برصغیر کے دینی مدارس میں بطور درسی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے "تفسیراتِ احمدیہ"، "ادبِ احمدی" اور "مناقبِ اولیا" جیسی مفید کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔

صاحب نور الانوار ملا جیون کا مختصر سوانحی خاکہ
صاحب نور الانوار ملا جیون کا مختصر سوانحی خاکہ


آپ کا علمی مرتبہ اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں قاضی عسکر مقرر ہوئے اور شاہی شہزادوں کے استاد بھی بنے۔

ملا جیونؒ نے تقریباً پوری عمر علم و تدریس اور تصنیف و تحقیق میں گزاری۔ آخرکار 1130 ہجری بمطابق 1718 عیسوی میں آپ نے دہلی میں وفات پائی۔ آپ کا جسد خاکی واپس امیٹھی لایا گیا اور وہیں دفن کیا گیا۔

آج بھی برصغیر کے اہل علم ملا جیونؒ کو فقہ و اصول اور تفسیر کے میدان میں ایک درخشندہ ستارے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔



Post a Comment

0 Comments