شوشل میڈیا اور پڑھا لکھا طبقہ۔ مولانا معصوم رضا .Social Media Aur Padha Likha Tabqa

 
 *تحریر:-  محمد معصوم رضا نوری جامعی*
     
  *بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم و بہ نستعین و الصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علی آلہ و صحبہ اجمعین*



   معزز قارئین! 
    ہم اور آپ کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک کائنات میں ارتقا کا عمل جاری ہے ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلو میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور ہر شب جب کائنات کی فضا پر اپنی سیاہ چادرکشادہ کرتی ہے تو وہ کسی نئی حقیقت سے پردہ اٹھانے کا مژدہ سناتی ہے۔ ترقی کا یہ سفر جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری طاقت و قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری و ساری ہے، ذرائع ابلاغ میں کچھ ایسے ہیں جن کو ہم اور آپ "شوشل میڈیا" کہتے ہیں اس میں کچھ خاص ہیں جن میں واٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب، ٹیوٹر اور اسکائپ وغیرہ شامل ہیں۔
       لیکن یہ ایک بہتے  ہوئے سمندر کے مانند ہے جس سے ہیرے،جواہرت اور یاقوت و موتی بھی نکالے جا سکتے ہیں اور خش خاشاک بھی، اس میں سے صاف و شفاف پانی بھی لیا جا سکتا ہے اور گندہ و بدبو دار فضلہ بھی، اس سے دینی ، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی اور حاصل کی جا سکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ وبرباد کرنے والی چیزیں بھی، پر یہ کام وہی کر سکتا ہے جو علم و ہنر اور عقل و شعور والا  ہو کیوں کہ میری نظر میں لوگوں کو مفید چیزوں سے روشناس کرانا ہو یا نقصان دہ اشیا کے ذریعے انھیں اخلاقی زوال کا شکار بنانا، دونوں کام کے لیے علم و ہنر کا ہونا از حد لازم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی تعلیم یافتہ ہو تو وہ اچھا کام ہی کرے اور ہدایت پالے بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ ہو کر بھی  اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے بلکہ اپنے علم کے ذریعے دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنی آخرت خراب کر بیٹھتے ہیں اور کبھی کبھی گمراہ بھی ہو جاتے ہیں جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
    اسی لیے پڑھے لکھے طبقہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا صحیح طور پر استعمال کریں ۔
          اس کا استعمال کیسے کرنا ہے؟ اس پر کچھ روشنی ڈالنے سے قبل  یہ باور کرانا مناسب ہوگا کہ میری رائے کے مطابق علم و ہنر سے آراستہ لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔  چاہے وہ دینی علوم سے تعلق رکھتے ہوں یا دنیوی علوم سے، اور دونوں گروہوں کا طریقۂ استعمال الگ الگ ہونا چاہیے۔
   ایک وہ گروہ جو حصول علم میں مصروف ہے یعنی طلبہ و طالبات؛ وہ شوشل میڈیا کا استعمال صرف اس مقصد کے لیے کریں کہ انھیں اس سے کچھ سیکھنے کو مل سکے اور مکمل استفادہ کر سکیں، اور اب تو شوشل میڈیا تعلیم کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور جیسے ایک طالب علم کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے اور کلاس روم کی کمی کو پورا کرتا ہے، اسی طرح  ذرائع ابلاغ سے بھی تعلیم حاصل کر سکتا ہے اور اپنی صلاحیت کو پروان چڑھا سکتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی دیہات میں بیٹھے ہوئے طالب علم کے لیے بھی اس کے ذریعے مشرق و مغرب کی ماہر ترین اساتذہ سے کسبِ فیض کرنا ممکن ہو گیا ہے، بلکہ ہمارے ہندوستان میں لاک ڈاؤن اور کورونا  وائرس کی وجہ سے مدارس و کالجز بند ہونے کی بنا پر آن لائن تعلیم کا نظام  شروع کیا گیا اور کروڑوں طلبہ آج گھر بیٹھے کلاس روم کی کمی کو پورا کر رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہے ہیں۔
       یہ گروہ *یوٹیوب* کے استعمال سے بھی بہت  استفادہ کر سکتا ہے کیوں کہ اس پلیٹ فارم پر تقریباً اس طرح کی بے شمار ویڈیوز دستیاب ہیں جو علم کے کسی نہ کسی باب سے ضرور تعلق رکھتی ہیں مثلاً علمِ حدیث، علمِ فقہ، علمِ تفسیر، سائنس، انجینئرنگ، ڈاکٹری یا اس طرح کا کوئی بھی سبجیکٹ ہو آپ اسے سرچ کریں اور انھیں سنیں۔ لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ سننے کے لیے آپ جس کا انتخاب کریں وہ کوئی امتیازی شخصیت کے حامل اور ماہر اسکالر ہو کیوں کہ طلبہ و طالبات کی زندگی بنانے اور نکھارنے میں سکھانے والے کا اہم رول ہوتا ہے تو آپ جیسا ٹیچر چنیں گے آپ کو اس سے ویسا ہی استفادہ کا موقع فراہم ہوگا۔
         لیکن علومِ دینیہ اور اسلامی تعلیمات سے آگہی حاصل کرنے والوں کے لیے یہ بھی لازم و ضروری ہوگا کہ آپ سننے کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب کریں جو بہترین عالم ہونے کے ساتھ ساتھ سنی صحیح العقیدہ بھی ہوں تاکہ معلومات کے ساتھ ساتھ ایمان و عقیدہ بھی محفوظ رہے۔
       الحاصل طلبہ مذکورہ مفادات کے لیے شوشل میڈیا کا استعمال کر سکتے ہیں۔
      لیکن ان سب کے باوجود تعلیمی اور تعمیری مقاصد کی تکمیل کے لیے ان ذرائع سے استفادہ کے لیے ایک مختصر وقت محدود کرلیں، کیوں کہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنا دیتا ہے اور پیغامات کے تسلسل کی وجہ سے بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کے خوگر ہوجاتے ہیں کہ اصل ہدف سے آپ کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور لہو و لعب کی شکل اختیار کرجاتی ہے اور ساتھ ہی یہ چیز صحت کے نقطۂ نظر سے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔        دوسرا وہ گروہ جو علم و ہنر جیسی عظیم صفت سےمتصف ہو کر کچھ تو منصب درس و تدریس پر فائز ہیں اور کچھ عہدۂ قیادت و امامت پر، کچھ تحریر و تقریر میں مصروف ہیں اور کچھ دیگر علمی خدمات میں منہمک اور کچھ حضرات اس لائن سے ہٹ کر روزی روٹی کی تلاش میں مشغول ہیں۔
           بہر حال یہ گروہ شوشل میڈیا کا استعمال کیسے کرے ؟ اس کے متعلق چند باتیں سپرد تحریر کی جاتی ہیں؛
     بچوں، جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور عام مسلمانوں کی ضرورت کے لحاظ سے دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت کے لیے شوشل میڈیا کو آسانی کے ساتھ بہت مؤثر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں، جس کے لیے  چھوٹی چھوٹی ویڈیوز اور آئیڈیوز بناکر پبلک میں شیئر کریں تاکہ جو ان پڑھ طبقہ ہے انھیں سن کر دین اسلام کی حقانیت، اس کی تعلیمات اور ضروری مسائل سے باخبر ہو سکے ۔ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں جن میں زیادہ تر شوشل میڈیا کے راستے سے ہی کی جاتی ہیں، اسی کے ذریعہ مؤثر اور مدلّل طریقے پر ان کا رد کریں تاکہ وہ طبقہ جو اسلام اور علوم دینیہ سے ناآشنا ہے حقیقت سے واقف ہوجائے اور اپنی روح کو تازگی دے سکے ۔ اور کوشش یہ ہو کہ جس زبان میں غلط فہمیاں پھیلائی جائیں اسی زبان میں ان کی تردید ہو۔
       شوشل میڈیا پر اسلام ، پیغمبرِ اسلام، مسلمانوں کی تاریخ اور مقدس مقامات و شخصیات کے بارے میں ایسی نازیبا باتیں بھی آجاتی ہیں جو بجا طور پر ہر مسلمان پڑھے لکھے طبقے کے خون کو گرما دینے اور دل کو کَھولا دینے کے لیے کافی ہوتی  ہیں۔
       لیکن اس کے باوجود صبر، سنجیدگی اور متانت سے کام لیں اور ایسے جذباتی رد عمل کا اظہار نہ کریں جو نفرت کو بڑھاوا دے۔ اگر ناشائستہ باتوں پر اس طرح کے کمینٹس (Comments) کیے گئے تو جو لوگ اسلام، امن، سکون اور انسانیت کے دشمن ہیں ان کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ بجائے اس کے علم کی روشنی میں مدلل اور سنجیدہ طریقے پر اس کا جواب دیں اور ان کی باتوں پر ریمارک کریں، کیوں کہ جذبات و اشتعال انگیزی سے وہ لوگ کام لیتے ہیں جن کے پاس دلیل کی قوت نہیں ہوتی، اور جن کے پاس دلیل کا ہتھیار موجود ہو انھیں بے برداشت ہونے کی ضرورت نہیں۔
    ایسی خبریں لکھنے اور آگے بڑھانے سے بالکل پرہیز کریں جن سے اختلافات بڑھ سکتے ہوں اور لوگوں کے آپسی چپقلش میں مبتلا ہونے کا امکان ہو، اگر چہ وہ خبریں سچائی پر مبنی ہوں، اس لیے کہ جو سچ مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرتا ہو اور لوگوں کے درمیان نفرت کی بیج بوتا ہو اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا کام کرسکے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکے، یہی وجہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے حدیث میں جھوٹ بولنے کو جائز قرار دیا گیا۔
     جو کام عام حالات میں جائز نہیں ہے وہ شوشل میڈیا کے ذریعہ بھی نہ کریں مثلاً،جھوٹ بولنا، بہتان تراشی کرنا، لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت از بام کرنا، مذاق اڑانا، سب و شتم کے الفاظ لکھنا ، کہنا، ان سب کا شمار چوں کہ گناہ کبیرہ میں ہوتا ہے، لہذا ان تمام باتوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں تاکہ علمی وقار محفوظ رہ سکے۔
       شوشل میڈیا پر جو کچھ کہنا یا لکھنا ہے ان سب میں اسلام کو ترجیح ضرور دیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے وطن عزیز کی باتیں بھی لوگوں تک پہنچائیں، قوم کی ضروریات سے حکومت کو آگاہ کریں، برائیوں کا قلع قمع کیسے ہو ؟ اس کے لیے راستے ہموار کریں۔ الغرض ہر وہ کام جس سے آپ کی ذات نقطہ چینی کا نشانہ نہ بنے اور آپ کی اخروی زندگی پر آنچ نہ آئے وہ تمام خدمات شوشل میڈیا کے ذریعہ انجام دیں۔
         آخر میں شوشل میڈیا کے تمام صارفین سے کہنا چاہوں گا کہ ہم سب پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مذہبی تشدد عروج پر ہے اور سیاسی پالیسیاں انتہا کو چھو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ اختلافات پر مبنی مواد ایک دوسرے کو ارسال کرتے رہتے ہیں بلکہ عوام  میں شیئر بھی کردیتے ہیں۔ راقم نے اس نشے کے عادی فیس بک اور واٹس ایپ پر کئی پڑھے لکھے لوگوں کو دیکھا ہے جو اس قسم کی باتیں شوشل میڈیا پر کرتے ہیں۔ ہمیں اور آپ کو اس قسم کا مواد ارسال کرنے سے گریز کرنا ہوگا بلکہ کوشش کریں کہ پبلک میں شیئر کرتے ہوئے مہذب ہونے کا ثبوت دیں، کیوں کہ ہمیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ اس کے نتائج کتنے بھیانک ہوسکتے ہیں؟ اس سے آپس میں اختلافات جنم لیتے ہیں، اختلافات کی وجہ سے تخریبی سوچ پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور تحقیر و تذلیل کرنے جیسے عزائم فروغ پاتے ہیں، یوں ایک متحد دنیا منفی سیاست اور مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
      اس لیے کوشش کریں کہ ایسے لوگوں سے دوری بنائے رکھیں اور انھیں سمجھائیں کہ شوشل میڈیا پر ایسی کوئی  بات شیئر نہ کریں جو اختلاف و انتشار کا سبب بنے۔
       یاد رکھیں! آج ہمارے پاس وہ  ذرائع موجود ہیں جن سے ہم افادہ و استفادہ کا کام کر سکتے ہیں، اس شوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے اگر آج ہم نے کچھ بہتر نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں گالیاں دیں گی جو بات  ہمارے لیے باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔
        مولا تعالی ہم سب کو شوشل میڈیا کے صحیح استعمال کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برائیوں سے ہمیں محفوظ رکھے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم

Post a Comment

1 Comments

ماشاءاللہ شاء اللہ اچھا مقالہ ہے