فضائل صدیق اکبر، خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ :حیات و خدمات

پس منظر :

آج سے چودہ صدی قبل افق عرب میں آفتاب اسلام طلوع ہوتا ہے۔کفر و شرک کے ظلمت کدوں میں توحید کا شمع جلتا ہے۔ خالق کائنات اپنے رسول کی زبانی اپنی وحدانیت و معبودیت اور اپنے حبیب کی نبوت و رسالت کا اعلان کراتا ہے. چاروں طرف سے تکذیب و مخالفت کی صدا آتی ہے مگر عین انہیں حالات میں انہیں میں سے ایک خوش نصیب جوان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھتا ہے۔ نصیبے کا اونٹ کروٹ لیتا ہے۔ رسول اعظم کی بات سننے کی دیری ہوتی ہے کہ دل کی دنیا تہ و بالا ہوتی ہے،سالوں قبل دیکھا گیا خواب حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے اور بلاخوف لومۃ و لائم قبولیت کی زبان سے کلمۂ حق گویا ہوتا ہے ۔اور دین اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں آجاتا ہے پھر کیا ہوتا ہے کہ اپنے رسول کے قدموں میں جینے مرنے کو اپنی حیات مستعار کی معراج و کل کائنات تصور کرتے ہوئے اپنا تن من دھن سب کچھ چھڑک دیتا ہے،وفاداری و جانثاری کی ایسی مثال پیش کرتا ہے کہ جس کی نظیر و مثیل کاروان انسان صبح قیامت تک پیش نہیں کرسکتی۔ ایسی رفاقت و ہمنشینی اور محبت و الفت ہوتی ہے کہ ایک آن کی فرقت بھی طبع ناز پر گراں گزرتا ہے حتی کہ قبر مبارک میں بھی بازوۓ حبیب میں لیٹنا نصیب ہوتا ہے۔پھر رب کائنات انہیں مقام و مرتبہ کی اس بلندی تک پہنچاتا ہے جہاں انسان کے وہم و خیال کا پرندہ بھی پرواز نہیں کرسکتا۔ قارئین کیا آپ جانتے ہیں،وہ رشک شمس و قمر کون ہے ؟ وہ ملت اسلامیہ کا پہلا خلیفہ یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ ہم ذیل میں انہیں کے چند فضائل و مناقب کو زینت قلم بنائیں گے لیکن آئیے پہلے ان کے تعارف پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں:

تعارف:

پیدائش: مکہ معظمہ میں واقعہ فیل کے دو سال چار ماہ بعد قریش کا ایک نمایاں حیثیت کا حامل بنوتمیم میں زندگی کی آنکھیں کھولیں.

نام و نسب:

آپ کا نام مبارک عبد اللہ،کنیت ابو بکر, صدیق و عتیق القاب ہیں۔والد گرامی کا نام عثمان کنیت ابو قحافہ ہے اور والدہ ماجدہ ام الخیر سلمی بنت صخر ہیں .سرکار علیہ السلام اور آپ کا شجرۂ نسب ساتویں پشت میں جاکر ملتا ہے۔

قبل اسلام:

زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کی شخصیت بین العوام و الخواص مسلم تھی۔آپ کا شمار قریش کے مایہ ناز اور سربرآوردہ لوگوں میں ہوتا تھا۔آپ کی حیات کا یہ دور بھی عزت و شرافت,ایمان داری و امانت داری ، اعلی اخلاق و کردار جیسے عمدہ اوصاف سے عبارت تھی اسی وجہ سے آپ نے اپنا آبائی پیشہ تجارت میں بھی نیک نامی اور کافی نفع کمائی۔

قبولیت اسلام سے پہلے بھی آپ کا دامن کفر و شرک کی تمام تر آلائشوں سے پاک تھا اور آپ موحد و موقن تھے۔

دور جاہلیت میں حضور سے دوستی:

وعن أم سلمة قالت: كان أبو بكر خدنًا للنبي -صلى الله عليه وسلم- وصفيًّا له.

یعنی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے مخلص دوست تھے.

[الطبري، محب الدين ,الرياض النضرة في مناقب العشرة ,1/84]

فائدہ : آپ اور آپ کے ماں باپ اور آپ کی اولاد سب صحابی رسول ہیں, یہ خصوصیت آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں.

وفات:

جمادی الآخر بائیس تاریخ منگل کی شب ١٣/ھ مدینہ منورہ میں مغرب و عشا کے درمیان وفات پائی۔

فضائل صدیق اکبر، خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ :حیات و خدمات
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ :حیات و خدمات



فضائل :

قرآنیات- اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : وَ سَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (7) الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (8) وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى (9) إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى (20) وَلَسَوْفَ يَرْضَى (2) (الليل).

ترجمۂ کنز الایمان:

بہت جلد دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے صرف اپنے رب کی رضا چاہتا جو سب سے بلند ہے اور بےشک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا۔

 اس بات پر تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔

اللہ اکبر! جن کے تقوی و پرہیزگاری کی شہادت قرآن کریم صریح الفاظ میں دے رہا ہو تو ان کے زہد و ورع اور مقام و مرتبہ کا عالم کیا ہوگا!

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)

ترجمہ:اور وہ جو سچ لائے اور سچ کی تصدیق کی تو وہی متقی ہیں۔ (پ 24، الزمر:33)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور مفسرین کی ایک جماعت سے اس آیت کی ایک تفسیر یہ مروی ہے کہ سچ لانے والے سے مراد نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے سے مراد سیّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔(صراط الجنان،ج8،ص466)

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰)[ سورۂ توبہ]

ترجمہ، کنزالعرفان:

اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ ان کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے انہیں(ان کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا اور اللہ کی بات ہی بلندو بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےعظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے۔

[واضح رہے کہ یہ آیت ہجرت کے موقع پر نازل ہوئی]

١- یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

۲- اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر )ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں۔

٣-حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ،یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا.

( تفسیر صراط الجنان)

صدیق کا صادق و مصدوق پر احسان:

عن ابي هريره رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لاحد عندنا يد الا وقد كافيناه ما خلا ابا بكر فان له عندنا يدا يكافئه الله بها يوم القيامه و ما نفعني مال احد قط ما نفعني مال ابي بكر ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت ابا بكر خليلا الا وان صاحبكم خليل الله (مشکوۃ شریف,باب مناقب ابی بکر, ص,٥٥٥,مجلس برکات)

ترجمہ مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ دے دیا ہے سواۓ ابوبکر کے کہ ہم پر ان کا احسان ہے جس کا بدلہ انہیں اللہ تعالٰی قیامت میں عطا فرمائے گا,کسی کا مال مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا نفع ابوبکر کے مال پہنچایا, اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو دوست بناتا,سنو !بےشک تمہارا صاحب اللہ کا دوست ہے۔

ابوبکر کی موجودگی میں امامت کا حق کسی کو حاصل نہیں: عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا ينبغي لقوم فيهم ابو بكر ان يأمهم غيره[ایضاً]

ترجمہ: سرکار علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قوم میں ابوبکر ہوں انہیں یہ لائق نہیں کہ ان کی امامت ابوبکر سوا کوئی اور کرے۔

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں اس فرمان عالی سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ ابوبکر صدیق کے لیے امامت کبری یعنی خلافت کے لیے دلیل بنانا تھا،اس کی تمہید تھی ۔دوسرے یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ و سارے اہل بیت سے بھی افضل ہیں اور زیادہ عالم بھی کیونکہ امام اسی کو بنایا جاتا ہے جو سب سے زیادہ عالم اور افضل ہو۔

ہم اہل سنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ افضل البشر بعد از انبیا ہیں.


صدیق اکبر کی ایک نیکی کا رتبہ :

و عن عائشة - رضي الله عنها - قالت : بينا رأس رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في حجري في ليلة ضاحية إذ قلت : يا رسول الله ، هل يكون لأحد من الحسنات عدد نجوم السماء ؟ قال : ( نعم ، عمر ) . قلت : فأين حسنات أبي بكر ؟ قال : ( إنما جميع حسنات عمر كحسنة واحدة من حسنات أبي بكر ) رواه رزين .


حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سر مبارک میری گود میں تھا اور رات روشن تھی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ جی ہاں ! وہ عمر ہیں ، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں ۔‘‘حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :’’میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پھر میرے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نیکیاں کس درجہ میں ہیں ؟‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے مثل ہے.

تمام آسمانوں میں آپ کا نام:

وعن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: "عرج بي إلى السماء فما رأيت شيئًا إلا وجدت اسمي فيه مكتوبًا: محمد رسول الله, وأبو بكر الصديق خليفتي" خرجه ابن عرفة العبدي والثقفي الأصبهاني. 

[الطبري، محب الدين ,الرياض النضرة في مناقب العشرة ,1/81] 


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:مجھے آسمانوں کی سیر کرائی گئی پس جو چیز بھی میں نے دیکھی اس میں میرا نام” محمد رسول اللہ “ اور ” ابوبکر صدیق میرا خلیفہ “ لکھا ہوا پایا.


سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے:

عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتاني جبرئيل فاخذ بيدي فاراني باب الجنة الذي يدخل منه امتي فقال ابو بكر يا رسول الله وددت اني كنت معك حتى انظري اليه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اما انك يا ابا بكر اول من يدخل الجنه من امتي رواه ابو داود[مشکوۃ شریف,باب مناقب ابی بکر, ص,٥٥٦,مجلس برکات]

ترجمہ حضرت ابوہریرہ راضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے, رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میرے پاس جناب جبرئیل آئے, میرا ہاتھ پکڑا پھر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا یا جس سے میری امت (جنت میں داخل) داخل ہوگی جناب ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ میری آرزو ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا حتی کہ میں بھی اسے دیکھتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو بکر تم ہی وہ شخص ہو جو میری امت میں سب سے پہلے جنت میں جائے گا.

ابوبکر کی شان عمر کی زبان:

عن عمر رضي الله تعالى عنه قال: ابو بكر سيدنا و خیرنا واحبنا الى رسول الله صلى الله تعالى علیہ وسلم.

ترجمہ :حضرت عمر سے روایت ہے, انہوں نے فرمایا :ابوبکر ہمارے سردار, ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں رسول اللہ کو سب سے زیادہ پیارے ہیں.

آپ کی صدیقیت : عن أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِجِبْرِيلَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ : " إِنَّ قَوْمِي يتهموني و لا يُصَدِّقُونِي ، فَقَالَ جِبْرِيلُ : ان اتهمك قومك فإن ابا بكر يُصَدِّقُكَ وَهُوَ الصِّدِّيقُ "  المعجم الاوسط للطبراني،ج،٥،٢٢٦)

یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے معراج کی رات جبریل سے کہا :اے جبریل میری قوم مجھے تہمت لگائے گی اور میری تصدیق نہیں کرے گی تو جبریل امین نے کہا کہ اگر آپ کی قوم آپ پر تہمت لگائے تو بےشک ابوبکر آپ کی تصدیق کرے گا اور وہ صدیق ہے.

حکیم الامت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’صدیق وہ کہ جیسا وہ کہہ دے بات ویسی ہی ہوجائے۔ اسی لیے تو حضرت سیدنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جو دوقیدی تھے ان میں سے شاہی ساقی یعنی بادشاہ کو شراب پلانے والے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صدیق کہا کیونکہ اس نے دیکھا کہ جو آپ نے کہا تھا وہ ہی ہوا ، عرض کیا: یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ ۔حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سیدنا مالک بن سنان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق جو کہا تھا وہ ہی ہوا کہ وہ شہید ہونے کے بعد زندہ ہو کر آئے ۔ (مرآۃ المناجیح، ج۸،ص۱۶۲،چشتی )

عن ابن عمر قال كنا في زمن النبي صلى الله عليه وسلم لانعدل بابي بكر أحدا ثم عمر ثم عثمان ثم نترك أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لا نفاضل بينهم[ مشكوة،555]


عن عمر بن العاص ان النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل قال فاتيته فقلت اي الناس احب اليك قال عائشة قلت من الرجال قال ابوها قلت ثم من قال عمر فعد رجالا فسكت مخافه ان يجعلني في اخرهم[ايضا]


روایت ہے حضرت عمرو ابن عاص سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذات سلاسل کے لشکر پر امیر بنا کر بھیجا,فرماتے ہیں کہ میں حضور کے پاس آیا,میں نے کہا لوگوں میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے فرمایا عائشہ میں نے کہا مردوں میں فرمایا اس کا باپ میں نے عرض کیا پھر کون فرمایا عمر تو میں چپ ہو گیا اس خوف سے کہ مجھے ان سب کے آخر میں کردیں.


حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تمنا:


عن عمر ذكر عنده ابو بكر فبكى و قال وددت ان عملي كله مثل عمله يوما واحدا من ايامه و ليلة واحدة من لياليه اما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الى الغار فلما انتهيا اليه قال والله لا تدخله حتى ادخل قبلك فان كان فيه شيء اصابني دونك فدخل فكسحه و وجد ثقبا في جانبه فشقه ازاره وسدها به وبقيه منها اثنان فالقمهما رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادخل فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم و وضع راسه في حجره ونام فلدغ ابو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة ان ينتبها رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقط دموعه على وجهه و على وجه رسول الله صلى الله عليه فقال مالك يا ابا بكر قال لدغت فداك ابي وامي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده ثم انتقص عليه وكان سبب موته واما يومه فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ارتدت العرب وقالوا لا نؤدي زكوة فقال لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه فقلت يا خليفه رسول الله صلى الله عليه وسلم تألف الناس و ارفق بهم فقال لي أ جبار في الجاهلية و خوار في الاسلام انه قد إنقطع الوحي تم الدين أ ينقص وانا حی (مشکوۃ شریف)

ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ ﷺ کے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !ﷺ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ ﷺ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے، آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدار رسالتﷺ سے کہا, اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا۔ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ ﷺ نیند سے بیدار نہ ہو جائیں لیکن تکلیف کی شدت سے نکلنے والے چند آنسو نبی اکرم ﷺکے رُوئے اقدس پر گر گئے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکر! کیا ہوا؟ عرض کی ! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپہ فدا ہوں ، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ سرکارِ دو عالَم ﷺ نے اپنا لعابِ دہن اس جگہ پر لگا دیا تو اسی وقت ساری تکلیف ختم ہو گئی، بعد میں یہی ڈنگ آپ  رَضِیَ  اللہُ تَعَالٰی عَنہُ  کی وفات کا سبب بنا۔ اور ان کا دن وہ کہ جب حضورِاقدس ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اگر انہوں نے زکوٰۃ کے مال کی ایک رسی بھی روکی تومیں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کی ’’اے رسولُ اللہ ﷺ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ اُلفت اور نرمی کا برتاؤکیجئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور اب دین مکمل ہو گیا ہے کیا وہ دین میں کمی کریں گے ؟حالانکہ میں ابھی زندہ ہوں۔

از قلم گوہر رقم محمد لعل بابو اشرفی علائی، اتردیناجپور

Muhammad Lal Babu Ashrafi Alayee

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی

استاذ : مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ

Post a Comment

0 Comments