سیدنا امیر معاویہ: مختصر حیات و خدمات ,فضائل ومناقب اور آپ کے متعلق اہل سنت وجماعت کا موقف:

سخنہاے گفتنی:

صحابہ کرام اس خوش نصیب و مبارک جماعت کا نام ہے جن کی عظمت بیان کر پانا کسی عام انسان کے بس کا روگ نہیں ہے, بلکہ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کی تعریف خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و حدیث میں اعلی پیمانے پر کی ہے,وہ اس لئے کہ صحبت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عظیم تمغہ انہیں حاصل ہوا ہے قیامت تک کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ کوئی غیر صحابی ولایت کی کتنی ہی بلند چوٹی پر کیوں نہ فائز ہو کسی صحابی رسول کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے دلوں میں صحابہ عظام کا وقار بسائے رکھیں اور ان کے متعلق کوئی بھی نامناسب لفظ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

مگر ہائے قسمت ان لوگوں کی! جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہونے والے مشاجرات میں پڑ کر ان پاکباز ہستیوں کی شان میں جسارت کرتے ہیں اور اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔میں اہل تشیع اور روافض کی بات نہیں کر رہاہوں کیونکہ نار دوزخ تو ان کی تقدیر کا حصہ ہو ہی چکی ہے۔بلکہ میری مراد وہ حضرات ہیں جو خود کو سنی بھی کہتے ہیں اور جلیل القدر صحابی رسول حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اپنی زبان طعن دراز کرتے ہیں۔عریضہ ہے کہ کرسئ خطابت پر جاکر اتنی بڑی جرأت کرنے سے پہلے قرآن و احادیث اور اکابرین امت کی کتابوں کا بغور مطالعہ کرلیں,تاکہ اس رفیع القدر اور جانثار صحابی رسول پر کچھ بولنے میں خوف خدا ہو۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حیات مستعار اور اس میں آپ کی خدمات جلیلہ کی چند جھلکیاں ذیل میں نذر قارئین ہیں پھر ان شاء اللہ قرآن و سنت اور صحابہ کرام کے اقوال زریں سے آپ کے کچھ فضائل ذکر کیے جائیں گے اور پھر اخیر میں اکابرین أہل سنت وجماعت کی کتابوں سے آپ سے متعلق أہل سنت وجماعت کا عقیدہ پیش کیا جائے گا۔


حیات و خدمات:

نام و نسب: آپ کا اسم گرامی معاویہ اور کنیت ابو عبد الرحمن ہے۔

سلسلہ نسب کچھ یوں ہے"معاویہ بن صخر ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف"۔(تاریخ دمشق,جلد ٥٩,ص:٥٥)


حلیۂ مبارکہ: آپ بلند قامت,گورے اور نہایت ہی حسین و جمیل تھے۔اپنی ریشہائے مبارک میں خضاب استعمال کرتے تھے۔

ابو عبد رب کا بیان ہے کہ  میں نے معاویہ کو اپنی داڑھیوں میں زرد خضاب لگاتے ہوئے دیکھا,خضاب لگانے کے بعد آپ کی داڑھی سونے کی طرح چمکتی تھی۔(سیر اعلام النبلاء,جلد ٣, ص:١٢٠)


قبول اسلام: آپ کے اسلام قبول کرنےکے بارے میں صحیح یہی ہے کہ آپ کے دل میں صلح حدیبیہ کے موقع پر ہی ایمان جاگزیں ہوچکا تھا لیکن کفار مکہ اور بطور خاص اپنے والد ابوسفیان کے خوف سے اس کا اظہار نہ کر سکتے تھے۔آپ خود فرماتے ہیں"أسلمت یوم القضیۃ و کتمت أسلامی خوفا من أبی (تاریخ دمشق, جلد ٥٩,ص:٥٥)

ترجمہ: میں صلح حدیبیہ کے دن ہی اسلام کی دولت سے سرفراز ہوگیا تھا مگر اپنے والد سے اسے چھپاتا تھا۔

پھر اعلانیہ طور پر فتح مکہ کے دن اپنے والد (ابوسفیان), بھائی (یزید) اور والدہ ہندہ کے ساتھ دولت ایمان سے مالامال ہوئے۔(اسد الغابہ,جلد ٤,باب المیم و العین,ص:٤٣٣)

سیدنا امیر معاویہ: مختصر حیات و خدمات ,فضائل ومناقب اور آپ کے متعلق اہل سنت وجماعت کا موقف:
 سیدنا امیر معاویہ: مختصر حیات و خدمات ,فضائل ومناقب اور آپ کے متعلق اہل سنت وجماعت کا موقف:


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ میں شرکت:

آغوش اسلام میں آنے کے بعد آپ نے اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر مختلف جنگوں میں شرکت کی۔ان میں جنگ حنین یا جنگ ہوازن کافی یادگار ہے کہ اس میں خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔مسلمانوں نے اس جنگ میں عظیم جیت درج کی,جس کے نتیجے میں اموال غنیمت کا ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا۔حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب کے پیش نظر ان میں سے آپ کو سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی عنایت فرمائی جسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تول کر دیا۔( ملخصا از طبقات ابن سعد,جلد ٦,الطبقۃ الرابعہ عن الصحابۃ ممن اسلم عند فتح مکہ و ما بعد ذلک,ص:١٦)


کتابت وحی کا شرف:

بارگاہ رسالت میں آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے داخل اسلام ہوتے ہی سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کتابت وحی کے لئے منتخب فرمایا جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے

(١) حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں"کان المسلمون لا ینظرون ألی أبی سفیان و لا یقاعدونه, فقال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم:ثلث اعطنیھن,قال نعم,قال:عندی أحسن العرب و اجمله ام حبیبہ بنت ابی سفیان,ازوجکھا؟ قال نعم,قال و معاویۃ تجعله کاتبا بین یدیک؟ قال نعم,قال:و تؤمرنی حتی اقاتل الکفار کما کنت اقاتل المسلمین؟ قال نعم(صحیح مسلم, کتاب ذکر فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم,باب فضائل أبی سفیان,المجلد السادس,ص:٣٦٢, تحقیق و دراسہ:مرکز البحوث و تقنیۃ المعلومات دار التحصیل)

ترجمہ: مسلمان ابو سفیان کی طرف نہ تو دیکھتے تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ نشست و برخاست کرتے تھے, لہذا انہوں نے رسول اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ مجھے تین چیزیں عنایت فرمائیں, حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں, انہوں نے عرض کیا کہ میری بیٹی ام حبیبہ عرب کی سب سے خوبصورت خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں,آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں,پھر عرض کیا کہ معاویہ کو آپ اپنا کاتب بناتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں,پھر عرض کیا کہ مجھے امیر مقرر کرتے ہیں؟ تاکہ میں کفار سے ٹھیک اسی طرح لڑوں جیسے مسلمانوں سے لڑتا تھا,آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں یعنی ضرور۔


اس سلسلے میں مزید کچھ مرویات ملاحظہ ہوں:

(٢) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"کان معاویہ یکتب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سیر اعلام النبلاء,الجزء الثالث,ص:١٢٣)

ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وحی لکھا کرتے تھے۔

(٣) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے"کنت العب مع الغلمان فدعانی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و قال لی ادع لی معاویہ و کان یکتب الوحی (سیر اعلام النبلاء, حوالہ سابق)

ترجمہ: میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر حکم فرمایا کہ معاویہ کو بلا لاؤ کیونکہ وہ وحی لکھا کرتے تھے۔

(٤) ابن عساکر لکھتے ہیں"خال المومنین و کاتب وحی رب العالمین"(تاریخ ابن عساکر,جلد ٥٩,ص:٥٥,ذکر من اسمہ معاویہ)

ترجمہ:سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  مسلمانوں کے روحانی ماموں اور وحی رب العالمین کے کاتب ہیں۔

متذکرہ بالا روایات سے یہ مترشح ہوگیا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی ہونے کا مبارک شرف حاصل ہے۔

سماع و روایت حدیث:

جب یہ ثابت ہوگیا کہ آپ وحی لکھا کرتے تھے تو اسی سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں آپ کو خصوصی قرب حاصل تھا۔لہذا اس خاص صحبت سے استفادہ کرتے ہوئے دیگر صحابہ کی طرح آپ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کثیر احادیث سماعت کی اور افادۂ کی غرض سے ان میں سے چند کی روایت بھی فرمائی۔

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کے بیان کے مطابق آپ کی مرویات کل ایک سو تریسٹھ احادیث ہیں۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی,ص:٣٢٣,دار المنھاج لبنان-بیروت)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ نے اپنی بہن ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھما سے بھی روایت کی سعادت حاصل کی ہے۔(سیر اعلام النبلاء, جلد ٣, بیان معاویہ بن سفیان,ص:١٢٠)

آپ سے روایت کرنے والے حضرات: آپ سے روایت کرنے والوں میں صحابہ اور تابعین دونوں طرح کے حضرات شامل ہیں۔

صحابہ کرام میں حضرت عبداللہ بن عباس, عبداللہ بن عمر, عبداللہ بن زبیر,ابو الدرداء,جریر البجلی, نعمان بن بشیر وغیرہم رضی اللہ عنھم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔

جبکہ تابعین میں سعید بن مسیب اور حمید بن عبد الرحمن وغیرھما کے نام کافی اہم ہیں۔(تاریخ الخلفاء,حوالۂ سابق)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ میں آپ عہدۂ امارت پر: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پردہ فرما جانے کے بعد جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو انہوں نے شام کے شہر دمشق کا والی مقرر فرمایا۔پھر جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو یزید کا انتقال ہوگیا,اس وقت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یزید کی جگہ آپ کو بحثیت والئ دمشق منتخب فرمایا۔

اس وقت سے لیکر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پورے عہد میں حکمراں رہ کر آپ نے عظیم کارنامے سرانجام دیے, بطور خاص اسلامی حدود کی توسیع میں آپ کا بڑا نمایاں کردار رہا۔

پھر جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے امور ولایت میں آپ کی حسن تدبیر اور جانبازی کو دیکھ کر آپ کو پورے شام کا والی بنادیا۔ عہد عثمانی سے لیکر صلح امام حسن مجتبی تک آپ شام ہی کے حکمراں رہے,اس دوران کئی آزمائشی واقعے بھی رونما ہوئے جیسے شہادت عثمان اور ان کے قتل کے مطالبۂ قصاص کو لیکر آپ کا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ اختلاف,جس کے نتیجے میں جنگ صفین وجود میں آئی۔(اسد الغابہ, جلد ٤,باب المیم و العین,ص:٤٢٣)


بحیثیت امیر آپ کا سب سے بڑا کارنامہ:

یوں تو خلافت راشدہ میں آپ کی ایک سے بڑھ کر ایک کارکردگیاں ہیں مگر ان میں سب سے زیادہ عظیم کارنامہ میں بحری بیڑے کی ایجاد ہے۔

قبرص جو بحیرہ روم کا نہایت ہی شاندار اور اہم جزیرہ تھا,اس کو فتح کیے بغیر مصری و شامی مفتوحہ علاقوں کی حفاظت کسی طرح ممکن نہ تھی,اس بحری ناکہ کو سر کر کے رومیوں کے حملوں سے اطمینان حاصل کرنا از حد ضروری تھا۔اس لیے آپ نے خلیفۂ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بحری بیڑہ بنانے کی اجازت طلب کی, سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کسی مصلحت کے تحت اس سے منع فرمادیا۔

پھر سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آپ نے ان سے اس کی اجازت چاہی تو آپ نے بالآخر اجازت مرحمت فرمادی۔

پہلی بار اسلامی بحریہ بنا کر آپ نے رومیوں کو ایسی شکست فاش تھمائی کہ پھر کبھی قیصر روم کو آپ کو چیلنج کرنے کی جرات نہ ہوئی۔اس طرح اسلامی مفتوحہ علاقے ہر قسم کے خطرے سے محفوظ ہوگئے(حضرت امیر معاویہ خلیفہ راشد,ص:٧٠,٧١)

حضرت حسن مجتبی کی مصالحت اور آپ کی خلافت:

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کرسئ خلافت پر رونق افروز ہوئے تو ابھی چھ ماہ گزرے تھے کہ امام موصوف نے اہل عراق کے شدید اختلاف اور حالات کی ابتری کے مد نظر سنہ ٤١ ہجری میں زمام خلافت آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے آپ سے بیعت کر لی۔ اس طرح سے آپ رضی اللہ عنہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے بعد پورے عالم اسلام کے خلیفہ ہوگئے اور تا دمِ آخر اس منصب عالی کے فرائض انجام دیتے رہے۔(اسد الغابہ, جلد ٤,باب المیم و العین,ص:٤٢٣)

آپ نے اپنے دور خلافت میں حدود اسلامیہ کو ہر طرح سے وسعت دینے کی کوشش کی اور ایسے کارہائے جلیلہ انجام دئیے جو تاریخ کے روشن حروف میں ثبت ہیں۔


آپ کے عہد کے عظیم کارنامے:

کلمۃ اللہ کی سر بلندی اور عوام کی فارغ البالی:آپ کے عہد میں اسلام کا دوسرے ادیان باطلہ پر کیا غلبہ تھا اور عوام المسلمین میں خوشحالی کا کیا عالم تھا اس کو مختصر مگر نہایت ہی جامع عبارت میں علامہ ابن کثیر نے یوں بیان کیا ہے"و الجھاد فی بلاد العدو قائم و کلمۃ اللہ عالیۃ و الغنائم ترد الیه من اطراف الارض و المسلمون فی راحۃ و عدل و صفح و عفو (البدایہ والنہایہ,الجزء الثامن,ص:١١٩, مکتبۃ المعارف بیروت)

ترجمہ: آپ کے دور خلافت میں دشمنان اسلام کے ممالک میں جہاد قائم تھا,کلمۃ اللہ کو بالا دستی حاصل تھی,آپ کے دربار میں ہر طرف سے اموال غنیمت کی فروانی کے ساتھ آتے تھے تھی اور مسلمان سکون، انصاف اور عفو و درگزر سے مالامال تھے۔

فتنۂ رفض و خروج کا سد باب:

پ کے دور خلافت کا یہ کارنامہ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے کہ روافض و خوارج کی اس شدت کے ساتھ تردید کی گئی اور ان کی شر انگیزی اور شورش کو اس طرح قلع قمع کیا گیا کہ انہیں دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

سنہ ٤١ ہجری میں ایک خارجی فردہ بن نوفل نے خروج کیا تھا اسے زیاد بن ابی سفیان نے سختی سے پورا کردیا۔(حضرت امیر معاویہ خلیفۂ راشد,ص:١٣٧)

اہم فتوحات:

یوں تو آپ کی قیادت میں بہیترے علاقے اور قلعے فتح ہوئے مگر قبرص جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا,روڈس اور یونان کے بعض مضبوط جزیرے آپ رضی اللہ عنہ کے سب سے اہم کارنامے ہیں۔( حوالہ سابق,ص:١٤١,بحوالۂ الفتوحات الاسلامیہ)


محب کی ایک آخری وصیت:

حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت اور عقیدت کا اس سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب آپ مرض وفات میں مبتلا ہوئے اور تقریباً آپ کا وقت آخر آگیا تو یہ وصیت فرمائی کہ"مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس بابرکت کرتے میں کفنایا جائے جو انہوں نے مجھے پہنایا تھا۔اس کے علاوہ آپ کے پاس حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موہائے مبارک اور تراشے ہوئے ناخن شریف تھے, ان کے متعلق فرمایا کہ" وہ میرے منہ,ناک, آنکھوں اور کانوں میں رکھ دیے جائیں (ملتقطا از البدایہ والنہایہ,حلد ٨,ص:١٤٣)


وفات اور سپرد خاک:

اصح قول کے مطابق بروز جمعرات ١٥ رجب المرجب سنہ ٦٠ ہجری کو شہر دمشق میں آپ اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے رب سے جا ملے۔ نماز جنازہ ضحاک بن قیس نے پڑھائی۔اور باب الصغیر کی قبرستان میں مدفون ہوئے۔(البدایہ والنہایہ,حوالۂ سابق)

یہ رہا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حیات و خدمات کا مختصر جائزہ۔اب آئیے اختصار کے ساتھ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن و سنت میں آپ کے کیا فضائل وارد ہیں,آپ کے معاصرین کا آپ کے متعلق کیا موقف تھا اور أہل سنت وجماعت  آپ سے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہیں؟


شان امیرمعاویہ قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کے فرامین کی روشنی میں:

اوپر بیان کیا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو کتابت وحی کا شرف حاصل تھا اور اس کے لئے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا خصوصی انتخاب فرمایا تھا,نیز صحابہ و تابعین کی ایک کثیر جماعت نے آپ سے بیسیوں احادیث روایت کیں, علاوہ ازیں سیدنا و سندنا حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے خلافت جیسے عظیم الشان عہدے کی باگ ڈور آپ کو سپرد کر کے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ یہ ساری چیزیں اس بات پر صریحاً غماض ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم, صحابہ کرام اور تابعین عظام کے نذدیک آپ کا مقام بہت اعلی ہے۔اور یہی روایتیں آپ کی رفعت و عظمت کو واضح کرنے کے لئے کافی و وافی ہیں۔مگر مزید تشفی کی خاطر خصوصیت کے ساتھ آپ فضائل و کمالات سے متعلق اور کچھ پڑھتے چلیں ۔


قرآن میں آپ کے لئے مژدۂ حسنی:

اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے"لا یستوی منکم من أنفق من قبل الفتح و قاتل اؤلئک أعظم درجۃ من الذین أنفقوا من بعد و قاتلوا و کلا وعد اللہ الحسنی واللہ بما تعملون خبیر (سورۂ حدید,آیت:١٠)

ترجمہ:تم میں فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں,وہ مرتبے میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز کا وعدہ فرما لیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے صحابہ عظام کے دو درجے بیان کیے ہیں,ایک میں وہ حضرات ہیں جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لا کر اسلام کی مالی و بدنی حمایت کی اور دوسرے میں وہ حضرات ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد ایمان سے مشرف ہو کر أنفاق فی سبیل اللہ اور جہاد کے ذریعے اسلام کی آبیاری میں پیغمبر اسلام کا بھر پور ساتھ دیا۔پھر فرمایا کہ ان میں درجۂ اولی والے مقام و مرتبہ میں درجۂ ثانیہ والوں سے افضل و اعلی ہیں کیونکہ آغاز اسلام میں انہیں جن مشقتوں اور آزمائشوں کا سامنا رہا ہے وہ بعد والوں کے حصے میں نہیں آئیں,اس کے باوجود ان کا ایمان پر ڈٹے رہنا اور اسلام و رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نبھانا انہیں بعد میں آنے والے تمام مومنین سے ممتاز کرتا ہے۔اس تقسیم کے بعد فرمایا کہ طبقۂ اولی کے صحابہ ہوں یا طبقۂ دوم کے, سب سے اللہ نے"حسنی" کا وعدہ فرما لیا ہے۔

اور مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں"حسنی" سے مراد جنت ہے(تفسیر جلالین,ص:٤٤٩, تفسیر روح المعانی, جلد ١٤,ص:١٧١,سورۂ حدید, آیت:١٠)

لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خواہ وہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے ہوں یا فتح مکہ کے بعد,سب سے اللہ راضی ہے اور انہیں مژدہ جنت سنا چکا ہے۔

اور بالیقین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی کم از کم دوسرے طبقے کے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس وجہ سے لا محالہ وہ بھی وعدہ الہی کے حامل اور بشارت  جنت سے مبشر ہوئے۔

لہذا ان کی شان میں گستاخی کرنا اور انہیں العیاذ باللہ گمراہ بلکہ کافر قرار دینا بلا شبہ بربادئ ایمان و خلود فی النار کا سبب ہے۔

احادیث مقدسہ:

احادیث میں آپ کے فضائل کے دو رخ ہیں,ایک عام صحابہ کرام کے مناقب کے ضمن میں آپ کا ذکر اور دوسرے خاص آپ کی فضیلت کا بیان۔ اولا عمومی احادیث لکھے جاتے ہیں۔

(١) حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا"خیر أمتی قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم الخ۔۔۔(بخاری, کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم, الباب الاول, الحدیث:٣٦٤٩)

ترجمہ:میری امت میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرا زمانہ پایا پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔

(٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"أکرموا أصحابی فانہم خیارکم "(شرح العقائد النسفیہ,یکف عن ذکر الصحابۃ الا بخیر,ص:٣٤٢)

ترجمہ: میرے اصحاب کی تعظیم کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے بہتر ہیں۔

ان دونوں حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ میرے اصحاب جنہیں میرا دور پر بہار ملا,قیامت تک کوئی ان کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا, لہذا ان کا  اکرام بعد میں آنے والے تمام مومنین کے لئے لازمی ہے۔

(٣) ایک اور موقع پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا"اللہ اللہ فی أصحابی,لا تتخذوھم غرضا بعدی,فمن أحبھم فبحبی و من أبغضھم فببغضی و من آذاھم فقد آذانی و من آذانی فقد آذی اللہ و من آذی اللہ فیوشک أن یاخذه(شرح العقائد النسفیہ,حوالۂ سابق)

ترجمہ: میرے اصحاب سے متعلق اللہ سے ڈرو, انہیں میرے بعد اپنا نشانہ نہ بناؤ۔ پس جس نے ان سے محبت کی تو وہ میری محبت کی وجہ سے اور جس نے ان سے نفرت کی تو وہ مجھ سے نفرت کے سبب اور جس نے انہیں اذیت دی تو یقینا اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف دی در حقیقت اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی عنقریب اللہ اس کا مواخذہ فرمائے گا۔

اس حدیث میں اس چیز کو واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح دل سے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح ان کے تئیں زبان کو قابو میں رکھنا بھی لابدی ہے۔ بلکہ قربان جاؤں ان مبارک ہستیوں پر کہ ان کی اذیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تکلیف بلکہ اللہ رب العزت کی عین ناراضگی بتایا۔

ان حضرات کو سب و وشتم کرنے کی ممانعت پر ایک اور حدیث ملاحظہ ہو

(٤) حضرت ابو ہریرہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"لا تسبوا أصحابی فوالذی نفسی بیدہ لو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبا ما أدرک مد أحدھم و لا نصیفه (سنن ابن ماجہ,باب فضائل اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم, الحدیث:١٦١)

ترجمہ: میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو, کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر اللہ کی راہ میں سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد بلکہ نصف مد کو نہیں پہنچ سکتا۔

ان تمام احادیث طیبہ سے یہ نتیجہ نکلا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  خواہ وہ ابوبکر صدیق ہوں یا علی و معاویہ, امت کی افضل ترین جماعت میں شامل میں ہیں لہذا ان کی تعظیم کرنا اور ان کے خلاف اپنی زبان کو کنٹرول کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔


آپ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کبھی مسترد نہیں ہوتی ہے,آپ جس کے لیے بھی دعا کرتے ہیں اسے یقینا شرف قبولیت حاصل ہوتا ہے۔اس لحاظ سے بھی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات کافی اہمیت کی حامل ہے,اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے کئی مرتبہ دعائیں فرمائیں جیسا کہ سنن ترمذی شریف میں ہے:

(١) عبد الرحمن بن عمیرہ جو صحابی رسول تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ کے لئے اللہ کی بارگاہ میں یوں دعا کی"اللہم اجعله ھادیا مھدیا و اھد به "(سنن ترمذی, ابواب المناقب,باب مناقب معاویہ بن ابی سفیان, جلد ٦, الحدیث:٣٨٤٢)

ترجمہ:اے اللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے دوسروں کو ہدایت نصیب فرما۔

(٢) جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ولایتِ حِمص سے عمیر بن سعد کو معزول کر کے أمیر معاویہ کو وہاں کا والی مقرر فرمایا تو عمیر بن سعد نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا"لا تذکروا معاویۃ الا بخیر فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول"اللہم اھد به"(سنن ترمذی,حوالۂ سابق)

ترجمہ: اے لوگو! تم معاویہ کا ذکر خیر ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے لئے یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ اس(معاویہ) کے ذریعے لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔

ذرا غور کریں جنہیں ہدایت یافتہ بلکہ ہادی و رہنما ہونے کی سند سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے مل چکی ہو وہ نعوذباللہ گمراہ کیسے ہوسکتے ہیں۔

(٣)حضرت عرباض راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی"اللھم علم معاویۃ الکتاب و الحساب و وقه العذاب"(سیر اعلام النبلاء,الجزء الثالث,ص:١٢٤)

ترجمہ:اے اللہ معاویہ کو کتاب یعنی قرآن اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے اپنے عذاب سے آزادی بخش دے۔

جس ذات کو ہدایت, قیادت, فہم قرآن اور جہنم سے نجات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کے توسط سے بارگاہ خداوندی سے حاصل ہو اس کی مقبولیت کا کیا کہنا۔

آپ کے متعلق صحابہ کرام کے آرا:

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ کے تئیں آپ کے ہمعصر اصحاب رسول کا کیا نظریہ تھا اور ان کی نظر میں آپ کا کیا مقام تھا, چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے:

(١) حارث کا بیان ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم جب جنگ صفین سے لوٹے تو آپ نے فرمایا "أیھا الناس لا تکرھوا امارۃ معاویۃ,واللہ لو قد فقدتموه لقد رأیتم الرؤوس تندر من کواھلھا کالحنظل(مصنف ابن أبی شیبۃ, المجلد الحادی و العشرین, کتاب الجمل, باب ما ذکر فی صفین,ص:٤١٢)

ترجمہ: اے لوگو! تم معاویہ کی امارت کو ناپسند نہ کرو, کیونکہ بخدا اگر تم انہیں کھو دیتے تو سروں کو گردنوں سے حنظل پھل کی طرح گرتے ہوئے دیکھتے۔

(٢) اسی محدث نے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ جنگ صفین میں کسی نے کہ دیا کہ اہل شام کافر ہوگئے,حضرت عمار بن یاسر نے جب یہ سنا تو فرمایا"لا تقولوا ذلک,نبینا و نبیھم واحد,و قبلتنا و قبلتھم واحدۃ و لکنھم قوم مفتونون الخ۔۔۔۔(حوالۂ سابق,ص:٤٠٧)

ترجمہ:ایسا نہ کہو, کیونکہ ہمارے اور ان کے نبی ایک ہیں اور قبلہ بھی ایک ہی ہے البتہ وہ ایسے لوگ ہیں جو آزمائش سے گزر رہے ہیں۔

(٣) سید المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا"ما رأیت رجلا ھو أخلق للمک من معاویۃ"(تاریخ دمشق, جلد ٥٩,ذکر من اسمہ معاویہ,ص:٦١)

ترجمہ: میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو حکومت کا معاویہ سے زیادہ لائق اور حقدار ہو۔

(٤) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہی نے ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا"معاویۃ فقیه"(اسد الغابہ, جلد ٤,باب المیم و العین,ص:٤٢٤)

ترجمہ: معاویہ فقیہ ہیں۔

(٥) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب شام تشریف لے گئے اور آپ نے أمیر معاویہ کو دیکھا تو برملا بول پڑے"ھذا کسریٰ العرب "یعنی یہ تو عرب کے کسریٰ ہیں۔(اسد الغابہ,حوالۂ سابق)

ان اجلۂ صحابہ کے ارشادات عالیہ سے یہ واشگاف ہوجاتا ہے کہ ان کے دلوں میں سیدنا امیر معاویہ کے لئے کتنی عزت و محبت تھی, کوئی ان کی ہرزہ سرائی کرتا یا ان کی قیادت کو نا پسند کرتا تو اسے کس سختی سے منع کرتے,خصوصا مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا سیدنا امیر معاویہ کے بارے میں نظریہ دیکھیں۔ان کے علاوہ کثرت کے ساتھ ایسی روایات موجود ہیں جن میں سیدنا امیر معاویہ کے ساتھ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تراحم بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ سے متعلق اہل سنت وجماعت کا مذہب: مذکورہ اقتباسات میں ذکر کیے گئے فضائل اور ان جیسی سینکڑوں روایتیں جو کتب احادیث اور کتب سیر و تاریخ کی زینت ہیں,کے پیش نظر اہل سنت وجماعت کا موقف یہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول ہیں, ان سے حسن عقیدت ہر مومن کے لئے ضروری ہے۔اس کے بر خلاف ان سے سوء اعتقاد اور انہیں طعن و تشنیع کرنا یقیناً ضلالت و گمراہی ہے۔اور جو ایسا کرے وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ سخت عذاب اور سزا کا مستحق ہے۔ چنانچہ"شفاء" میں ہے

(١) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں"من شتم أحدا من أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم:أبا بکر أو عمر أو عثمان أو علیا أو معاویۃ أو عمرو بن العاص,فان قال: کانوا علی ضلال و کفر, قتل و ان شتمھم بغیر ھذا من مشاتمۃ الناس نکل نکالا شدیدا(الشفاء,الجزء الثانی,القسم الرابع, الباب الثالث,ص:١٨٤,دار الکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ: جس نے کسی صحابی رسول مثلا ابوبکر,عمر, عثمان,علی, معاویہ یا عمرو بن العاص کو برا بھلا کہا, پس اگر یہ کہے کہ یہ سب (العیاذ باللہ) کفر و ضلال پر تھے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔اور اگر اس کے علاوہ صرف عام سب و وشتم سے کام لے تو سخت سزا دی جائے گی۔

(٢) شرح العقائد النسفیہ میں ہے"و ما وقع بینھم من المنازعات و المحاربات فله محامل و تاویلات,فسبھم و الطعن فیھم ان کان مما یخالف الأدلۃ القطعیۃ فکفر کقذف عائشۃ رضی اللہ عنہا و الا فبدعۃ و فسق و بالجملۃ لم ینقل عن السلف المجتھدین و العلماء الصالحین جواز اللعن علی معاویۃ و أحزابه لأن غایۃ أمرھم البغی و الخروج علی الامام و ھو لا یوجب اللعن( شرح العقائد النسفیہ,یکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ,ص : ٣٤١,٣٤٢,٣٤٣, المکتبۃ المدینہ)

ترجمہ: اور صحابہ کرام کے مابین جو منازعات و اختلافات ہوئے ان کی بہتر تاویلات موجود ہیں, لہذا ان پر سب و وشتم اگر ادلۂ قطعیہ کے مخالف ہو تو کفر ہے جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت باندھنا, اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی ادلۂ قطعیہ کے ساتھ اس کا تعارض نہ ہو) تو گمراہی و فسق ہے۔اور بہر حال مجتہدین سلف و علمائے صالحین سے معاویہ اور ان کے رفقا کو لعن طعن کرنے کا جواز منقول نہیں ہے, کیونکہ ان کا معاملہ صرف اتنا ہے انہوں نے امام کے خلاف بغاوت و خروج کیا تھا اور  یہ چیز ان کو ملامت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔

(٣) سیدی اعلٰی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں"و به ظھر أن الطعن علی الأمیر معاویۃ رضی اللہ عنه طعن علی الامام المجتبی بل علی جده الکریم صلی اللہ علیہ وسلم بل علی ربه تبارک و تعالیٰ,فان تفویض أزمۃ المسلمین بید من ھو کذا و کذا -بزعم الطاعنین-خیانۃ للاسلام و المسلمین و قد ارتکبھا- معاذ اللہ-الامام المجتبی و ارتضاه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ھو "و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی" فاحفظه فانه ینفع من أراد الله ھداه (المعتمد المستند, الباب الرابع فی الامامۃ ,المعتقد المنتقد ص:٣١١,٣١٢,دار اہل السنہ, کراچی)

ترجمہ:اسی (صلح امام حسن) سے ظاہر ہوگیا کہ أمیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن در حقیقت حضرت امام مجتبی رضی اللہ عنہ پر بلکہ ان کے جد کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر طعن ہے, کیونکہ مسلمانوں کے ایک عظیم منصب کو طاعنین کے زعم کے مطابق کسی نا اہل کو تفویض کرنا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت ہے اور العیاذ باللہ حضرت حسن مجتبی نے اس کا ارتکاب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے راضی رہے (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صلح کی پیشینگوئی فرمائی تھی کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح فرمائے گا (صحیح البخاری, کتاب الصلح,باب قول النبی للحسن بن علی الخ) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ان کی ہر بات وحی الہٰی ہوتی ہے(لہذا اس سے ثابت ہوا کہ أمیر معاویہ پر سب وشتم حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں جرات کرنا ہے اور اس کا انجام کتنا برا ہوسکتا ہے اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے) لہذا اس کو ذہن نشین کر لیں کیونکہ یہ اسے ضرور نفع دے گا جس سے اللہ ہدایت کا ارادہ فرمائے۔

(٤) بہار شریعت میں آسان انداز میں اس کا حکم یوں بیان کیا گیا"کسی صحابی کے ساتھ سوء عقیدت بد مذہبی و گمراہی و استحقاق جہنم ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے,ایسا شخص رافضی ہے, اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سنی کہے مثلاً حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابو سفیان اور والدۂ ماجدہ حضرت ہند الخ۔۔۔۔(بہار شریعت, حصہ اول, امامت کا بیان,ص:٢٥٢,٢٥٣, دعوت اسلامی)

خلاصۂ باب:

ان تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہ ایک معزز و صاحب کمالات صحابی رسول ہیں,ان سے  قرآن مجید میں جنت کا وعدہ ذکر کیا گیا ہے,ان کی فضیلت پر بکثرت احادیث و آثار وارد ہیں اور کتب سیر و تاریخ کے اوراق ان کے عظیم کارناموں سے مزین ہیں, لہذا ان سے محبت در اصل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور ان کے ساتھ بغض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے۔اور جو ایسا کرے وہ بالیقیں گمراہ و رافضی و مستحق نار جہنم ہے۔یہی ہم اہل سنت وجماعت کا نظریہ ہے۔و اللہ اعلم بالصواب

اخیر میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اہل سنت وجماعت پر سختی سے قائم رہنے کی توفیق بخشے اور ہمارے دلوں کو جملہ صحابہ کرام کی بے پناہ محبت و مودت سے آباد رکھے۔آمین


از قلم: محمد سرور عالم اشرفی, اتردیناج پور

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی

Written by: Md. Sarwar Alam Ashrafi, U/d

Post a Comment

0 Comments