اپنے شہر سے باہر کسی دوسرے شہر میں حصّہ لے کر قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟

کیا فرماتےہیں علماٸے کرام اس بارے کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حصہ والی قربانی میں حصہ لے کر قربانی کرنا جاٸز نہیں ہے اس لیے کہ یہ قربانی نگاہوں کے سامنے نہیں ہوتی ہے اور قربانی نگاہوں کے سامنے کرنا ضروری ہے تو کیاان لوگوں کی یہ باتیں صحیح ہیں؟ اگر صحیح نہیں ہیں تو جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ان پر شرعا کیا حکم ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں 

....

 *الجواب بعون الملک الوھاب* 

سوال میں مذکور لوگوں کی باتیں سراسر غلط،بےبنیاد اور بے ثبوت ہیں بلاشبہ ایسی غلط باتیں کرنا بےجاجرات اورشریعت مطہرہ پرنازیبا افترا ٕ ہےحدیث شریف میں ہے

*”اجرا ٕکم علی الفتیااجرا ٕ ٕکم علی النار“*

یعنی تم میں بغیر علم فتوی دینے پرجوزیادہ جری ہے وہ دوزخ کی آگ پر زیادہ جرات کرنے والا ہے-


حصے والی قربانی میں حصہ لیکر قربانی کرنا بلا شک و ارتیاب شرعاجاٸز ومباح ہے جیساکہ ترمذی شریف 

 میں ہے *"عن جابر قال نحرنا مع رسول اللہ ﷺ بالحدیبیة البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة وقال ابو عیسی ھذا حدیث حسن صحیح"_* 

یعنی حضرت جابررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نےحضورﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر ایک اونٹ کی قربانی سات آدمی کی طرف سے اور ایک گاٸے سات آدمی کی طرف سے کیے۔

حدیث مذکورہ سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ اگرکچھ لوگ گائے،بیل ،بھینس اور اونٹ وغیرہ میں مل کر قربانی کرنا چاہیں توکرسکتے ہیں بشرطیکہ تمام شرکاء کی نیت قربانی سےقربت ہو کسی کا مقصود محض گوشت نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ حصےوالی قربانی کرنا جاٸز ومباح ہے-


*اسی طرح جسکےنام سے قربانی کی جاتی ہے قربانی کرتےوقت ان کا سامنے موجود رہناکوٸی ضروری نہیں ہےفقط مستحب ہے(مستفاد فتاوی رضویہ جلد ہشتم )*


*فتاوی عالمگیری جلد پنجم الباب الرابع فیما یتعلق بالمکان والزمان صفحہ 296*

 *"ان الرجل اذا کان فی مصر واھلہ فی مصر آخر فکتب الیھم لیضحوا عنہ فانہ یعتبر مکان التضحیة فینبغی ان یضحوا عنہ بعد فراغ الامام من صلاتہ فی المصر الذی یضحی عنہ فیہ وعن ابی الحسن انہ لایجوز حتی یصلی فی المصرین جمیعا کذا فی الظھیریة"*

اور *اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا* کہ زید پردیس میں ہے اس کی جانب سے اس کا کوئی عزیز قربانی کردے تو فرض زید پر سے اترجائے گا یا اجازت کی ضرورت ہے ؟ *تو آپ رحمة اللہ تعالی علیہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ "اگر صراحةً یا دلالةً اجازت پا لی گئی تو قربانی ادا ہوجائے گی (ملخصاً فتاوی رضویہ جلد 9صفحہ نمبر 465)* 

*ان عبارات مذکورہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک شہر کا آدمی دوسرے شہر میں قربانی کراسکتا ہے چاہے وہ وہاں موجود رہے یا نہ رہے- جس شہر میں وہ اپنی قربانی کرا رہا ہے وہاں اس کا موجود رہنا شرعا کوئی ضروری نہیں ہے* ۔فقط واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم 


*کتبہ* 

*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی*

Post a Comment

4 Comments