شوہر اول کی موت کی خبر پر دوسری شادی کی پھر شوہر اول لوٹ آیا تو بیوی کس کے نکاح میں رہےگی؟

سوال کی نوعیت:

اول: شوہر اول لوٹ آیا تو بیوی کس کی زوجیت میں رہے گی شوہرثانی کی یا اول کی؟

دوم: نکاح ثانی سے چھ ماہ مکمل ہونے یا اس سے کم کی مدت میں بچہ پیدا ہو تو اس بچے کا نسب کس سے ثابت ہوگا؟


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اپنا معاش حاصل کرنے کے لیے اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہر چلا گیا تقریبٙٙا ایک سال بعد گھر والوں سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا پھر چند مہینے کے بعد کسی نے زید کی بیوی ہندہ کو زید کی موت کی خبر دی، ہندہ نے موت کی عدت گزار کر دوسرے مرد خالد سے نکاح کر لیا اور خالد سے ہندہ کو دو لڑکے پیدا ہوئے پھر چار سال بعد زید اپنے گھر واپس آ گیا اور اس کی موت کی خبر جھوٹی ثابت ہوئی ۔

اب دریافت طلب امر یہ کہ ہندہ اب زید کی زوجیت میں رہے گی یا خالد کی زوجیت میں؟

اور خالد سے نکاح کرنے کے بعد ہندہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب زید سے ثابت ہوگا یا خالد سے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں ۔


الجواب بعون الملک الوھاب

سوال میں مذکور ہندہ کو جب اپنے شوہر زید کی موت کی خبر ملی تو اگر اس خبر کے سبب ہندہ کو اس امر کا یقین یا غالب گمان ہوگیا کہ میرا شوہر واقعی مرچکا ہے پھر اس یقین کے بعد اس نے خالد سے نکاح کر لیا تو ایسی صورت میں ہندہ کا خالد سے نکاح کرنا جائز و درست ہے عام ازیں کہ خبر دینے والا عادل ہو یا غیر عادل۔ 

ردالمحتار جلد پنجم ، ص: ٢١۵/ میں ہے:

"وفی جامع الفصولین : أخبرھا واحد بموت زوجھا أو بردته بتطلیقھا حل لھا التزوج ولو سمع من ھذا الرجل آخر له أن یشھد لأنه من باب الدین فیثبت بخبر الواحد بخلاف النکاح والنسب أخبرھا عدل و غیر عدل فأتاھا بکتاب من زوجھا بطلاق ولا تدری أنه کتابه أو لا : إلا أن أکبر رائھا أنه حق فلا باس بالتزوج"۔

عبارات مذکورہ سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اگر کسی عورت کو کسی شخص کے ذریعہ اس کے شوہر کے مرنے کی خبر ملے اور اس خبر پر اسے یقین کامل حاصل ہوجائے تو وہ عورت عدت وفات گزار کر دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔

شوہر اول کی موت کی خبر پر دوسری شادی کی پھر شوہر اول لوٹ آیا تو بیوی کس کے نکاح میں رہےگی؟
شوہر اول کی موت کی خبر پر دوسری شادی کی پھر شوہر اول لوٹ آیا تو بیوی کس کے نکاح میں رہےگی؟


صورت مسئولہ کا جواب:

پس سوال میں مذکور ہندہ کو جب یہ خبر ملی کہ اس کا شوہر زید انتقال کرچکا ہے اور اس خبر پر اسے یقین بھی ہوگیا اور اس نے زید کی وفات کی عدت گزار کر خالد سے نکاح کر لیا تو ہندہ کا یہ نکاح شرعٙٙا جائز و درست ہوا ۔ جب یہ نکاح شرعاً درست ہوا تو اب زید کے زندہ گھر واپس آنے کے سبب یہ نکاح باطل نہ قرار دیا جائے گا لہذا ہندہ خالد ہی کی زوجیت میں رہے گی کیوں کہ اگر ہندہ کو خالد کی بیوی نہیں بلکہ زید کی بیوی قرار دی جائے تو ایسی صورت میں اس نکاح کا (جو ہندہ نے خالد سے کیا ہے) چار سال کے ایام تک باطل ہونا لازم آئے گا جس نکاح کا صحیح ہونا شرعاً ثابت ہوچکا ہے اور ہندہ کا خالد سے نکاح کا شرعاً درست ہونا زید سے نکاح کے ختم ہونے کو متضمن ہے ۔ لہذا ہندہ شرعاً خالد ہی کی بیوی قرار دی جائے گی نہ کہ زید کی۔

ہندہ کی اولاد کا نسب زید سے ثابت ہوگا یا خالد سے:

اب رہی بات یہ کہ خالد سے نکاح کرنے کے بعد ہندہ کے بطن سے جو دو بچے پیدا ہوئے ہیں ان دونوں بچوں کا نسب زید سے ثابت ہوگا یا خالد سے؟ تو اس سلسلے میں امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا قول یہ ہے کہ بچے ہر حال میں شوہر اول کے ہوں گے لیکن صحیح یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے اپنے اس قول سے رجوع فرمالیا ہے جیساکہ تاتارخانیہ ، جلد چہارم ،ص: ٦١/ پر ہے إذا غاب عن امرأته وھی بکر أو ثیب عشر سنین فتزوجت وأتت بالأولاد فالأولاد من الزوج الأول عند أبی حنیفة وفی الخانیة وعن ابی حنیفة أنه رجع عن ھذا"۔

اور امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر بچے نکاح ثانی ہونے کے چھ مہینہ کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوئے تو یہ بچے شوہر اول ہی کے قرار دئے جائیں گے اور اگر نکاح ثانی کے چھ ماہ بعد پیدا ہوئے ہیں تو بچے شوہر ثانی کے قرار دئے جائیں گے ۔ جیساکہ اسی کتاب مذکور میں ہے 

"وکان أبو یوسف یقول : إن جاءت بالولد لأقل من ستة أشھر منذ تزوجھا الثانی فالأولاد للزوج الأول وإن جاءت بالولد لستة أشھر فصاعدًا منذ تزوجھا الثانی فالأولاد للزوج الثانی"_

اور ائمہ احناف کے نزدیک امام ابو یوسف علیہ الرحمہ ہی کا قول صحیح ہے جیساکہ فتاوی عالمگیری جلد اول ،ص: ۵٣٨ کی عبارت ظاہر ہے ۔

پس سوال میں مذکور ہندہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے ہندہ کا خالد سے نکاح ہونے کے چھ ماہ مکمل ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوئے ہیں تو وہ بچے زید کے ہیں اور اسی سے اس کا نسب بھی ثابت ہوگا اور اگر چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد پیدا ہوئے ہیں تو وہ بچے خالد کے ہیں اور اس کا نسب خالد ہی ثابت مانا جائے گا۔

فقط وَالله اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه أَعْلَم صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وسٙلّٙمْ

کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ.


الجواب صحیح

استاذالعلماء ،رئیس الفقہاء ،فقیہ العصر حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی جامعی دام ظلہ علینا

شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتا جامع اشرف کچھوچھہ شریف

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی

استاذ : مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ

Post a Comment

0 Comments