غیر مسلموں کے حقوق اور مذہبی آزادی،تعلیمات قرآن کی روشنی میں ۔۔۔ قمر جامعی .Ghair Muslimon ke Huqooq Aur Mazhabi Azadi

دین اسلام پوری کائنات میں واحد ایسا مذہب ہے جس کی حقانیت،استقامت اور اعتدال وغیرہ کے الا ماشاء اللہ سب قائل  ہیں۔ اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ قرآن پاک جو اس دین کی مکمل نمائندگی کرتاہے،اس کا پورا نظام اسی کلام پاک کے زیر اثر عروج پاتا ہے۔یہ کتاب جو تمام انسانیت کیلئے ہدایت ہے اور دنیا و آخرت میں ان کے حقوق کا لازوال درس دیتا ہے،شرپسند عناصر نے اسے بھی ناپاک سازشوں کا حصہ بنانے میں کو ئی کسر باقی نہ رکھا۔ان بدبختوں کے پلید اعتراضات میں سے ہر دورمیں جس الزام و اعتراض کو سب سے اعلی مقام حاصل ہوا،اور لوگوں کو بہکانے میں کافی مدد ملی وہ یہ کہ؛ اس دین میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ تلواروں کی چمکتی دھار، اس کے عالمی پیمانے پر عام ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق بالکل ندارد تھے،نہ انہیں مذہبی آزادی میسرتھی اور نہ ہی ان کی خواتین محفوظ تھیں۔العیاذ باللہ۔   اس مختصر تحریر میں،ان شاء اللہ العزیز،ان بے بنیاد اعتراضات کا مفصل و مدلل جواب دیا جایگا۔

یہ درست ہے کہ اسلام اللہ تعالی پر بلا شرکت غیرے ایمان لانے کی ایک عالمگیر دعوت دیتا ہے،لیکن یہ دعوت اس بات کی ہے کہ لوگ دلائل کی روشنی میں بصیرت کے ساتھ قبول کریں۔اس کام کیلئے زبر دستی کی قرآن کریم نے واضح لفظوں میں ممانعت فرمائی ہے ارشاد ہے: لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی فمن یکفربالطاغوت ویؤمن باللہ فقداستمسک بالعروۃ الوثقیٰ۔دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے،ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔اب جو کوئی طاغوت کا نکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے مظبوط کنڈا تھام لیا۔(البقرہ ۶۵۲)  لہذا کوئی بھی غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔اور نہ اسلامی تاریخ میں کسی بھی اسلامی ریاست نے غیرمسلموں پر زبردستی کی ہے۔

چنانچہ جب غیر مسلم افراد اسلامی حکومت سے عہد وفا باندھ کر ریاست کے باشندے بن جائیں تو ان کی جان،مال اور آبروکا تحفظ اسلامی حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔اور ان کے شہری حقوق مسلمان شہری حقوق کے برابرہوجاتے ہیں۔ بلکہ اسلامی ریاست میں غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کی جتنی نگرانی کی گئی ہے،اس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں مل ہی نہیں سکتی۔اسلام ان تمام حقوق میں جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہو ں،بلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو،غیر مسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔قرآن ان غیر مسلموں کے ساتھ جو اسلام اور مسلمانوں سے بر سر پیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی سازشی سرگرمیوں میں مبتلا ہوں،خیر خواہی،حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دیتا ہے۔

لاینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین،ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروہم و تقسطواالیہم(الممتحنۃ۔۸)اللہ تعالی تم کواس بات سے منع نہیں کرتا ہے کہ ان غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کروجو دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں۔

تحفظ جان و مال
من قتل نفسابغیر نفس او فساد فی الارض فکانماقتل الناس جمیعاومن احیاھافکانمااحیاالناس جمیعا۔(المائدہ۔۳۲)  جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر نا حق) قتل کردیا،تو گویا اس نے (معاشرے کے)تمام لوگوں کو قتل ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر)زندہ رکھا تو گویا اس نے(معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔(یعنی اس نے حیات انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔
              ولا تقتلوالنفس التی حرم اللہ الا بالحق ومن قتل مظلومافقد جعلنالولیہ سلطانافلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا۔
                                                                                                           (الاسرا۔۳۳)
اور تم کسی جان کو قتل مت کرناجسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے،سواے اس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رو سے عدالت کے حکم کے مطابق)حق ہو،اور جو شخص ظلما قتل کردیا گیا تو بے شک ہم نے اس کے وارث کیلئے (قانونی ضابطے کے مطابق قصاص) کا حق مقرر کردیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے)قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے،بے شک وہ اللہ کی طرف سے مدد یافتہ ہے۔(سو اس کی قانو نی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی)
اسلامی ریاست کی اصطلاح میں غیر مسلم کو معاہد یا ذمی کہاجاتا ہے۔اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کی طرح پر امن رہنے کا عہد کرے تو معاہد کہلاتا ہے اور اسلامی ریاست میں اپنی جان،مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت کو سونپنے والا ذمی کہلاتاہے۔اسلام کو یہ قطعی منظور نہیں کہ اس کی ریاست کے تحفظ میں رہنے والا معاہد اور ذمی خود کو غیر محفوظ تصور کرے۔آقا علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے؛۔۔من قتل معاہدا لم یرح رائحۃالجنۃ،وان ریحھا توجد من مسیرۃ اربعین عاما(رواہ البخاری و ابن ماجہ)جس نے کسی معاہد(غیر مسلم شہری) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا،حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔ایک روایت میں ہے: من قتل رجلا من اہل الذمۃلم یجد ریح الجنۃ وان ریحھا لیوجدمن مسیرۃ سبعین عاما۔(رواہ احمد و نسائی)  حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی ذمی (غیر مسلم شہری)کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر برس کی مسافت پربھی سونگھی جا سکتی ہے۔
اسلامی ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں کے مال و جائداد کے تحفظ کی ذمہ دار ہوگی۔حق ملکیت سے انہیں بے دخل کیا جاے گا نہ ان کے جائداد پر ناحق قبضہ کیا جاے گا۔
عن خالد ابن ولید قال غزونا مع رسول اللہ ﷺ غزوۃ خیبر، فاسرع الناس فی حظائریھود،فامرنی ان انادی الصلوۃ،ثم قال ایھا الناس،انکم قد اسرعتم فی حظائر یھود۔الا لاتحل اموال المعاھدین الا بحقھا۔(رواہ احمد و ابو داؤد)
حضرت خالد بن ولید بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ خیبر میں موجود تھے۔لوگ جلدی میں یہود کے جانورں کے باڑوں میں گھس گئے۔آپ ﷺ نے مجھے نماز کیلئے اذان دینے کا حکم فرمایا۔نماز کے بعد آپ ﷺنے فرما یا:اے لوگوں تم جلد بازی میں یہود کے باڑوں میں گھس گئے ہو۔خبر دار! سواے حق کے غیر مسلم شہریوں کے اموال سے کچھ لینا حلال نہیں۔
طبرانی کی ایک روایت میں ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: الا! وانی احرم علیکم اموال المعاہدین بغیر حقھا۔غور سے سنو!۔میں تم پر غیر مسلم اقلیتوں کے اموال پر ناحق قبضہ کرنا حرام قرار دیتا ہوں۔

   اقوال سلف:
قال الامام النووی الشافعی فی شرحہ: فان مال الذمی و المعاھد و المرتد فی ھذٰ کمال المسلم۔(النووی فی شرح الصحیح لمسلم)۔۔۔امام نووی فرماتے ہیں؛یقینا غیر مسلم شہری،معاہد اور مرتد کا مال اس اعتبار سے مسلما ن کے مال ہی کی طرح قابل حفاظت ہے۔ امام ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:فان المسلم یقطع بسرقۃ مالہ(ابن قدامہ فی المغنی، ۹/۲۱۱)بے شک مسلما ن پر بھی غیر مسلم کا مال چوری کرنے پر حد عائد ہوگی۔
ْ قال الامام ابو محمد ابن حزم الظاہری:لا خلاف فی ان المسلم یقطع ان سرق من مال الذمی و المستامن۔(ابن حزم فی المحلی،۰۱/۱۵۳)  امام ابو محمد ابن حزم ظاہری فرماتے ہیں:علما کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے پر بھی مسلما ن پر حد جاری کی جاے گی۔
امام ابن رشد مالکی فرماتے ہیں:واما من طریق القیاس فانھم اعتمدواعلی اجماع المسلمین ان ید المسلم،تقطع اذا سرق من مال الذمی۔(ابن رشد المالکی فی بدایۃ المجتھد۔۲/۹۹۲)۔اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلما ن کسی غیر مسلم شہری کا مال چراے تو اس پر حد جاری کی جاے گی۔
امام حصکفی حنفی فرماتے ہیں: و یضمن المسلم قیمۃ خمرہ و خنزیرہ اذا اتلفہ۔(الحصکفی فی الدر المختار،۲/۳۲۲)  غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کی خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کرے گا۔
  تحفظ عزت و آبرو
مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیا جاے گا۔اسلامی ریاست کے شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جاے گی۔ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا،اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس،اس کے راز کو ٹوہنا، اسے مارنا،پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے جس طرح ایک مسلما ن کے حق میں ہے۔
و یجب کف الاذی عنہ و تحرم غیبتہ کلمسلم۔غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا۔(اکحصکفی فی الدر المختار،۲/۳۲۲)
ابن عابدین شامی غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے بارے میں لکھتے ہیں:لانہ بعقدالذمۃ وجب لہ مالنا،فاذاحرمت غیبۃ المسلم حرمت غیبتۃ،بل قالوا:ان ظلم الذمی اشد۔عقد ذمہ کی وجہ سے غیر مسلم کے وہی حقوق لازم ہیں جو ہمارے ہیں۔جب مسلمان کی غیبت حرام ہے تو غیر مسلم کی غیبت بھی حرام ہوگی بلکہ علما نے کہا ہے کہ غیر مسلم اقلیت پر ظلم کرنا مسلمان کے مقابلے میں زیادیاہ سخت گناہ ہے۔(ابن عابدین شامی فی رد المحتار،۳/۳۷۲۔۴۷۲)
قرآن کریم کی جن آیات مبارکہ پرقتل عام اور تشدد کو فروغ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔قرآن کریم اللہ کا مقدس کلام ہے،جس کا ہر لفظ انسانیت کو صحیح سمت دکھاتا ہے۔بہترین معاشرے کی تشکیل کا سبق سیکھاتاہے۔مسلم ہو یا غیر مسلم حسن معاشرت اور حسن سلوک کو ترجیح دیتا ہے۔ارشاد ربانی ہے: ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃو جادلھم بالتی ھی احسن،ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہ و ھواعلم بالمھتدین۔(النحل،۶۱/۵۲۱)
(اے رسول معظم!)آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو،بے شک آپ کا رب اس شخص کوخوب جانتا ہے جواس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو(بھی)خوب جانتا ہے۔
 
مذہبی آزادی۔۔
ذمیوں کو ان کے اعتقادات،عبادات اور مذہبی مراسم وشعائرمیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔اسلام میں ہر گز یہ اجات نہیں ہے کہ ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرے اوران کے کنائس،گرجوں،مندروں اور عبادت گاہوں کومنہدم کرے۔
وہ بستیاں جو امصار المسلمین میں داخل نہیں ہیں،ان میں غیرمسلم شہریوں کو صلیب نکالنے،ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی۔اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں،تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں،اور جو ان کے دین و دھر میں حرام ہیں،ان کے اعلانیہ ارتکاب سے انہیں روکا جاے گا۔خواہ امصارالمسلمین میں ہوں یا ان کے علاقے میں۔
قرآن اور احادیث میں مذکورہ احکام اس طرز پر بیان کئے گئے ہیں۔
ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوااللہ عدواً بغیر علم۔اور اے مسلمانوں تم ان جھوٹے معبودوں کو گالی مت دو جنہیں یہ مشرکین اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (جوابا)جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ تعالی کی شان میں دشنام طرازی کریں گے۔(الانعام،۶/۸۰۱)
ولوشاء ربک لاٰمن من فی الارض کلھم جمیعا،افانت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مؤمنین۔اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین آباد ہیں ایمان لے آتے،(جب رب نے انہیں مؤمن نہیں بنایا)تو کیا آپ لوگوں پر جبر کرینگے یہاں تک کہ وہ مؤمن ہوجائیں۔(یونس،۰۱/۹۹)
قل الحق من ربکم،فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفرانا اعتدناللظالمین نارا۔آپ فرما دیجئے کہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے،پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے،بے شک ہم نے ظالموں کیلئے (جہنم کی)آگ تیار کر رکھی ہے۔۔۔۔(الکھف،۸۱/۹۲)
ولولادفعُ اللہ ِ الناسَ بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوات و مسٰجدیذکرفیھا اسم اللہ کثرا۔اور اگر اللہ تعالی انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ ہٹاتا نہ رہتاتو خانقاہیں اور گرجے،کلیسے اور مسجدیں جس میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے مسمار اور ویران کردی جاتی۔(الغاشیۃ،۸۸/۲۲،۳۲)
الا من ظلم معاہدا او انتقصہ او خلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شئیابغیر طیب نفس،فانا حجیجہ یوم القیامۃ۔(سنن ابی داؤد)۔یاد رکھو! جس شخص نے کسی معاہد(غیر مسلم باشندے)پرکوئی ظلم کیا یا اس کی بے عزتی کی یا اس کی طاقت سے زیادہ اس کو کسی بات کا مکلف بنایا تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف وکالت کروں گا۔
عن عکرمۃ قال قیل لابن عباس:ا لِلعجم ان یحدثوا فی امصارالمسلمین بناًاو بیعۃ؟ فقال: ایمامصر مصرتہ العرب فلیس للعجم ان یبنوا فیھا بناءً،او قال:بیعۃ،ولا یضربو افیہ ناقوسا،ولا یشرب فیہ خمرا،ولا یتخذوا فیہ خنزیرا او یدخلوافیہ،ایما مصر مصرتہ العجم یفتحہ اللہ علی العرب و نزلوا یعنی علی حکمھم فللعجم ما فی عہدھم،وللعجم علی العرب ان یوفوا بعہدھم ولا یکلفوھم فوق طاقتھم              (اخرجہ ابن ابی شیبہ فی المصنف،۶/۷۶۴)

حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس سے سوال کیا گیا؛کیا مسلمانوں کے شہر میں عجمیوں (اہل ذمہ)کو نیا مکان اور عبادت گاہ تعمیر کرنے کی اجازت ہے؟حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا: جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ اس میں نیا مکان یا عبادت گاہ تعمیر کریں،یا اس میں ناقوس بجائیں،شراب پئیں اور خنزیر پالیں یا اس میں خنزیر لے کر آئیں۔باقی رے وہ شہر جو پہلے عجمیوں کے آباد کئے ہوئے ہیں اور جنہیں اللہ نے عربوں (مسلمانوں) کے ہاتھ پر مفتوح کیا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم پر اطاعت قبول کرلی ہے تو عجم یعنی ذمی غیر مسلموں کیلئے وہی حقوق ہیں جو ان کے معاہدے میں طے ہوچکے ہیں،اہل عرب پر ان کا ادا کرنا لازم ہے،اوریہ بھی کہ وہ ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دیں۔
  بیت المال سے غیر مسلم محتاجو ں کی امداد۔۔
صدقات واجبہ مثلا زکوٰۃ،فطرہ اور عشر وغیرہ کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کے ضروریات و حاجات سے،اسی طرح غیرمسلم ذمیوں کے ضروریات حاجات سے بھی ہے۔ان کے فقراء و مساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کیلئے اسلام بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام شہریوں کی خبر گیری کرے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گشت کے دوران ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نا بینا شخص کو دیکھا آپ نے اس کی پوشت پر ہاتھ رکھ کرپوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو؟اس نے کہا میں یہودی ہوں۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی؟اس نے کہا اداے جزیہ،شکم پروری اور بوڑھا پا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر اسے گھر لے آئے اور جو موجود تھا عطا کرنے بعد بیت المال کے خازن کو لکھا:
      '' یہ اور اس قسم کی دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔بخدا ہر گز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ اصول کریں اور بوڑھاپے میں انہیں بھیک کی ذلت کیلئے چھوڑ دیں۔قرآن کریم کی اس آیت(انماالصدقات للفقراء و المساکین) میں فقراء سے میرے نزدیک مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقرا اور غربا۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کر دیا''۔(اسلام کا اقتصادی نظام)
ایسی ڈھیر ساری مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں جن کا تعلق خاص مذہب سے نہیں بلکہ مکمل انسانیت سے ہے،بس ضرورت اس بات کی ہے کہ تعصب کا عینک اتارکراس کا گہرا مطالعہ کیا جاے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان شدت پسند عناصر کی ناپاک سازشوں کو ناکام کرے اور دین اسلام کو مزید عروج عطا کرے، آمین بجاہ سید الکونین والمرسلین۔

  از قلم۔۔۔۔محمد چاند علی قمرؔجامعی

Post a Comment

6 Comments

قابل مطالعہ مضمون
Way to jannah said…
عمدہ مضمون.. پڑھ کے دل باغ باغ ہوگیا
Unknown said…
اللہ زور قلم اور بھی زیادہ
Unknown said…
اللہ کرے زور قلم اور بھی زیادہ
Unknown said…
Excellent....... I like it
Unknown said…
Nice..and useful