کیا نماز کی صف نابالغ بچوں کی وجہ سے منقطع ہو جاتی ہے |
سؤال: (ا) کیا نماز کی صف نابالغ بچوں کی وجہ سے منقطع ہو جاتی ہے؟
(ب) صف منقطع ہونے سے کیا نقصان ہے؟
(ج) کتنے سال کا بچہ کھڑا ہو سکتا ہے؟
(د) زیدکا کہنا ہے کہ چار پانچ سال کا بچہ جو مسجد میں پیشاب وغیرہ نہیں کرتا ہے اس کے باپ کو چاہیے کہ وہ اسے مسجد میں ساتھ لائے، اور اس کو صف میں اپنے پاس کھڑا رکھے تاکہ وہ نماز سیکھ سکے۔دلیل اس نے یی دیا کہ,, بالکل بچپن میں حسنین کریمین مسجد میں آتے تھے اتنے چھوٹے تھے کہ چلتے چلتے گر جاتے تھے اور دوران نماز آقا کی پشت پر سوار ہو جاتے تھے،،کیا یہ استدلال دوست ہے؟برائے کرم تفصیل سے جواب عطاء فرمائے.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب ۔سب سے پہلے آپ صفوں کی ترتیب سمجھ لیں وہ اس طرح کہ صف اولین میں مرد اس کے بعد بچے پھر عورتیں، اور یہی سنت بھی ہے،مسلم شریف میں ہے:'' عن عبدالله بن مسعود قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم:"لیلی منکم اولوا الاحلام والنھی ثم الذین یلونھم ثلاثا،،(کتاب الصلاۃ،باب تسویۃ الصفوف،ج:١،ص:١٨١،ط:رضا اکیڈمی ممبئی)
فتاویٰ مصطفویہ میں ''غنیہ" سے ہے: ,,والسنة ان يصف الرجال ثم الصبيان،، (کتاب الصلاۃ،ج:١ ،ص:٢١٧،ط: امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)
مسؤلہ صورت میں اگر بچہ سمجھ دار ہے تو صف منقطع نہیں ہوگی،اور اگر بالکل ناسمجھ ہے تو بالغوں کی صف میں جہاں یہ بچہ کھڑا ہوگا،وہ جگہ خالی سمجھی جائے گی،اور یہ بہت بڑا گناہ ہے،اور صف منقطع ہونے کی وجہ سے سخت گناہ کے مرتکب ہونگے.
فتاوی مصطفویہ میں ہے:,, بالکل ناسمجھ بچے اگر بیچ صف میں ہوں گے تو یہ برا ہوگا جیسے کچھ کچھ فاصلہ سے آدمی کھڑے ہوں کہ یہ برا اور گناہ بھی ہے ،حدیث میں فرمایا: ,,تراصواالصفوف وسدواالخلل،،اور چھوٹے بچوں کے کھڑے ہونے میں یہ بات,,سد خلل،، گویا حاصل نہ ہوگی۔اس لیے اگر کوئی بچہ (بالکل نا سمجھ)کھڑا ہوجائے تو یا اسے پیچھے کر دیا جائے یا جو آتا جائے اسے ایک طرف ہٹا کر اس کی جگہ خود کھڑا ہوتا جائے مگر جب کہ وہ بچہ نماز سے واقف ہو اور ایسا ہو گویا مرد قریب البلوغ اسے نہ ہٹایا جائے ،،۔(المرجع السابق،ص: ٢١٦)
(ب) قطع صف حرام ہے، جس جگہ قطع ہوا اگر چہ ناسمجھ بچہ وہاں موجود ہو وہ خالی جگہ کے حکم میں ہے، حدیث میں اس کی بڑی مذمت بیان ہوئی ہے، سنن ابوداؤد شریف میں ہے:,,من وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله،،۔(کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف،ج:١ ،ص:٩٧ ،ط: مختار اینڈ کمپنی ناشران قرآن مجید و اسلامی کتب)
(ج) سمجھ والا بچہ صف میں کھڑا ہو سکتا ہے اگر ایک ہے تو صف میں ہی کھڑا ہو، اور چند ہیں تو بہتر یہی ہے کہ پیچھے کھڑے ہوں۔
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:,,یصف الرجال ثم الصبیان ظاھرہ تعددھم،فلو واحدا دخل الصف،،۔(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ،ج:٢ ،ص: ٣١٤ ،ط: مکتبہ زکریا،دیوبند)
(د) زید کا حدیث مذکور سے استدلال درست نہیں ہے ،کیونکہ مسجد میں بچوں کو لانا الگ بات ہے اور ان کو صف میں اپنے پاس رکھنا الگ بات ہے، نسائی شریف میں ہے:,,فتقدم رسول الله صلی الله علیه وسلم فوضعه،،یعنی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امامت کے لیے بڑھےتو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (امام حسن یا حسین رضی اللہ عنہما،شک راوی )ایک کونے میں بیٹھا دیا، اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ چار، پانچ سال کے بچہ کو صف میں اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے؟
دوم یہ کہ چار پانچ سال کا بچہ عموما ناسمجھ ہوتا ہے،اور نا سمجھ بچہ کو درمیانی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتاہے۔اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:,, نابالغ کو بالغین کی صف میں پیچھے کھڑا ہونا چاہیے، جنہوں نے بچوں کو صف سے جدا کر کے پیچھے کھڑا ہونے کو کہا انہوں نے صحیح کیا۔جس نے ضد کی ،اس نے بےجانا روا ہٹ کی، ناحق مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوا،،۔( فتاویٰ مفتی اعظم،کتاب الصلاۃ،ج:٣ ،ص: ٧٠ ،ط: امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)
رہی بات نماز سیکھنے کی تو جس طرح مردوں کی صف میں کھڑا رہ کر نماز سیکھی جا سکتی ہے، اسی طرح پیچھے نابالغوں کی صف میں کھڑا ہو کر بھی نماز سیکھی جا سکتی ہے ، نیز احادیث اور اقوال فقہاء سے بھی یہی ثابت ہے کہ بچوں کی صف پیچھے ہو۔
والله أعلم۔
کتبه: محمد گلزار احمد علائی مصباحی،کٹیہاری
١٢/ربیع الآخر ١٤٤٣ھ
0 Comments