رؤیت باری تعالیٰ کے متعلق اہل سنت وجماعت کا موقف قرآن و احادیث کے آئینے میں

عشق مجازی و حقیقی کا بیمار:

ایک سچے محب کے لئے محبوب کے دیدار سے بڑھ کر پیاری کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔وہ دنیا کے جس دلکش گوشے یا حسین وادی میں ہو,اس کے دل میں یقینی طور پر ایک بےقراری سی ہوتی ہے جس کا مداوا یہ خوبصورت اور جاذب النظر مناظر نہیں بلکہ محبوب کے رخ زیبا کی ایک جھلک ہی اس کی ساری خوشیوں کی بحالی کے لئے کافی ہوتی ہے۔ یہ اس دنیا میں بار بار کا تجربہ ہے۔

ذرا غور فرمائیں جب عشق مجازی میں محب کا حال یہ ہے تو عشق حقیقی میں کیا کیفیت ہوگی۔ مقربان بارگاہ جن کی ایک ایک سانس اللہ اللہ کے ورد کے حوالے ہے, جو حب خداوندی کے اتھاہ سمندر میں اس طرح مستغرق ہیں کہ انہیں اللہ کی ذات کے علاوہ خود کی بھی پرواہ نہیں,جن کے نذدیک دنیا و مافیہا کے متعلق تصور تک معصیت ہے ان بندگان خدا کو اپنے خالق و مالک کا دیدار کس قدر محبوب ہوگا اور وہ اس کے لئے کس قدر بیتاب ہوں گے۔ اس کو بخوبی وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو تقرب ألی اللہ کے اس درجے پر فائز ہیں۔

آئندہ سطور میں اسی دیدار الٰہی کے امکان,بیداری,خواب اور آخرت میں اس کے وقوع اور بطور خاص شب معراج حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے اس کے ثبوت سے متعلق قرآن و احادیث اور اقوال اکابرین کے مطابق اختصارا کلام کیا جائے گا۔

دیدار الٰہی کا عقلی امکان:

دنیا میں دیدار الٰہی عقلا ممکن بلکہ واقع ہے۔ اس کے امکان کا انکار بے معنی اور حقیقت سے کافی بعید ہے۔ دنیا میں اس کے جواز کی واضح دلیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس کی خواہش ظاہر کرنا اور بارگاہ خداوندی میں اس کا سوال کرنا ہے۔ اگر دنیا میں رؤیت باری تعالیٰ محال ہوتی تو ہرگز حضرت موسیٰ علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں اس کا مطالبہ نہ کرتے, کیونکہ یہ بات مستحیل ہے کہ کسی نبی کو اس کا علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کیا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں۔ لہذا اس سے یہ آشکارا ہوجاتا ہے کہ دنیا میں بیداری کی حالت میں دیدار الٰہی ممکن ہے۔رہا اس کا وقوع تو اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔لہذا اللہ نے اپنے کلیم کو "لن ترانی"فرماکر یہ واضح فرمادیا کہ یہ آپ کے بس کی بات نہیں,یہ میرے محبوب حضور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے (ملتقطا از الشفاء,الباب الثانی, فصل فی رؤیتہ ربہ جل و عز,ص:١٢٧,دار الکتب العلمیہ, بیروت)

رؤیت باری تعالیٰ کے متعلق اہل سنت وجماعت کا موقف قرآن و احادیث کے آئینے میں
رؤیت باری تعالیٰ کے متعلق اہل سنت وجماعت کا موقف قرآن و احادیث کے آئینے میں


منکرین رؤیت کا رد بلیغ:

منکرین رؤیت اپنے مدعا کے اثبات میں جو دلائل پیش کرتے ہیں,ان میں آیت کریمہ"لا تدرکه الأبصار "نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ وہ اس آیت کو بڑے زور وشور سے پیش کرتے ہیں۔

اگر تعمق نظر سے کام لیا جائے تو ان کا یہ استدلال بے محل معلوم ہوتا ہے, کیونکہ آیت کریمہ میں ادارک کی نفی کی گئی ہے رؤیت کی نہیں۔

ادراک کا معنی کسی چیز پر اس کی تمام حدوں اور جہتوں کے ساتھ واقفیت حاصل کرنا ہے۔اور رؤیت دیکھنے اور معاینہ کرنے کو کہتے ہیں۔

تو اس لحاظ سے ادراک عام ہوا اور رؤیت خاص ہوئی, لہذا رؤیت کی نفی سے ادراک کی نفی تو ہوسکتی ہے لیکن ادراک کی نفی سے رؤیت کی نفی نہیں ہوسکتی۔ بلکہ خود قرآن کریم میں ادراک کی نفی کے ساتھ رؤیت کے اثبات کی مثال موجود ہے, ارشاد باری ہے"فلما تراءی الجمعان قال اصحاب موسی أنا لمدرکون قال کلا(سورۂ شعراء,آیت:٦١) ترجمہ:پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے تو موسی کے ساتھیوں نے کہا ہم کو پالیا گیا۔فرمایا ہرگز نہیں۔(ملخصا از تفسیر بغوی,سورۂ انعام,آیت:١٠٣, المجلد الثالث)

غور فرمائیں یہاں"تراءی" میں رؤیت کا اثبات فرماکر "کلا" کے ذریعے ادراک کی نفی کی گئی ہے۔لہذا ادراک و رؤیت کے مابین فرق کیے بغیر"لا تدرکه الأبصار"سے رؤیت کے استحالہ کا قول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم

شب معراج چشم ظاہر سے دیدار حق کا ثبوت قرآن, احادیث اور اقوال ائمہ کی روشنی میں:

اوپر کے بیان سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ زندگی میں رؤیت باری تعالیٰ ممکن ہے۔لیکن یہ شرف صرف میرے آقا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور یقیناً یہ رؤیت عینی ہے قلبی نہیں۔اس کا ثبوت قرآن کریم سے بھی ملتاہے اور بکثرت احادیث طیبہ بھی اس پر وارد ہیں۔

قرآن:

کلام مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے"مازاغ البصر و ما طغی"(سورۂ نجم,آیت:١٧) 

ترجمہ:نہ آنکھ پھری اور نہ حد سے بڑھی۔

اس کی تفسیر میں علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے جو لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت بیداری میں چشم ظاہر سے دیدار الٰہی کا شرف حاصل ہوا تھا, کیونکہ"بصر"کو "زیغ" سے موصوف کیا جانا اسی بات کا مقتضی ہے۔ورنہ غور کریں اگر یہ رؤیت قلبی ہوتی تو ضرور بجائے"ما زاغ البصر" کے "مازاغ القلب"فرمایا جاتا۔ لہذا صاف ظاہر کہ یہ رؤیت چشم ظاہر کے ساتھ حالت یقظہ میں ہوئی ہے۔(تلخیص از تفسیر روح البیان,سورۂ نجم,تحت تفسیر مازاغ البصر,جلد:١٠,ص:٢٢٨)

احادیث کریمہ:

اس باب میں فتاویٰ رضویہ جلد ٣٠,رسالۂ مبارکہ"منبہ المنیۃ بوصول الحبیب الی العرش و الرؤیۃ" میں کثیر احادیث کریمہ ذکر کی گئی ہیں ان میں سے کچھ نذر قارئین ہیں۔

١: امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے راوی "قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"رأیت ربی عز و جل (مسند احمد بن حنبل,١/٢٨٥, المکتب الاسلامی, بیروت)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا۔

٢:ابن عساکر جابر بن عبداللہ سے راوی, حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں"لأن اللہ أعطی موسی الکلام و اعطانی الرویۃ لوجھه و فضلنی بالمقام المحمود و الحوض المورد (کنز العمال بحوالہ ابن عساکر)

 ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ ہمکلام ہونے کا شرف بخشا اور مجھے اپنی رؤیت سے سرفراز فرمایا اور مجھے مقام محمود اور حوض کوثر سے فضیلت بخشی۔

ان دونوں احادیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ بیان فرمادیا کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی زیارت کی ہے۔

اب صحابی رسول سید المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں چلتے ہیں وہ کیا فرماتے ہیں

٣:ابن اسحاق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی:ان ابن عمر أرسل ألی ابن عباس یسأله ھل رأی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ربه فقال نعم(الدر المنثور بحوالہ ابن اسحاق) 

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بات پوچھ بھیجی کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کا دیدار فرمایا تھا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا جی ہاں۔

اس روایت سے اہل سنت وجماعت کو اس عظیم مخزن علوم قرآن و معارف حدیث سے تائید ملتی ہے جن کی بارگاہ رسالت اور بارگاہ خلفائے راشدین میں مقبولیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اور ایک روایت ملاحظہ ہو,

٣:ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی"أما نحن بنو ھاشم فنقول أن محمدا رأی ربه مرتین (جامع ترمذی,ابواب التفسیر,سورۂ نجم)

ترجمہ: رہے ہم بنو ہاشم تو ہم یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اپنے رب کا دیدار فرمایا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف سید المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ موقف تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج دیدار خداوندی حاصل ہوا بلکہ ان کے علاوہ کل بنو ہاشم اس نظریے کے متحمل تھے۔

اقوال ائمہ اور جمہور اہل سنت وجماعت کا موقف:

یوں تو قرآن و احادیث کے ذکر کے بعد پھر کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہ جاتی لیکن رؤیت سے متعلق آیات کی کچھ ایسی تاویلات اور کچھ ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جن سے بظاھر عدم رؤیت ثابت ہوتی ہے,اس وجہ سے یہ معلوم کرنا از بس ضروری ہے کہ جمہور ائمہ دین اور اکابرین امت کے نذدیک ان میں سے راجح قول کونسا ہے اور اس سلسلے میں ان کا اپنا کیا نظریہ ہے؟

فتاویٰ رضویہ جلد ٣٠ رسالہ منبہ المنیۃ بوصول الحبیب الی العرش و الرؤیۃ ہی میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ علامہ خفاجی کے حوالے سے لکھتے ہیں"الأصح الراجح أنه صلی اللہ علیہ وسلم رأی ربه بعین راسه حین أسری به کما ذھب ألیه أکثر الصحابۃ (نسیم الریاض شرح شفاء القاضی)

 ترجمہ: صحیح ترین و راجح قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب اسراء اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار فرمایا, یہی اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مذہب ہے۔

اسی فتاویٰ رضویہ میں امام نووی اور علامہ محمد بن عبد الباقی سے ‌ناقلا لکھتے ہیں"الراجح عند أکثر العلماء أنه رأی ربه بعین راسه لیلۃ المعراج (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ, المقصد الخامس)

ترجمہ: اکثر علمائے دین کے نذدیک راجح یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ ربّ العزت کی زیارت فرمائی۔

المعتقد المنتقد میں صاحب کنز کے حوالے سے اس کو اور بھی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے,جس کا لب لباب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خالق ارض وسماء کا دیدار کرنا صحیح طور پر ثابت ہےاور یہ جمہور اہل سنت وجماعت کا موقف ہے اور یہی صحیح ہے۔

درج ذیل اکابرین امت کا موقف :

اکابرین امت میں اس نظریے کی حامل ہستیوں میں سید المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس, حضرت انس بن مالک, حضرت عبداللہ بن مسعود, حضرت ابو ہریرہ, حضرت ابوذر غفاری, حضرت عکرمہ, حضرت حسن رضی اللہ عنھم, حضرت امام احمد بن حنبل اور ابو الحسن اشعری رحمھما اللہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔( ملخصا از المعتقد المنتقد, الباب الاول فی الالہیات, النبی قد رأی ربه یقظۃ الخ,ص:١٢٩)

آیات و احادیث کا خلاصہ:

مذکورہ آیت قرآنی, احادیث مقدسہ اور اقوال ائمہ سے یہ بات یقینی طور پر پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور شب معراج اپنے چشم ظاہر سے پروردگار عالم کے دیدار سے بہرہ مند ہوئے ہیں اور یہ اس دنیاوی زندگی میں آپ کا خاصا ہے۔ یہی ہم اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے۔

خواب میں دیدار الٰہی ممکن بلکہ واقع ہے

اس دنیا میں بیداری کی حالت میں رؤیت باری تعالیٰ تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔مگر خواب میں دیگر انبیاء کرام علیہم السلام یہاں تک کہ بعض اولیائے مقربین کو بھی حاصل ہے۔ امام ابو منصور ماتریدی اور سمرقند کے مشائخ اگر چہ اس کو ناممکن مانتے ہیں, لیکن جمہور اہل سنت وجماعت کا نظریہ یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ ممکن ہے بلکہ کثیر سلف صالحین کو اس کا شرف حاصل ہے۔(ملخصا از المعتقد المنتقد, الباب الاول فی الالہیات,حکم انکار رؤیۃ اللہ فی الآخرۃ,ص:١٣٢)

امام الفقہاء سراج الائمہ حضرت سیدنا امام اعظم رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے خواب میں اپنے رب کا سو بار دیدار کیا (بہار شریعت, حصہ اول, عقائد متعلقہ ذات و صفات,ص:٢١, دعوت اسلامی)

آپ کے علاوہ ابو زید, حمزہ زیات,ابو الفوارس شاہ بن شجاع الکرمانی, محمد بن علی الحکیم الترمذی اور علامہ شمس الائمہ کردری رحمھم اللہ وہ مبارک و خوش بخت ہستیاں ہیں جنہوں نے خواب میں اپنے رب کے دیدار کا جام نوش فرمایا۔( ملتقطا از منح الروض الازہر شرح فقہ الاکبر,ص:١٥١, مکتبۃ المدینہ کراچی, دعوت اسلامی)

آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کا ثبوت قرآن و احادیث سے

خواب میں دیدار حق تو مخصوص و مقرب بندوں کے واسطے ہے, لیکن آخرت میں ہر سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو پروردگار عالم کا دیدار نصیب ہوگا۔اہل سنت وجماعت کا یہی مذہب ہے, جو کثیر دلائل پر مبنی ہے۔ حاشیہ جلالین شریف میں شرح عقائد نسفی کے حوالے سے ہے کہ آخرت میں مومنین کے لئے رؤیت کے اثبات میں دلیل سمعی وارد ہے۔قرآن سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے, احادیث بھی اس پر ناطق ہیں اور اجماع امت بھی اس پر قائم ہے۔(حاشیہ جلالین,سورۂ قیامہ,آیت :٢٢, حاشیہ نمبر:١٣)

قرآنیات:

(١) اللہ رب العزت کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے"وجوہ یومئذ ناضرۃ ألی ربھا ناظرۃ"( سورۂ قیامہ,آیت:٢٢,٢٣)

 ترجمہ: کچھ چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے, اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے۔

یہاں کچھ حضرات نے ناظرۃ کی تفسیر تنتظر سے کی ہے اور رب سے پہلے لفظ ثواب مقدر مانتے ہیں۔اس صورت میں اس کا ترجمہ ہوگا: اپنے رب کے ثواب کے منتظر ہونگے۔

لیکن اکثر مفسرین بلا کسی تاویل ناظرۃ کو اپنے معنی حقیقی پر محمول کرتے ہیں,جس کے مطابق آیت کے ذیل میں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ حاشیہ جلالین شریف میں الی ربھا ناظرۃ کے تحت ہے "ای یرونه سبحانہ تعالی فی الآخرۃ" یعنی آخرت میں وہ اللہ کا دیدار کریں گے (حاشیہ جلالین,سورۂ قیامہ آیت ٢٣,حاشیہ ١٤)

تفسیر طبری میں اس آیت سے متعلق دونوں قول ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن جریر طبری رقمطراز ہیں"و اولی القولین فی ذلک عندنا بالصواب القول الذی ذکرناہ عن الحسن و عکرمۃ من ان معنی ذلک انھا تنظر الی خالقھا و بذلک جاء الاثر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تفسیر طبری,سورۂ قیامہ,تحت تفسیر وجوہ یومئذ الخ,ص:٥١)

 ترجمہ: مذکورہ دونوں اقوال میں سے وہ بات ہمارے نزدیک درستگی سے زیادہ قریب ہے جو حضرت امام حسن اور عکرمہ رضی اللہ عنھما سے مرویا ہم نے ذکر کی،وہ یہ کہ اس کا معنی ہے کہ وہ اپنے خالق کا دیدار کریں گے۔اسی پر حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وارد ہے۔

(٢) قرآن مجید میں اللہ ربّ العزت اور ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے "للذین أحسنوا الحسنی و زیادۃ"(سورۂ یونس,آیت:٢٦) 

ترجمہ: بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے۔

لفظ"زیادۃ" سے متعلق مدارک کے حوالے سے تفسیر صراط الجنان میں ہے" کہ آیت کریمہ میں حسنی سے مراد جنت ہے اور زیادت سے مراد دیدار الٰہی ہے۔(تفسیر صراط الجنان,سورۂ یونس, آیت ٢٦)

اس تفسیر کی تائید خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان عالیشان سے ملتی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت صہیب الرومی رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"اذا دخل اھل الجنۃ الجنۃ۔قال۔یقول اللہ تبارک و تعالیٰ:تریدون شیئا أزیدکم؟ فیقولون الم تبیض وجوھنا,الم تدخلنا الجنۃ,و تنجنا من النار؟۔قال۔فیکشف الحجاب فما أعطوا شیئا احب ألیھم من النظر ألی ربھم عز و جل (صحیح مسلم, کتاب الایمان,باب اثبات رؤیۃ المومنین فی الآخرۃ ربھم, الحدیث:٤٦٧)

 ترجمہ: جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے, اللہ ان سے فرمائے گا: کیا تم کوئی اور چیز چاہتے ہو جو میں تمہیں مزید عطا کروں؟ وہ عرض کریں گے کہ پروردگار کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہ فرمائے, ہمیں جنت میں داخل نہ فرمایا اور ہمیں جہنم سے نجات نہ دی؟ فرماتے ہیں کہ پھر حجاب اٹھا دیا جائے گا تو انہیں دی جانے والی تمام چیزوں میں اپنے رب کا دیدار سب سے زیادہ پسندیدہ ہوگا۔

اس حدیث میں واضح حرفوں میں زیادت کی وضاحت دیدار الٰہی سے کی گئی ہے۔ارباب فہم و تدبر اسے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

یہ رہی قرآن کریم کی وہ دو آیات جن سے آخرت میں دیدار باری تعالیٰ کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ذیل میں اس سے متعلق مزید کچھ احادیث کریمہ ذکر کیے جاتے ہیں, جو بجائے خود رؤیت کے مضبوط دلائل بھی ہیں اور متذکرہ آیات قرآنیہ کے لئے واضح بیان بھی ہیں۔

احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

(١) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"أن أدنی أھل الجنۃ منزلۃ لمن ینظر فی ملکہ ألفی سنۃ قال و أن أفضلھم منزلۃ لمن ینظر فی وجه اللہ کل یوم مرتین قال ثم تلا "وجوہ یومئذ ناضرۃ" قال بالبیاض و الصفاء "ألی ربھا ناظرۃ" قال تنظر کل یوم فی جه اللہ عزوجل (تفسیر طبری,سورۂ قیامہ, تحت تفسیر وجوہ یومئذ الخ,ص ٥١)

ترجمہ:بیشک سب سے ادنیٰ درجہ کا جنتی وہ ہوگا جو اپنی سلطنت کو دو ہزار برس کی مسافت تک دیکھے گا اور سب سے افضل جنتی وہ ہوگا جو ہر روز اللہ کا دو مرتبہ دیدار کرے گا۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ"کی تلاوت فرمائی اور ناضرۃ کے تحت فرمایا کہ سفیدی اور پاکیزگی میں تر و تازہ ہوں گے اور ناظرۃ کے تحت فرمایا کہ ہر روز اللہ کا دیدار کریں گے۔

یہ حدیث ایک تو بجائے خود آخرت میں رؤیت کے ثبوت کو واضح کرتی ہے۔نیز اس حدیث سے یہ بھی عیاں ہوگیا کہ ناظرۃ کا سہی معنی وہی ہے جو جمہور مفسرین نے بیان فرمایا ہے, تنتظر سے اس کی تفسیر اس حدیث کے ظاہر کے خلاف ہے۔

(٢)عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"تضامون فی رؤیۃ القمر لیلۃ البدر و تضامون فی رؤیۃ الشمس؟ قالوا لا,قال:فأنکم سترون ربکم کما ترون القمر لیلۃ البدر لا تضامون فی رؤیته(سنن ترمذی, کتاب صفۃ الجنۃ ,باب ما جاء فی رؤیۃ الرب تبارک و تعالیٰ, حدیث:٢٧٥٢)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں چودہویں کی شب چاند کو دیکھنے اور سورج کو دیکھنے میں بھیڑ جمع کرنے کی ضرورت پڑتی ہے (مشقت برداشت کرنی ہوتی ہے)؟ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ نہیں۔ ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ عنقریب تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح چودہویں کی رات چاند کو بھیڑ جمع کیے بغیر دیکھتے ہو۔

(٣) الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اسی معنی کی ایک حدیث صحیح البخاری, کتاب التوحید اور سنن ابو داؤد, کتاب السنۃ میں بھی ہے۔

اس حدیث میں حسی تمثیل کے ذریعے اس طرح مسئلہ رؤیت کی تفہیم کرائی گئی ہے کہ ایک صحیح العقیدہ مومن کے لئے اس میں اشتباہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

(٤) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں"وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ"پڑھایا پھر فرمایا"واللہ ما نسخھا منذ أنزلھا یزورون ربھم تبارک و تعالیٰ۔۔۔۔۔(تفسیر روح المعانی,سورۂ قیامہ, بحوالہ دار قطنی و تاریخ بغداد)

ترجمہ:بخدا اللہ نے جب سے ‌اس آیت کو نازل فرمائی ہے اسے منسوخ نہیں فرمائی, مومنین اپنے رب کا دیدار کریں گے۔

اس حدیث اور ماسبق کے جملہ احادیث اور قرآنی آیات سے یہ بات پوری طرح نمایاں ہو کر سامنے آگئی کہ آخرت میں مومنین کے لئے رؤیت باری تعالیٰ حق ہے۔

خلاصۂ کلام:

بہر حال ابتدا تا آخر تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ زندگی میں پروردگار عالم کا دیدار حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے,آپ کے علاوہ کسی نبی کو بھی حاصل نہیں۔ ہاں خواب میں دیگر انبیائے کرام علیہم السلام حتی کہ بعض اولیائے عظام کو بھی حاصل ہے۔اور آخرت میں ہر سنی صحیح العقیدہ مومن کو اس نعمت عظمیٰ سے شاد کام کیا جائے گا۔ یہی اہل سنت وجماعت کا موقف ہے, جس کی بنیاد قرآن کریم, احادیث طیبہ اور اقوال اکابرین پر ہے۔اس کو بدعت حقیقیہ کہنا گمراہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب


از قلم محمد سرور عالم اشرفی, اتردیناج پور

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی

Written by Md, Sarwar Alam Ashrafi

Post a Comment

1 Comments

Way to jannah said…
ماشاءاللہ اللہ... Bahut Acha he