سوال : کیا فرماتے ہیں علماۓ دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ قبر پر اذان دینا جائز ہے یا ناجائز ؟ اوراس اذان سے صاحب قبر کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں؟ ایک بنڈل باز ملا بغیر علم کے فتوی دیتا ہے کہ اذان صرف نماز پنجگانہ کے لیے ہے اور اس کے علاوہ کہیں جائز نہیں؟ کیا یہ قول ملا کا درست ہے اور جو بغیرعلم کے فتوی دیتا ہے ۔اس کے لئے کیا حکم ہے؟
الجواب : میت کے دفن کرنے کے بعد قبر کے قریب اذان دینا جائز بلک محبوب و مستحب ہے اور بالیقین اس اذان سے میت کو نفع اور فائدہ پہنچتا ہے ۔ بنڈل باز ملا کا قول باطل محض ہے ۔ نماز پنجگانہ کے علاوہ اور موقعوں پر بھی اذان جائز ومستحب ہے، کیا اس ملا کو یاد نہیں اور معلوم نہیں کہ ہر مسلمان کے گھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دی جاتی ہے ۔ ردالمختار شامی جلد اول ص۲۸۲ میں ۔
(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات والا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر للخير الرملي؛ رأيت في كتـب الشـافـعـيـة أنـه قـد يسن الأذان لغير الصلوة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، و من ساء خلقه من انسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل و عند انزال الـمـيـت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح اللباب، وعند تغول الغيلان : ای عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه اقول: ولا بعد فيه عندنا.
( ان کا قول دوسرے مقامات پر اذان مسنون نہیں ) یعنی فرض نمازوں کے علاوہ ۔ ورنہ نومولود کیلئے مستحب ہے۔ خیرالرملی کی حاشیہ البحر میں ہے ۔ میں نے شافعی حضرات کی کتابوں میں دیکھا کہ اذان نماز کے علاوہ مواقع پر بھی سنت ہے ۔جبیسا کہ نومولود ،مصیبت زدہ ،مرگی والا، مغلوب الغضب، بدخلق انسان، خطرناک جانور، لشکر کے ازدہام اور آتش زدگی وغیرہ ..... ایسے مواقع ہیں جہاں اذان سنت ہے ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ میت کو قبر میں ڈالا جاۓ تو اس وقت بھی اذان کہی جاے ۔ اس کے دنیا میں آنے کے وقت اذان پر قیاس کر تے ہوۓ ۔لیکن ابن حجر نے اس کا رد کیا ہے ۔ شرح اللباب کے اندر ۔۔۔۔۔اور جنات کی سرکشی کے وقت بھی اذان کہنا مستحب ہے ۔ اس بارے میں صحیح روایت ہے ۔ میں کہتا ہوں ہمارے نزدیک اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ۔
اس میں چند سطر کے بعد ہے ۔
وزاد فـي فـي شـرعة الاسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر أي خالية من الناس ، وقال الملا على في شرح المشكوة قالوا: يسن للمهموم أن يامر غيره أن يوذن في أذنه فانه يزيل الهم، كذا عن على رضى الله تعالى عنه ونقل الاحاديث الواردة فی ذالک فراجعه اه.
شرعۃ الاسلام میں یہ اضافہ کیا’’ جوشخص بیابان میں بھٹک گیا ، جہاں کوئی انسان نہیں، اذان مستحب ہے ۔ ملاعلی قاری نے شرح مشکوۃ میں کہا۔’’ علماء کا قول ہے کہ مصیبت زدہ کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ دوسرے سے کہے کہ میرے کان میں اذان کہو، کیونکہ یہ غم دور کرتی ہے ۔ ایسی ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور اس سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث نقل کی گئی ہیں‘‘ وہاں دیکھ سکتے ہیں ۔
مسئلۂ اذان عند القبر کی مکمل تفصیل اور اس مسئلہ کی مدیل تحقیق اعلی حضرت امام اہل سنت فاضل بریلوی قدس سره العزیز کے رسالہ ایذان الاجرفي اذان القبر ‘‘میں ملاحظہ کیجئے اور مذکورہ بالا بنڈل باز ملا کو شامی کی عبارت مسطورہ اور رسالۂ مذکورہ دکھا کر کہئے کہ وہ اپنی نادانی و جہالت پر آٹھ آنسو بہاۓ اور اس سے بھی تسلی نہ ہوتو اپنا سر پیٹے اور بغیر علم فتویٰ دینے کے متعلق جو وعید آئی ہے ، اس حدیث کا مضمون بھی سنا دیجئے ۔ سرکار کا فرمان ہے کہ جو بغیر علم کے فتوی دے گا بروز قیامت اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جاۓ گی ۔واللہ تعالی اعلم۔
حبیب الفتاوی
0 Comments