سلطان الاولیاء، شیخ المشاءخ،حضور شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کا تعارف

نام...............سید جلال الدین

جاۓ پیدائش: ...........تبریز

تاریخ ولادت............٥٤٢ھ

نسب......................قریشی

لقب وکنیت:.............سلطان الاولیا، شیخ المشایخ، گنج رواں، گنج بخش،ابوالقاسم

والد گرامی..............شیخ محمد

تعلیم و تربیت..........ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی پھر سات سال بخارا میں تعلیم وتربیت حاصل کی.

بیعت و ارادت:........حضرت شیخ ابوسعید تبریزی.

خلافت و اجازت :.....حضرت شیخ ابوسعید تبریزی ، شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی 

خدمت مرشد و راہ سلوک : سات سال تک حضرت شیخ الشیوخ کی بے مثال خدمت کی اوران کے زیر سایہ راہ سلوک طے کی ۔

سلسلہ طریقت:........سہروردی.

کمالات :...............عالم، عارف ، تارک السلطنت ،مصنف،صاحب ولایت بناگالہ وغیرہ.

سیر و سیاحت :.......تبریز، بغداد،نیشاپور، خراسان ، ملتان ،غزنی ، دہلی، بدایوں، بہار ، بزگال

بنگال ورود مسعود : ١١٩٧ء، بروایت دیگر ۱۱۹۵ءاور ۱۲۰۰ء کے درمیان آپ نے سینکڑوں خانقا ہیں اور چلہ خانے قائم فرماۓ لیکن بینڈ وہ شریف اور د یو تالہ کی خانقاہ اور چلہ خانے کو سب سے زیادہ شہرت ملی ۔ آج بھی وہ چلہ خانے ان دونوں مقام میں اپنی اصلی صورت پر باقی ہیں۔

مشہور خلفاء :.......شیخ علی مولی ،شیخ برہان الدین صاحب زادہ قاضی کمال الدین جعفری اور سینکڑوں ارباب معرفت وطریقت۔

مریدین :..............لاکھوں فرزندان توحید آپ کے دست حق پرست پرمرید ہوۓ ۔

تصانيف :.............آپ کی طرف دو رسالے منسوب ہیں (۱) شرح نود و نہ نام کبیر (۲) مرآۃ الاسرار ۔

خدمات:...............آپ بنگال کے اولین داعی اسلام ہیں ۔ آپ کی دعوت وتبلیغ کے سبب لاکھوں گمگشتگان راہ کو ہدایت ملی اور سینکڑوں فرزندان توحید معرفت و تصوف کے امام ہوۓ۔

بنگال میں سلسلۂ سہروردی کی آمد : بنگال میں آپ کے توسط سے سلسلہ سہروردیہ پہنچا اور لاکھوں فرزندان توحیداس سلسلہ میں داخل ہوئے ۔

وصال پر ملال: ............٦٤٢ھ.

مزار پرانوار:..............کوہ کوچک، علاقہ کامروپ، صوبہ آسام.


مختصر حالات

مجمع البحرین، تارک السلطنت ، شیخ المشایخ ، گنج رواں ، گنج بخش ابوالقاسم حضرت سید جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ اپنے زمانہ کے قطب ، عارف باللہ اور صاحب اسرار بزرگ تھے ۔

ولادت باسعادت: آپ ایران کے مشہور شہرتبریز کے ایک شاہی گھرانے میں ٥٤٢ ھ میں پیدا ہوۓ اور آپ نے وہیں نشو ونما پائی ۔

والد ماجد: بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ کے والد گرامی شیخ محمد تھے جو اپنے عہدکے مشہور صوفی اور قریش الاصل تھے.


سلطنت:ظاہری علوم میں کمال حاصل کرنے کے بعد تبریز کے والی سلطنت ہوۓ ، جو آپ کو وراثت میں ملی تھی ۔ آپ نے بڑی شان وشوکت اور جاہ وجلال کے ساتھ امور سلطنت انجام دیے ، جس کی وجہ سے آپ ظاہری طور پر بھی بڑے وقار اور متانت کے ساتھ رہتے تھے۔ نہایت حسین و جمیل لباس زیب تن فرماتے تھے ۔ آپ کے رعب و جلال کا عالم یہ تھا کہ لوگ آپ سے آنکھیں ملا کر باتیں کرنے اور سامنے گزرنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔

بیعت وارادت : شیخ جلال الدین تبریزی اپنے شہر کے بلند پایہ بزرگ اور اعلی درجہ کے تارک الدنیا شیخ ، حضرت بدرالدین ابوسعید تبریزی کے دست حق پرست پر مرید ہوۓ ۔ انہوں نے آپ کو اجازت و خلافت بھی عطافرمائی ۔ چنانچہ خواجه نصیرالدین دہلوی تحریر کرتے ہیں: ’’جناب خواجہ ( نظام الدین اولیا) نے فرمایا یہ شخ جلال الدین تبریزی تو خود مرید شیخ ابوسعید تبریزی کے ہیں۔ مرتاض کامل الحال ان کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور بیعت کی ،ان کی مریدی سے قبل کمال حاصل ہو چکا تھا۔ فی الحال خلافت اور اجازت پائی‘‘۔ آپ کے والد کو بھی حضرت شیخ ابوسعید سے بیعت وارادت حاصل تھی۔

عبادت وریاضت : حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ بڑے عبادت گزار اور تقوی شعار بزرگ تھے۔ دن کو روزہ رکھتے ، رات نوافل میں گزارتے اور اکثر و بیشتر عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے تھے ۔ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے اور بسا اوقات دورکعت نوافل میں پورا قرآن مجید ختم کر کے کلام الہی کی حلاوت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ شیخ عبدالرحمن چشتی تحریر کرتے ہیں : شیخ جلال الدین تبریزی بڑے عبادت گزار تھےاور ہمیشہ صفاے باطن کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ آپ عشا کے وضو سے صبح کی نماز گھر پر ادا کیا کرتے تھے۔

سلطان الاولیاء، شیخ المشاءخ،حضور شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کا تعارف
سلطان الاولیاء، شیخ المشاءخ،حضور شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کا تعارف


علمی مقام :

حضرت جلال الدین تبریزی جس طرح باطنی علوم کے بحر ناپیدا کنار تھے اسی طرح ظاہری علوم کے سیل رواں بھی تھے ۔ آپ نے سات سال تک بخارا میں معرفت وسلوک کی تعلیم حاصل کی اور ظاہری و باطنی علوم کے آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔ شیخ عبدالرحمٰن چشتی نے آپ کے علم ومعرفت کو یوں بیان کیا ہے :’’ آپ جامع علوم ظاہری و باطنی تھے ۔ صاحب سیرالعارفین نے آپ کی ظاہری و باطنی کمالات کو ان الفاظ میں رقم کیا ہے : وہ جلال الدین ظاہری و باطنی علوم میں لہریں میں مارتے ہوۓ دریا تھے‘‘۔

حضرت تبریزی علیہ الرحمہ علم وعرفان میں بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کے سبب ان کے ہم عصر علما وصوفیا بھی ان کا حد درجہ احترام کرتے تھے اور انھیں قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔

تصانیف..حضرت جلال الدین تبریزی صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے ۔ آپ کی طرف دو معرکۃ الآراء رسالے منسوب ہیں : (۱) شرح نو دونہ نام کبیر : یہ رسالہ خدائے بزرگ و برتر کے اسماے گرامی کی توضیح وتشریح پرمشتمل ہے ۔(۲) مرآۃ الاسرار : اس میں خداۓ تعالی کے اسرار ورموز اور حقائق و دقائق کا بیان ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ۔ دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ج ۱۸ کی درج ذیل عبارت سے آپ کے ان دونوں رسالے کی تائید بھی ہوتی ہے: ” دورساله شرح نو دونه نام کبیر ومرآۃ الاسرار را به جلال الدین تبریزی نسبت داده اند۔ (قریشی ،ص:۱۸۴؛ ۸، قد وی ،ص:۱۱۳)

حضرت جلال الدین کے علم وعرفان میں بے مثال ہونے کی دلیل ان کے اقوال عارفانه وفرمان فاضلانہ بھی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہیں۔

آپ کی ولایت کی ایک جھلک :

حضرت جلال الدین نے بندر دیومحل ( دیوتالہ ) میں قیام کے دوران پچاس روز میں پچاس فقیروں کو خدائے بزرگ و برتر تک پہنچا کر صاحب عرفان وایقان بنادیا۔سلطان المشایخ فرماتے ہیں : آپ ( جلال الدین ) کچھ مدت وہاں ( دیوتالہ ) رہے اور حکم دیا کہ خانقاہ بناؤ ،خانقاہ تیار ہوگئی تو ہر روز ایک گدا گر کو لاکر اس کا سرمونڈواتے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر خدا رسیدہ بنادیتے ۔

حضرت سلطان المشائخ کے مذکورہ بیان سے معلوم ہوا کہ شیخ جلال الدین ولایت کے عظیم مقام پر فائز تھے اور روحانی وعرفانی کمالات کے جامع تھے اور ادنی وکمترلوگوں کو بھی اپنے نور عرفان سے فیض یاب کر کے خدارسیدہ بناتے اور فضل وکمالات سے نوازتے تھے۔ یہ تو صرف ایک مقام پر آپ کے باطنی کمالات کا اظہار تھا، اس طرح آپ سے بہت سارے مقامات پر روحانی و عرفانی کمالات کا ظہور ہوا اور بے شمارلوگوں کو آپ کے ذریعے ولایت وقطبیت اور استقامت کی نعمت ملی ۔

سفر بنگال:

شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ بدایوں میں ایک عرصہ تک مقیم رہے اور آپ کی ذات گرامی سے اہل بدایوں خوب مستفیض ہوۓ ۔ جب آپ بنگال کے لیے روانہ ہوۓ تو آپ کا ایک مرید صادق وخلیفہ اکبر شیخ علی مولی بھی منع کرنے کے باوجود آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا اور قریبا چھ میل تک چلا۔ پھر شیخ نے فرمایا اے علی !واپس ہو جاؤ۔اس نے عرض کی : میں کس کے پاس جاؤں؟ آپ کے سوا میرا کون ہے! پھر آپ نے فرمایا : اے علی ! واپس چلے جاؤ۔ اس نے عرض کیا آپ میرے مخدوم اور پیر ہیں ایک لمحہ کے لئے بھی میں آپ کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ نے فرمایا واپس چلے جاؤ، میں نے یہ شہر تیری حمایت وقطبیت کے حوالے کیا، یہیں سے تم جب میرا دیدار کرنا چاہو گے تو کر لو گے ،میرے اور تیرے درمیان بعد مکانی حائل نہیں ہوگا ؛ کیونکہ قرب روحانی کے لئے بعد مکانی مانع نہیں ۔ چنانچہ شیخ علی غمزدہ واپس آ گئے اور شیخ کی زبان سے نکلی ہوئی بات ان کے حق میں حرف بحرف صادق ہوئی. لہذا شیخ علی جس وقت اپنے مخدوم کا دیدار کرنا چاہتے تو سراٹھا کر ان کا دیدار کر لیتے...

بدایوں میں بہت سے بزرگ شیوخ موجود ہونے کے باوجود لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور بڑے بڑے مشائخ ان کا قدم چومتے تھے۔ اس کے بعد شیخ جلال الدین اودھ ، بہاراوراڑیسہ کی سیر کرتے ہوۓ بنگال تشریف لاۓ ۔

کفرستان بنگالہ میں ورود:

حضرت جلال الدین تبریزی کا ورود پنڈ وہ میں غالبا۱۱۹۷ء میں ہوا ، اس وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی ۔ اس زمانے میں پنڈ وہ کفر وشرک اور بت پرستی کا گہوارہ تھا۔ یہاں پر تالاب کے کنارے ایک بہت بڑا مندر تھا ، جس میں سینکڑوں بت رکھے ہوۓ تھے، بہت سارے پجاری ان معبودان باطلہ کی پرستش میں مصروف تھے ۔ شب و روز ناقوس کی منحوس صدائیں ہر چہار جانب بلند ہوتی تھیں، کفر وضلالت کے گھن گرج بادل برس رہے تھے، پورا پنڈوہ اسی کے ناپاک پانی سے سیراب ہور ہا تھا ۔ اس مندر کے سبب بنگال بھر میں پنڈ وہ کو شہرت عام حاصل تھی ۔ دور دور سے اہل ہنود اس بت خانہ کی زیارت کے لیے آتے تھے ،اہل کفر وشرک کا بڑا اجتماع ہوتا تھا اور پنڈ وہ زیارت گاہ اہل ہنود و مرکز کفر وشرک بنا ہوا تھا۔ سید بذل الرحمن نے شیخ جلال الدین تبریزی کی را جالکھن سین کے ساتھ ملاقات اور پنڈوہ کی تاریخی حیثیت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:

مشہور مورخین کے بیان کے مطابق شیخ جلال الدین تبریزی کی راجا لکھن سین کے ساتھ ملاقات کن ۱۱۹۷ء میں یا اس سے کچھ قبل یا کچھ بعد ہوئی ۔ اس زمانے میں پنڈوہ ہندو دھرم کا بڑا مرکز تھا، یہاں پر بے شمار بت تھے اور ان گنت دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہورہی تھی اور ہر طرف گھنٹی کی آواز سنائی دے رہی تھی‘‘ ۔  شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ نے تن تنہا اس کفرستان میں مخلوق خدا کی دعوت وتبلیغ کے لیے قدم رکھا اور ایک درخت کے نیچے اپنا مسکن بنایا۔ کچھ دنوں کے بعد جب پجاریوں نے آپ کو درخت کے نیچے آرام کرتے ہوئے دیکھا تو حیران و ششدر رہ گئے اور آپ کی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھنے لگے ۔ شیخ کو جب بھوک لگتی تو درخت کے پتے کھالیتے ، کپڑے میلے ہوتے تو از خود تالاب میں دھو لیتے ۔ جب آپ کپڑے دھونے کے لیے ہندوؤں کے تالاب میں جاتے تو وہ بہت شور وغل مچاتے اور آپ کا مزاق اڑاتے لیکن آپ کچھ پرواہ کیے بغیر اپنے کاموں میں لگے رہتے ۔

وفات حسرت آیات:

شیخ جلال الدین تبریزی نے زندگی بھر ارباب معرفت و طریقت کو علم و عرفان کا جام پلایا۔ گمراہوں اور بدعقیدوں کی رہنمائی کی ، تاریک دلوں کو ایمان وعقائد کی روشنی بخشی، بیمار روحوں کو حیات جاودانی عطا کی مفلسوں اور محتاجوں کی دادرسی کی ، بادشاہوں اور امیروں کو فقر و قناعت کا درس دیا ، دست سخاوت دراز کر کے مخلوق خدا کو سیراب کیا ، اخیر کار ولایت وعرفان کا یہ بدرمنیر ۱۵۰ سال کی عمر میں مسکراتے ہوۓ غروب ہو گیا۔

سلطان المشائخ نے بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے حوالے سے آپ کے وفات کی حالت یہ بیان فرمائی ہے : ” پھر شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی بابت حکایت بیان فرمائی کہ رحلت کے وقت آپ کی خدمت میں صرف ایک مرید حاضر تھا۔ وہ مرید بیان کرتا ہے کہ جب آپ نے اس جہان سے رحلت فرمائی تو آپ مسکرار ہے تھے ۔ میں نے پوچھا آپ تو مردہ ہیں مسکراتے کیوں ہیں؟ فرمایا: ’عارفوں کا یہی حال ہے ۔‘‘(راحت القلوب)

تاریخ وفات:

شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کی تاریخ وفات کے سلسلے میں مورخین کی رائیں مختلف ہیں ۔ چنانچہ صاحب خزینۃ الاصفیاء مفتی غلام سرور نے سن وفات ٦٤٢ھ تحریر کیا ہے.

آپ کا مزار اقدس کہاں ہے؟

یہ عجیب اتفاق ہے کہ سال وفات کی طرح آپ کے مزار پر انوار کے متعلق بھی مورخین کا بڑا اختلاف ہے ۔ مولانا غوثی مانڈوی نے گلزار ابرار میں، ابوالفضل نے آئین اکبری میں ، حامد بن فضل اللہ جمالی نے سیر العارفین میں اور غلام حسین خان نے سیر المتاخرین میں لکھا ہے کہ آپ کا مزار بندردیومحل میں ہے۔ جبکہ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ سلہٹ موجودہ بنگلہ دیش میں ہے ۔ مگر تحقیق یہ ہے کہ آپ کا مزار انوار کوہ کوچک علاقہ کا مروپ ،صوبہ آسام میں ہے، جس کی تصدیق مشہور مورخ و سیاح ابن بطولہ کے اس بیان سے ہوتی ہے:

"ساتگام سے میں کامرو کے پہاڑوں کی طرف ہولیا ۔ یہ ملک ساتگام سے ایک مہینہ کے رستے پر ہے ۔ یہ بہت وسیع پہاڑی ملک ہے اور چین اور تبت سے ملحق ہے ۔اس ملک کے اکثر باشندوں نے شیخ جلال الدین تبریزی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے ۔ ان کا ایک ہمراہی مجھ سے کہتا تھا کہ انہوں نے اپنے سب دوستوں کو مرنے سے ایک دن پہلے بلایا اور وصیت کی کہ خدا سے ڈرتے رہو میں ان شاءاللہ کل تم سے رخصت ہوں گا۔ ظہر کی نماز کے بعد آخر سجدہ میں ان کا وصال ہو گیا ۔ غار کے برابر ایک کھدی ہوئی قبر نکلی ،اس پر کفن اور خوشبو موجودتھی۔انکے ہمراہیوں نے غسل دیا اور کفن پہنا کر نماز پڑھی پھر دفن کردیا. خدا ان پر رحمت کرے"(سفرنامہ ابن بطوطہ(اردو ترجمہ)

علاوہ ازیں کوہ کو چک کے قرب و جوار میں رہنے والوں کا بیان آپ کے مزار پرانوار کے متعلق یہی ہے۔ شیخ محمد اکرام نے بھی دیوتالہ میں آپ کے مزار کے ہونے کی تردید کی ہے اور اپنی راۓ یہی ظاہر کی ہے کہ آپ کا روضہ انورکوہ کو چک پر ہے چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں ضلع مالدہ صوبہ مغربی بنگال سے آٹھ ، دس میل دور قصبہ تبریز آباد کے نواح میں ایک جگہ دیوتالہ یا دیوتلاو ہے لیکن یہاں پر بھی شیخ جلال الدین تبریزی کا چلہ خانہ ہے مزار نہیں ۔ بنگالہ کے سفر میں بعض اہل تحقیق نے راقم الحروف سے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ شیخ نے اخیر عمر میں عزلت نشینی اختیار کر لی تھی اور وہ گوہاٹی (صوبہ آسام سے چند میل دور ایک پہاڑی پر ایک دشوارگزاراورنسبتا غیر معروف بلکہ ہیبت ناک جنگل میں مدفون ہیں ۔‘‘


موضع مزار کی تفصیل:

گوہاٹی سے پانچ میل کی دوری پر پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ وہ پہاڑی وادی الگ الگ ناموں سے مشہور و معروف ہے ۔ اس کا بلند ترین پہاڑ کوہ کوچک ہے جو اس وقت بوندا کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی کوچک پہاڑ کے اوپر ایک غار ہے جو شخ جلال الدین تبریزی کی ابدی آرام گاہ ہے اور مخلوق خدا کے لیے قبلہ حاجات ہے ۔حضرت کی وفات کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آپ کا نام لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں زندہ ہے اور آپ کے عشاق اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ان پر خطر پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے آپ کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ہیں اور آپ کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے ہیں ۔


ماخوذ از.. تذکرہ شیج جلال الدین تبریزی.. تصنیف مفتی ذاکر حسین اشرفی جامعی، استاذ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ (بنگال)


از قلم...محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی.. استاذ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ (بنگال)

نوٹ:  براہ کرم مضمون کاپی کرکے کہیں پوسٹ نہ کریں بلکہ لنک شیر کردیں۔شکریہ

Post a Comment

0 Comments