Ayimma E Keram Aur Nasl E Nau Ki Zihan Sazi.. مولانا معصوم رضا ائمۂ کرام اور نسل نو کی ذہن سازی


                                                                                                 از قلم  محمد معصوم رضا نوری جامعی اتردیناج پور
     
 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم و بہ نستعین و الصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علی آلہ و صحبہ اجمعین
             زمانہ جتنا آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی اہمیت، عظمت اور حیثیت بھی بڑھتی جائے گی، ہر زندہ قوم، منظم تحریک اور کامل نظریہ نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے، کیوں کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ قوم و ملت کو چلانے، تحریکوں کو متحرک رکھنے اور نظریات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں  ہمیشہ نسل نو نے ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ کیوں کہ وہ بلند عزائم کے مالک ہوتی ہے، جہد مسلسل اور جفا کشی ان کا امتیازی وصف ہوتا ہے، بے پناہ صلاحیتیں ان میں پنہاں ہوتی ہیں، بلند پرواز ان کا اصل ہدف اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔
            وہ شاہین صفت ہوتی ہے ایک بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ساحل پہ کشتیاں جلانے کو تیار ہوجا تی ہے، وہ ہواؤں کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، میدان کار زار میں شکست کو فتح سے تبدیل کرنے کی قوت ان میں موجود ہوتی ہے، یہی نوجوان ہیں جو باطل پرستوں کے خیموں کو خوف و دہشت سے ہلا سکتے ہیں، یہ نوجوان ہی ہیں جو ہر قوم و ملت اور تحریک کے لیے امید کی واحد کرن ہوتے ہیں، اسی کرن کے سہارے اقوام اور تحریکیں آگے بڑھتی ہیں اور اہداف کے مختلف منازل طے کرتی ہیں۔
           اور یاد رکھیں! یہ طبقہ اس وقت قوم و ملت کے لیے کار گر ثابت ہو سکتا ہے جب اس پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے، یہ طبقہ تبھی ملت کے لیے سایہ دار اور ثمر آور درخت بن سکتا ہے جب ملت کا  ہر ہر فرد ان کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں اور ذرائع کو بروئے کار لانے کا تہیہ کرلے۔
           اس لیے لازم و ضروری ہے کہ ائمۂ کرام بھی نسل نو کی کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہن سازی کے لیے کوشاں رہیں اور انھیں ہر وقت اس بات سے باور کراتے رہیں کہ وہ قوم و ملت کا عظیم سرمایہ ہے جن سے دین و دنیا کے بےشمار کام لینے ہیں نیز انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور ان کی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کر کے معاشرے اور سماج کے لیے آئیڈیل اور مثال بنائیں۔
          کیونکہ ائمۂ کرام معاشرے کے لیے نعمت لازوال کے مانند ہیں اور ان کے فلاح و بہبود کے عظیم ذرائع ہیں۔ وہ مساجد کے ائمہ ہی تھے جنھوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت کا عظیم بیڑا اٹھایا اور بے شمار گم گشتگان راہ کو راہ ہدایت سے روشناس کرا کر دین اسلام کو سربلند رکھنے کے لیے انھیں نئے ولولوں اور حوصلوں سے آشنا کیا تاکہ وہ صحراؤں کو گلشن بنا دے اور آنے والی نسلوں کو جینے کا سلیقہ اور ڈھنگ سکھا دے اور ہمارے اسلاف کا طریقہ بھی یہی تھا کہ اگر کوئی نوجوان اخلاقی بے راہروی کا شکار ہوجاتا تو وہ اس کی روش بد کے انجام و عاقبت سے خبردار کرتے اور اسلامی تعلیمات و اخلاقیات سے انحراف پر اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکتے اور اپنے مواعظ حسنہ کے توسط راہ حق سے بھٹکنے نہ دیتے۔
           اس لیے ہمارے ائمہ حضرات کو بھی چاہیے کہ امت کی فلاح و بہبودی کے لیے مشورے کریں اور ان کے اندر مذہب اسلام کی خاطر ایثار و قربانی کا حوصلہ اور جذبہ پیدا کریں۔
نسل نو کی تربیت اور ان کی ذہن سازی کیسے کریں :
          ذیل میں ان کی بہترین تربیت اور ذہن سازی کے لیے چند باتیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں اگر ائمہ حضرات انھیں اپنائیں  تو کافی کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔
 اول:   بآپ جس محلے میں منصب امامت پر فائز رہیں اس کے نوجوانوں سے رابطے میں رہیں اور انھیں دین کی بنیادی باتوں سے روشناس کرا کر ان کے ایام زندگی کو اسلامی طرز پر ڈھالنے کی جدوجہد کرتے رہیں۔ ساتھ ہی انھیں ٹیوی، انٹرنیٹ، موبائل فون اور شوشل نیٹ ورکنگ کے ان تمام نقصانات اور جراثیم سے آگاہ کریں جو پوری قوم بالخصوص نوجوانوں کے لیے زہر ہلاہل کا کام کرتے ہیں اور ان کی اندرونی طاقت کو کھوکھلہ کر کے ان کی جسمانی صحت کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لے جاتے ہیں، جن سے نہ صرف ان کی دنیوی زندگی کی لذت ختم ہو جاتی ہے بلکہ اپنے ہی ہاتھوں اپنا توشۂ آخرت بھی ضایع کر دیتے ہیں۔
          اگر یہ طریقہ کار اپنایا جائے تو کافی حد تک ممکن ہے کہ وہ نوجوانان اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی 
تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں اور اپنے ذہن و دماغ اور باطنی خیالات کو بھی پاک و صاف رکھیں۔

دوم:  ائمہ کرام خطبۂ جمعہ کے لیے ان عناوین کا انتخاب کریں جو لوگوں کے دل و دماغ کو متأثر کرسکے، ان کے اندر دینی حمیت بیدار کرسکے اور ان کے نحیف و ناتواں بدن میں روح پھونک کر انھیں ایثار و قربانی کے جذبے سے ہمکنار کرسکے اور ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کو عام کریں جنھیں اپنی زندگی میں اتار کر اخروی زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کر سکے۔
  سوم:  انہیں بار بار اپنی تاریخ یاد دلائیں کہ مسلمانوں کی شان و شوکت کیا تھی؟ اور یہ بھی بتائیں ک جو لوگ اپنی تاریخ بھول جاتے ہیں صفحہ ہستی سے ان کے نام و نشان بھی مٹا دیے جاتے ہیں اور انھیں آگاہ کریں کہ اسلام کے جانثاروں نے کیسے دین اسلام کی تبلیغ و ارشاد اور ترویج و اشاعت کے لیے اپنی عزیز ترین جانوں کو راہ الہی میں قربان کر کے اسلام کی آبیاری کی؟ انھیں باور کرائیں کہ کیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑے بڑے سورماؤں کو اپنے پیروں تلے روند کر رکھ دیا اور جنگ خیبر کا نقشہ بدل دیا ؟ انھیں بتائیں کہ میدان کربلا میں قاسم و علی اکبر نے کس طرح اپنی بہادری کے جوہر دکھا کر یزیدیوں کو ان کی حقیقت یاد دلائی؟ انھیں صلاح الدین ایوبی کی عظیم شخصیت سے روشناس کرائیں کہ کیسے انھوں نے صلیبی طاقتوں کا قلع قمع کیا اور ان سے اسلام کے ان مقدس مقامات کو واپس لیا؟ جو انھوں نے ہمارے آبا و اجداد سے چھین کر قبضہ جمایا ہوا تھا، انھیں محمد بن قاسم کے اٹوٹ حوصلوں اور جذبوں سے آگاہ کریں کہ انھوں نے محض ١٨  سال کی عمر میں کیسے وادی ہند میں اپنے آتشیں اسلحے اور سیاسی پالیسیوں کے ذریعے کفار کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور دین محمدی کا چراغ روشن کرکے وہاں عظیم اسلامی سلطنت قائم فرمائی -

         الغرض ان تمام جانباز اور ہمت و حوصلہ کے مالک جاں نثاروں کے حقیقی داستانوں سے نسل نو کو مطلع کریں جن کی کتاب زیست کا ایک ایک ورق خزاں رسیدہ چمن کے لیے باد بہاری کے ایک خوش گوار جھونکے کے مانند ہے تاکہ ہمارے نوجوانوں میں بھی ہمت و حوصلہ اور جذبۂ ترویج و اشاعت دریا کے موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگے اور پھر سے ہماری وہ شان و شوکت ہمیں واپس مل سکے جسے مغربی تہذیب و تمدن نے ہم سے چھین لیا ہے اور ہمیں دوبارہ عزت و وقار کی زندگی میسر ہو۔
چہارم:    زندگی میں ناکامی، معاشی ناہمواریاں، بدعنوانیاں اور نا انصافیاں ایسے اسباب ہیں جو نسل نو کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیتے ہیں۔ یہ مسائل جب کسی بھی نوجوان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے، اس کے جذبات ماند پڑ جاتے ہیں اور وہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر ایسا منفی فکر و انداز بنا لیتا ہے جو اس کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
          ایسے حالات میں ائمۂ کرام کو چاہیے کہ نوجوانوں کو یہ سکھائیں کہ ناکامیاں زندگی کا حصہ ہوا کرتی ہیں، زندگی میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اس لیے کبھی ناامیدی کا شکار ہو کر دل برداشتہ نہ ہوں۔
        اگر ایسا کیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ ناامیدی کے بھنور سے نکل کر امید کے سائے تلے آئے اور اپنے ہدف کے حصول کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔
پنجم:  زندگی کے سفر میں انسان ہمیشہ ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا، کوئی دن اس کے لیے نویدِ مسرت لے کر آتا ہے تو کوئی پیام غم، کبھی خوشیوں اور شادمانیوں کی بارش برستی ہے تو کبھی مصیبتوں اور پریشانیوں کی آندھیاں چلتی ہیں، ان آندھیوں کی زد میں کبھی انسان کی ذات آتی ہے،  کبھی کاروبار اور کبھی گھر بار۔
         اگر ان مصیبتوں اور پریشانیوں کے گھیرے میں ہمارا نوجوان آجائے تو وہ صبر کا دامن چھوڑ کر ایسے اقدام کر بیٹھتا ہے جو ان کے پورے گھر والوں کے لیے نہ ختم ہونے والا غم اور درد بن جاتا ہے، اور اگر انھیں خوشی اور شادمانی میسر ہو جائے تو ایسا بدمست ہو جاتا ہے کہ نہ انھیں حدود الہی کا پاس و لحاظ رہتا ہے اور نہ انھیں اپنی عزت و وقار کا خیال آڑے آتا ہے۔
       ایسے موقع  پر ہمارے ائمۂ کرام ہمارے نوجوانوں کو صبر و شکر کا پاٹ پڑھائیں اور انھیں مطلع کریں کہ قرآن میں صبر کو تقرب الہی ، دین کی سرفرازی ، بہترین صلہ ، بے حساب اجر ، نصرت ربانی اور رب کی رحمتیں پانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ اور انھیں اس سے بھی آگاہ کریں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے کافروں نے آپ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، پتھر برسائے، راستے میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر معاذاللہ نجاستیں ڈالیں، ڈرایا، دھمکایا، برا بھلا کہا حتی کہ قتل کی سازشیں کیں۔ مگر کائنات کے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی کوئی ذاتی انتقامی کارروائی نہ کی خود بھی صبر سے کام لیا اور رہتی دنیا تک اپنے پیروکاروں کو مصائب میں صبر کی تلقین فرمائی۔
         اگرایسا کیا جائے تو ہمارے نوجوان جو کبھی اپنی ابھرتی اور نکھرتی ہوئی جوانی کو ضایع کر دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ تعالی  علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پرچلتے ہوئے خود کشی اور دگر بہت سی برائیوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔
         یہ چند باتیں تھیں جو تحریر کی گئیں ورنہ ائمۂ کرام ہر وہ طریقۂ کار اپنا سکتے ہیں جو پورے معاشرہ خاص کر نوجوانان اسلام کو احکام الٰہی کا پابند، ناموس رسالت کا پاسدار، تعلیمات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار اور دین اسلام کا شہسوار بنائے۔

         مولا تعالی ہمیں اور ہمارے جملہ علما اور ائمہ کو دین اسلام کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نوجوانوں کو اسلامی طرز پر زندگی گزارنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم


Post a Comment

0 Comments