مختصر سوانح حیات، فقیہ اہل سنت حضرت مفتی آل مصطفیٰ صاحب علیہ الرحمہ

فقیہ اہل سنت حضرت مفتی آل مصطفیٰ صاحب علیہ


اسم مبارک: آل مصطفی لقب: فقیہ اہل سنت. 

ولدیت: مولانا محمد شہاب الدین اشرفی لطیفی مد ظلہ العالی

 نسب نامہ: آل مصطفی بن مولانا محمد شہاب الدین بن منشی نجابت حسین صدیقی ولادت: آپ کی ولادت ۷ ٫۲ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو آپ کی نانیہال ”شہینہ میں ہوئی، یہ علاقہ بار سوئی ضلع کٹیہار صوبہ بہار میں واقع ایک دیہی مگر معروف گاؤں ہے ۔ تعلیمی میدان میں : آپ کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی ، جہاں آپ نے حضرت منشی محمد طاہر حسین صاحب کٹیہاری سے قاعدہ بغدادی اور عم پارہ کا درس لیا۔ فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم حورا سونا پور ، ضلع کٹیہار میں ہوئی ، درجہ ثانیہ کی تعلیم مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ  ضلع مئو میں حاصل کی اور ثالثہ و رابعہ الادارة الاسلامیہ دارالعلوم حنفیہ کھگڑ ضلع کشن گنج بہار میں مکمل کیے۔ اس کے بعد آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لے کر اپنی علمی تشنگی بجھانے لگے ، آپ نے یہاں درجہ خامسہ سے درجہ ثامنہ تک چار سال تعلیم حاصل کی اور ۱۹۹۰ء میں دستار فضیلت سے نوازے گئے ، آپ نے درس نظامی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مشق افتا کا بھی کورس مکمل فرمالیا۔

آپ نے جن علماو مشائخ سے کسب علم وفضل کیا ان میں سے چند نمایاں اسامہ ہیں

حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی قادری، حضرت مولانا محمد اعجاز احمد مصباحی علیہ الرحمہ،علامہ عبد الشکور صاحب، حضرت نصیر ملت مولانا محمد نصیر الدین صاحب ، حضرت صدر العلما علامہ محمد احمد مصباحی، حضرت سراج الفقها مفتی محمد نظام الدین رضوی، حضرت مولانا اسرار احمد مصباحی، حضرت مولاناشمس الہدی مصباحی ، خطیب محقق حضرت مولانا عبدالحق رضوی، فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن مضطر نوری اور والد گرامی حضرت مولانا محمد شہاب الدین اشرفی دامت فیوضہم ۔ فتوی نویسی کی تربیت فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے حاصل کی ۔

بیعت و خلافت: آپ کو حضور سرکار کلاں سید شاہ مختار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ سے بیعت و ارادت کا شرف حاصل ہے اور شیخ الاسلام حضرت سید شاہ محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی نے آپ کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ہے ۔ درس و تدریس: جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت اور مشق افتا کی تکمیل کے بعد اکتوبر ۱۹۹۰ء کو آپ اپنے استادگرامی حضرت محدث کبیر کے حکم پر تدریس وافتا کی خدمات کے لیے جامعہ امجدیہ گھوی تشریف لاۓ اور 1990ء سے لے کر تا دم حیات مسلسل  پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔

فتوی نویسی: آپ یوں تو مختلف علمی و فنی میدانوں میں کمال رکھتے تھے ۔لیکن آپ کا خاص میدان فقہ وافتا تھا ۔ آپ اس میدان میں نہایت ممتاز و نمایاں ہیں ۔اب تک آپ نے ہزاروں فتاوی تحریر فرماۓ اور اپنی زندگی کی آخری لمحات تک تسلسل کے ساتھ فتوی نویسی کا کام جاری و ساری رکھے ۔ جماعت اہل سنت کے ایک مؤقر رسالہ ’’ماہنامہ جام نور “ کے مستقل کالم ”شرعی عدالت میں ایک زمانے تک آپ کے گراں قدر تحقیقی فتاوی شائع ہوتے رہے ہیں ، ۔علاوہ ازیں شعبہ تخصص فی الفقہ کے طلبہ بھی برابر آپ سے فقہ وافتا کی تربیت لیتے اور فتوی نویسی کی مشق کرتے رہے ۔اس طرح سے اس میدان میں آپ کی شخصیت عدیم النظیر تھی۔

تصنیفات و تالیفات: آپ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی نمایاں نظرآتے تھے ۔ اب تک آپ کے قلم سیال سے مختلف عناوین و موضوعات پر تقریبا دو سومضامین و مقالات معرض وجود میں آچکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد علمی و تحقیقی کتابیں آپ کے رشحات قلم سے معرض تحریر میں آچکی ہیں ، ان کے علاوہ بہت سی کتابوں پر آپ کے حواشی و تعلیقات ، تقاریظ و مقدمات اور تاثرات و تبصرے منصہ شہود پر آچکے ہیں ، جن کی تفصیل کچھ یوں ہیں:

مطبوعہ تصانیف :

اسباب ستہ اور عموم بلوای کی توضیح و تنقیح، مختصر سوانح صدر الشریعہ علیہ الرحمہ، بیمہ زندگی کی شرعی حیثیت کنزالایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ * منصب رسالت کا ادب و احترام، روداد مناظرہ بنگال * خطبہ استقبالیہ صدر الشریعہ سیمینار مطبوعہ و مشمولہ ’’صد رالشریعہ حیات و خدمات، بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول، نقشہ دائمی اوقات صلاۃ براۓ گھوسی، مسئلہ کفاءت عقل و شرع کی روشنی میں * تقدیم و ترجمہ عربی عبارات "فقه شهنشاه و أن القلوب بيد المحبوب بعطاء الله المعروف بہ شہنشاہ کون؟ (امام احمد رضا قدس سره) * ترجمه و تقديم "مواهب ارواح القدس لكشف حكم العرس“۔(ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ۔)

تعلیقات و حواشی: منير التوضيح (عربی حاشیه بر "التوضيح في حل غوامض التنقيح “) تعليق و تحشیہ فتاوی امجد یہ جلد سوم اور جلد چہارم اور ان دونوں پر آپ کے گراں قدر اور قیمتی مقدمات بھی ہیں ۔ حاشیہ شرح عقود رسم المفتی۔ (زیر طبع)

درج ذیل کتابوں پر آپ کے گراں قدر اور قیمتی مقدمات ہیں:

 نزول آیت فرقان در رد حرکت زمین و آسمان (امام احمد رضاقدس سره)، بہار شریعت ( مصنف صدر الشریعہ علامہ امجد علی علیہ الرحمہ ) ، جامع الرضوى المعروف بہ صحیح البہاری (ملک العلما علیہ الرحمہ)، تعلیقات الامام احمد رضا علی تقریب التہذیب للامام ابن حجر عسقلانی، اجماع وقیاس کی شرعی حیثیت ، نور الہدی فی ترجمہ المجتبی، (حضرت عبدالرحمن سر کار محبی علیہ الرحمہ )۔ روداد مناظرہ بنگال ( یہ خود آپ کی مرتب کردہ ہے )، اہل قبلہ کی تکفیر ( فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی)،رسالہ چاند کی رویت ۔ اصول افتا( عربی سے ترجمہ ، مترجم: مفتی دلشاد احمد صاحب)۔ 

علمی مذاکروں میں شرکت:

حضرت مفتی صاحب دام ظلہ بہت سے علمی مذاکروں اور فقہی مجلسوں میں شرکت فرماچکے ہیں ۔ چناں چہ اب تک آپ جن سیمیناروں میں شریک رہے ، ان کی فہرست یہ ہے:

مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سیمینار * مجمع الفقہ الاسلامی دہلی کے تین سیمیناروں میں بحیثیت سنی نمائندہ شرکت * پہلا سیمینار دارالعلوم ماٹلی ولا بھروچ گجرات. دوسرا سیمینار جامعۃ الہدایہ ، جے پور ، راجستھان * تیسرا فقہی سیمینار مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ. فقہی سیمینار بورڈ دہلی سبھی ساتوں سیمیناروں میں شرکت. اسلام اور تصوف سیمینار. مدرسه فیض الرسول ،ر چھا، بریلی شریف. تین روزہ مجلس شرعی کے فیصل بورڈ کا سیمینار مرکزی دارالافتاء بریلی شریف. صدرالشریعہ سیمینار گھوسی. اصلاح معاشرہ سیمینار ، الجامعۃ الاشرفیہ، سکٹھی ، مبارک پور. تاج الفحول سیمینار: خانقاه قادریہ ، بدایوں شریف. تذکرہ اسلاف سیمینار ۔ ادارہ افکار حق ، بائسی پورنیہ بہار. تین روزہ امام اعظم سیمینار ، گوونڈی ممبئی. سر کار اس سیمینار : بمقام : دارالعلوم طیبیہ معینیہ ، منڈواڈیہ ، بنارس * ہمدر دیونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقد سیمینار میں شرکت. ادارۂ شرعیہ ، پٹنہ ، بہار کے زیر اہتمام منعقد سیمینار میں شرکت. خانقاہ صدیہ پھپھوند شریف کے زیر اہتمام حافظ بخاری علامہ عبد الصمد چشتی سیمینار * صدر الشریعہ اور خدمت حدیث سیمینار (کشف الاستار کے حوالے سے ) جامعہ امجد یہ گھوی * مسائل قضا سے متعلق سیمینار ، جامعہ قادریہ، دودھی ، سون بھدر۔

وعظ و خطابت:   آپ کی خطابت کا بنیادی عنصر ، مسلک اہل سنت و جماعت کی ترویج واشاعت ، اصلاح معاشرہ اور فرقہاۓ باطلہ کار دو ابطال ہے ، چناں چہ وہابیہ دیابنہ اور روافض و غیر مقلدین کے رد میں متعدد کامیاب تقریریں ہو چکی ہیں ، گھوسی میں مشہور دیوبندی مولوی طاہر حسین گیاوی کے جواب میں کئی بار کامیاب تقریریں ہوئی ہیں ، محمد آباد گوہنہ میں دیوبندی مولوی عبد الملک بھوجپوری کے جواب میں تقریبا دو گھنٹے آپ کی مدلل تقریر ہوئی اور آپ کے انعامی چیلنج کے باوجود کوئی دیوبندی جواب کے لیے سامنے نہ آسکا ، اسی طرح اعظم نگر ضلع کٹیہار میں دیوبندیوں کے رد میں اور سنی دیو بندی اختلافات پر آپ نے بڑی محققانہ اور مدلل ومفصل تقریر فرمائی ، جس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور خود کو دیوبندی کہلانے والےحضرات دیو بندی مولویوں کو برا کہنے لگے ۔

بدمذہبوں سے مناظرہ:   حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کو مذہبی حمیت کے پیش نظر ، بد عقیدوں سے مناظرہ و مکالمہ کا بھی بڑا شوق تھا ، اس لیے احقاق حق و ابطال باطل کی خاطر آپ مناظروں میں بھی شرکت فرماتے رہے ۔ آپ نے اب تک مناظرے کے نام پر چار پروگرام میں شرکت فرمائی ہے ، لیکن ان میں سے صرف دو ہی پروگرام میں مناظرہ ہوا ، باقی دو میں علماے اہل سنت تو پہنچے مگر دیوبندی مولویوں نے راہ فرار اختیار کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور مناظرہ گاہ میں حاضر نہ ہوۓ ، اتفاق سے یہ دونوں مناظرے بنگال میں ہوۓ تھے۔ پہلا پروگرام جس میں مناظرہ ہوا وہ بھی شام پور ، راۓ گنج بنگال کا تھا۔ یہ مناظرہ سنی دیو بندی اختلافات سے متعلق تھا۔ سنیوں کے مناظر مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی دام ظلہ اور دیوبندیوں کے مناظر مولوی طاہر حسین گیاوی تھے ، اور آپ اس پروگرام میں معاون مناظر کی حیثیت سے شریک تھے ، بحمدہ تعالی اس مناظرے میں اہل سنت و جماعت کو فتح نصیب ہوئی ، اور دیوبندیوں کو شکست ہوئی۔

دوسرا عظیم مناظره ٫۸ مئی ۲۰۰۵ء کو ملک پور ہاٹ ضلع کٹیہار ، بہار میں ہوا، یہ مناظرہ ”تحذیر الناس “ کی کفری عبارات کے رد میں تھا، اس میں صدر مناظرہ محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری دام ظله ، مناظر مفتی مطیع الرحمن مضطر صاحب قبلہ تھے اور آپ معاون مناظر کی حیثیت سے تھے ۔ بحدہ تعالی اس میں بھی فتح و کامرانی کا سہرا سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے سر رہا اور بدمذ ہبوں کو شکست وہزیمت سے دو چار ہونا پڑا۔

فروغ رضویات

حضرت مفتی صاحب دام ظلہ نے فروغ رضویات کے حوالے سے بہت سے قابل قدر کار نامے انجام دیے ہیں، آپ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی شخصیت سے حد درجہ متاثر ہیں اور ان کے ذکر کو ہمیشہ حرز جاں بناتے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے علمی و تحقیقی مضامین و مقالات اور فتاوی و تصنیفات میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے کتب و سائل اور فتاوی سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں اور ان کی بلند پایہ شخصیت سے ارباب علم وفضل کو روشناس کراتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی اس ضمن میں آپ کے مستقل کارنامے ہیں جنہیں ذیلی سطور میں پیش کرنے کی سعی کی جار ہی ہے ۔

کنزالایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ:

یہ در اصل آپ کا ایک تحقیقی مضمون ہے جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ آپ نے اس رسالہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے ترجمہ قرآن کنزالایمیان “ پر دیوبندیوں کی طرف سے ہونے والے بےجا اعتراضات کا علمی و تحقیقی محاسبہ فرمایا اور ان کی ہفوات و خرافات اور ہرزہ سرائیوں کا قلع قمع کر کے ”کنزالایمان“کے محاسن و کمالات میں مزید چار چاند لگا دیا ہے۔

 تقدیم ، تعليقات الامام احمد رضا علی تقریب التہذیب“؛تقریب التہذیب ‘‘فن رجال میں علامہ ابن حجر عسقلانی کی تصنیف ہے ، اس پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے جابجا حواشی و تعلیقات تحریر فرماۓ تھے ، جسے پہلی بار پاکستان سے شائع کیا گیا ہے اس پر عربی زبان میں آپ تفصیلی مقدمہ ہے.


مختصر سوانح حیات، فقیہ اہل سنت حضرت مفتی آل مصطفیٰ صاحب علیہ الرحمہ
مختصر سوانح حیات، فقیہ اہل سنت حضرت مفتی آل مصطفیٰ صاحب علیہ الرحمہ 

 "منیر التوضيح" میں فتاویٰ رضویہ کے اقتباسات کی تعریف :   اصول فقہ کی مشہور و معروف کتاب "التوضيح" پر آپ کا حاشیہ المسمی بہ "منیر التوضيح" ہے، آپ نے اس میں فتاویٰ رضویہ کے بہت سے اقتباسات کی تعریب فرمائ ہے، جس سے امام احمد رضا کی فقہی بصیرت اور فتاویٰ رضویہ کا فقہی مقام و مرتبہ بخوبی اجاگر ہوتا ہے.

وصال:   10 جنوری 2022 رات 12:30 منٹ پر اپنے آبائی وطن میں واصل بحق ہوئے. اللہ ان کی دینی، خدمات قبول فرما ان کے درجات بلند فرمائے آمین

Post a Comment

2 Comments

Abdul Barik said…
ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ حضرت

اللہ تعالٰی مفتی صاحب کو اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
Unknown said…
آمین ثم آمین