زکوۃ :ایک انقلاب آفریں نظام، فلسفہ زکوٰۃ، زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت

رب کائنات نے اپنے رسول کی وساطت سے انسان و انسانیت کو قرآن مجید کے پیکر میں آئین زندگی اور دستور حیات کا ایک عظیم تحفہ عطا فرمایا ہے۔اس کی ایک ایک بات اپنے اندر فوائد و نکات اور ابدی حقیقتوں کی بےپناہ موتیاں لیے ہوئی ہے۔جس میں سماج و قوم،ملک و ریاست ہر ایک کے واسطے دنیوی و اخروی لازوال فلاح و ظفر کے نقوش و خطوط ثبت ہیں اور ایسا ہو بھی کیوں نا,کیونکہ اس کا منزِّل خالق و حکیم ہے اور علیم بھی جس کے دست قدرت میں نظام کارخانۂ ہستی کا باگ ڈور ہے۔

جی ہاں! اسی حکیم و قدیر نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ہمیں زکوۃ کا سسٹم بھی فراہم کیا ہے جو اسلام کا رکن ثانی اور اہم فرائض مالیہ ہے،چنانہ ارشاد ربانی ہے :

وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ [سورہ بقرہ،٤٣] [اور زکوٰۃ دو]

اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْعَامِلِيْنَ عَلَيْـهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُـهُـمْ وَفِى الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۖ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ عَلِيْـمٌ حَكِـيْـمٌ[ سورہ توبہ,٦۰] 

[ ترجمہ کنزالايمان: زکوٰۃ تو انہيں لوگوں کے لئے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصيل کرکے لائيں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنيں چھوڑانے ميں اور قرضداروں کو اوراللہ کی راہ ميں اور مسافر کو]

سطور بالا آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے جن افراد و اشخاص کو مستحقین زکوۃ کے زمرے میں شامل فرمایا ہے،ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو مال و دولت سے تہی دست ہوتے ہیں,معاشرے میں مالی اعتبار سے بچھڑے اور کمزور ہوتے ہیں،اپنی ضروریات و احتیاجات پورا نہیں کر سکتے۔تو یہی سے ایک بات صاف ہوگئی کہ اللہ تعالی نے زکوۃ کا مقصد جہاں حکم الہی کی تعمیل کراکے صاحب زکوٰۃ کو بےپایاں اجر و ثواب اور دنیوی و اخروی  سعادتوں سے بہرہ ور کرانا ہے وہی اس کی غرض سماج کے غریبوں،فقیروں اور مسکینوں کے گھروں میں خوش حالی و آسودہ حالی کی قندیلیں روشن کرنا ہے،انہیں مفلوک الحالی و بدحالی کی وادی سے نکال کر مرفہ الحالی و فارغ البالی کے شارع عام پر کھڑا کرنا ہے, سوسائٹی کو تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے, مکلفین زکوۃ کو بخالت و تنگ دلی جیسی مذموم صفت اور مال و دولت کی بےجا محبت سے نجات دلا کر ان کے دلوں میں اللہ و رسول کی محبت, انسانیت کی چاہت و خیر خواہی اور اسلامی اخوت و بھائی چارگی کی تخم عمل ڈالنا ہے تاکہ غریب اپنی غربت پر نالاں نہ ہو,مسکین اپنی مسکینی پر گریاں نہ ہو,مال دار پر اپنی مال داری کی عرش نشینی کے سقم میں مبتلا نہ ہو بلکہ معاشرے پر اعتدال و سکون کی بدلیا سایہ فگن رہیں۔

رب قدیر کے نظام ہستی کا بوقلموں جلوے تو دیکھیے کہ اس نے امیری و غریبی کا سسٹم جاری فرمایا تاکہ امیر کو غریب کی ضرورت پڑے اور غریب کو امیر کی تاکہ کاروان عالم،اعتدال کے حصار میں اپنے منزل کی طرف رواں دواں رہے پھر اغنیا کے اموال سے غربا و فقرا کے حقوق متعلق فرما کر دونوں طبقوں کے درمیان اس ناگزیر نشیب  و فراز سے جنم لینے والے تمام مسائل کی گتھیاں سلجھا دیں۔

محترم قارئین: جو مذہب اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم و انقلاب آفریں نظام فراہم کرتا ہے۔پھر اس کے متبعین کا سب سے زیادہ بھکاری کی چکی میں پسنے  کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی۔واقعی اگر آج اس قانون الہی پر پوری طرح عمل درآمد ہوجائے تو ہر سو تجدید و انقلاب کی نوید جانفزا سنائی دے۔ مسلم ممالک میں جو بھوک مری کی سیاہ فام بادلیں  سایہ گستر ہیں،وہ یک قلم چھٹ جائیں بلکہ دنیا ترقی یافتہ قوموں کی کے دوش بدوش چل سکتے ہیں۔مسلم محلوں کے روزن سے نکلتے,مفلسی و قلاشی کے دھواں صاف و شفاف ہوجائے۔مسلمان یا مسلمان کے اوٹ میں دست درازی کا جو سیلاب جاری ہے,اس پر بریک لگ جائے بلکہ دیگر کثیر مسائل حل ہوجائے۔ مدارس اسلامیہ جن کے دوش پر آج دینی بقا کی عمارت ٹکی ہوئی ہے، کے در و بام سے آتی کس مپرسی کی آہ و فغاں یکایک دب جاۓ۔انہیں پھلنے پھولنے کا حیات نو میسر آجائے اور بآسانی فروغ و ارتقا کی راہ چلے۔

زکوۃ :ایک انقلاب آفریں نظام، فلسفہ زکوٰۃ، زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت
زکوۃ :ایک انقلاب آفریں نظام، فلسفہ زکوٰۃ، زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت


ارشاد باری تعالیٰ ہے :

الَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [المعارج: 25]

یعنی وہ لوگ جن کے اموال میں مانگنے والے اور محروم کے لیے ایک معلوم حق ہے[وہ حریص و بےصبرا نہیں ہوتے ]

مذکورہ بالا آیت میں واضح حکم ہے کہ اغنیا کے مالوں سے محتاج کا حق بھی متعلق ہے,اس سے احسان جتانے کا دروازہ بھی مقفل ہوگیا۔اب کوئی کسی مستحق کو زکوٰۃ دے کر احسان نہیں جتلا سکتا ہے۔ورنہ اس کا مقصد اصلی غارت ہوجائے گا۔اس سے لینے والے کے عزت نفس کا بھی تحفظ ہوگیا۔ضروریات کی تکمیل بھی۔یہ اسلام کا طرۂ امتیاز ہے۔جو کسی اور مذہب و کلچر میں  نہیں.

مذکورہ بالا باتوں سے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھ گیا کہ اسلام انسان و انسانیت کی بہی خواہی و خیر خواہی چاہتا ہے،وہ فرد کو صرف فرد کی حیثیت سے نہیں ،اجتماعیت و معاشرتی زاویے سے دیکھتا ہے۔ "الدين نصح"بھی یہی پیغام دیتا ہے بلکہ کسی مسلمان کی مسلمانی حقوق العباد کے بغیر درجۂ کمال کو نہیں پہنچتی۔ وہ اپنے حلقہ بگوشوں کو دونوں جہاں میں سرخ رو دیکھنا چاہتا ہے،انہیں ایک کامیاب و اعلی شہری کی روپ میں ڈھالنا چاہتا ہے ۔جہاں وہ روحانیات کا تقاضا کرتا ہے وہی مادیات کا بھی پرزور مطالبہ کرتا ہے،اسباب و لوازمات حیات کا جبری مانگ کرتا ہے۔اسی لیے تو اس نے تصور رہبانیت کی عمارت کو زمیں دوز کردیا۔غرض کہ فلسفۂ زکوۃ ہمیں بتلاتی ہے کہ دین اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کے عطر مجموعہ کا نام ہے اور یہ اس کا بہترین مظہَر و مظہِر ہےتو ہے کوئی گوش شنوا جو قبولیت کی کان سے سنے! ہے کوئی دل بینا جو عبرت کی سے نگاہ دیکھے!

اللہ تعالٰی ہماری قوم کو دینی و ملی حمیت و سمجھ اور اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

    

ازقلم گوہر رقم : محمد لعل بابو اشرفی علائی، اتر دیناجپور

Post a Comment

0 Comments