تذکرۂ خدیجۃ الکبریٰ، ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حالات زندگی

جب عرب کے کفر و شرک آلود مطلع میں خورشید اسلام طلوع ہوا،نقارۂ توحید بجا اور ایک معبود برحق کی دہلیز تک آنے کی دعوت ہوئی تو خواتین میں سب سے پہلے خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کو لبیک کہنے اور دل و جان سے دامن اسلام تھامنے کا شرف حاصل ہوا۔آپ نے رسول گرامی وقار کی قرب و معیت کے سایے تلے رہ کر اپنے مال و متاع،جود و سخا،فہم و فراست اور دگر خصال حمیدہ کے ذریعے شجر اسلام کی آبیاری اور گلستان حق کی چمن آرائی کی۔ہر حال میں اپنے شوہر نامدار کی رفاقت میں ایسی خوش اسلوبی اور اچھے طریقے سے زندگی کے لیل و نہار بتائیں جو تا قیامت مسلم معاشرے کے لیے مشعل راہ ہے۔ہم آئندہ سطور میں انہیں پر روشنی ڈالیں گے:

ولادت : آپ کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ہوئی

نام و القاب: آپ کا نام خدیجۃ بنت خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ ہے۔ام القاسم, ام ھند کنیت اور الکبری،طاہرہ اور سیدۃ قریش القاب ہیں۔

دور جاہلیت: میں بھی آپ پاکدامن و پارسا تھیں۔ لوگ آپ کو"طاہرہ" کہہ پکارتے تھے.

اولین ازدواجی زندگی: آپ سب سے پہلے ابوہالہ ھند بن نباش بن زرارہ تمیمی کے حبالۂ عقد میں آئیں۔ اس سے ایک ہالہ نامی بیٹا پیدا ہوا۔اس کے فوت ہونے کے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے ساتھ ازدواجی زندگی میں منسلک ہوئے۔ اس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی, جس کا نام ہند تھا۔پھر یہ وفات پا گیا۔

[ابن سعد، الطبقات الكبرى ط العلمية، ١١/٨]

رؤساے قریش کا پیغام نکاح: چونکہ آپ ایک دور اندیش،پرعزم، باہمت و حوصلہ مند اور معزز و باکرامت،قریش کی اعلی نسب،بلند رتبہ اور سب سے زیادہ مالدار خاتون تھیں,اسی لیے قریش کے رئیسوں نے آپ سے نکاح کی خواہش اور خوستگاری کا اظہار کیا ۔ اس کے لیے ان لوگوں نے آپ  کے مال و دولت کی پیش کش بھی کی لیکن آپ نے انکار کر دیا۔اور کسی اعلی کردار رفیق کے جستجو میں رہیں۔

عقد نکاح اور پس منظر: جب میسرہ نے حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کو سفر شام سے واپسی کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کے صدق و صفا،دیانت و امانت داری اور تجارتی ہنرمندی،اموال میں تجارت پہلے سے کئی گنا منافع اور دوپہر کو دھوپ کی تپش کے وقت آپ ﷺ کے اوپر دو فرشتوں کا سایہ فگن ہونے کا غیر معمولی واقعہ اور راہب کی پیشین گوئیاں آپ کے گوش گزار کیا تو آپ سرکار ﷺ سے متأثر ہوے بغیر نہیں رہ پائیں۔ چنانچہ آپ نے آقا ﷺ کو نفیسہ کی وساطت سے پیغام نکاح دیا اور یہ عقد مسعود وجود میں آیا۔اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی ۔سرکار ﷺ پچیس سال کے تھے [تفصیل کے لیے دیکھیں ابن سعد ,الطبقات الكبرى ط العلمية ,1/103,4,5]

تذکرۂ خدیجۃ الکبریٰ، ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حالت زندگی
تذکرۂ خدیجۃ الکبریٰ، ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حالات زندگی


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہر سکھ دکھ رنج و محن, غم و الم ہر لمحہ اپنے سر تاج کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔رسول اکرم ﷺ کی دلجوئی اور خوشنودی کو معراج و مقصد حیات اور کل کائنات سمجھیں ۔ حالات و اوقات کتنے ہی مشکل اور کٹھن ہوں،کبھی آپ کی جبین اقدس پر شکن نہ آیا۔کبھی شکوہ سنج نہ ہوئیں۔اور اپنے شب و روز کو اس پاکیزگی و صفائی سے گزارا کہ آپ کی زندگی دختران اسلام کے لئے مینارۂ رہنما بن گئی۔ حتی الامکان آپ نے اپنے مال و دولت کے ذریعہ راہ اسلام میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کیں۔ بہتیرے خوش نصیب آپ کے سبب دہلیز اسلام تک پہنچے ان تمام چیزوں کا بدلہ اللہ نے خوب عطا فرمایا اور ایسی سرفرازی سے نوازا کہ جہاں وہم کا پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا,چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

رب کی طرف سے سلام: جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رَسولَ اللہ! صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا برتن لارہی ہیں جس میں کھانا اورپانی ہے جب وہ آجائیں توانہیں ان کے رب کا اور میراسلام کہہ دیں اوریہ بھی خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہوگا اور نہ کوئی تکلیف۔

سرکار کا قلبی لگاؤ: آقا علیہ السلام کو حضرتخدیجہ سے حد درجہ دلی لگاؤ تھا۔ گاہے بگاہے ان کے ذکر جمیل سے آپ ﷺ ازواج مطہرات کی مجلس کو پرکیف بناتے,چنانچہ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ازواج میں سے کسی پر اتنی غیرت(رشک) نہیں کی جتنی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ پر کی حالانکہ کہ میں نے انہیں دیکھا نہیں تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بہت ذکر کیا کرتے تھے بہت دفعہ بکری ذبح کرتے پھر اس کے اعضاء کاٹتے پھر وہ جناب خدیجہ کی سہیلیوں میں بھیج دیتے تھے تو میں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتی گویا خدیجہ کے سوا دنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی تو آپ فرماتے وہ ایسی تھیں وہ ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔

خدیجہ کی افضلیت: عن علی قال سمعت رسول اللہ یقول: خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ بنْتُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بنْتُ خُوَيْلِدٍ.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا کہ اس کی بہترین بی بی مریم بنت عمران ہیں اور اس کی بہترین بی بی خدیجہ بنت خویلد ہیں.

اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں :ها ضمیر کا مرجع دنیا ہے یعنی ایک وقت میں جناب مریم جہاں کی عورتوں سے افضل تھیں.

 اب تا قیامت خدیجہ جہان کی عورتوں سے افضل ہیں

( مرآۃ المناجیح ج,۸ ,۴۴۷)

جود و سخا: آپ نے خود کو خدمت نبی میں وقف کرنے کے ساتھ اپنی ساری پونجی کو بھی در مصطفی پر نچھاور کردیا تھا ۔ چنانچہ: حضرت محمد بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارگاہ میں آئی اور قحط سالی اور  مویشیوں کے ہلاک ہونے کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے گفتگو فرمائی اور آپ نے چالیس اونٹ اور بکریاں دے دیں.

[ابن سعد ,الطبقات الكبرى ط العلمية ,1/92]

خصوصیات و امتیازات : آپ کی حیات مبارکہ میں سرکار نے دوسری شادی نہیں کی۔

حضرت ابراہیم کے علاوہ سرکار کی ساری اولادیں آپ سے ہوئیں.

آپ سے کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس سے سرکار کے طبع ناز پر گراں گزرا ہو.

آپ سارے سادات کی نانی جان ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نسل پاک حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہرا سے چلی ہے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی شہزادی ہیں.

آپ وہ خوش نصیب ترین خاتون ہیں جنہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رفاقت اور ہمراہی میں کم و بیش 25 سال رہنے کا شرف حاصل ہے۔

ظہور نبوت کی سب سے پہلی خبر آپ ہی کو پہنچی.

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے آپ نے ہی نماز پڑھیں اور حضور کی اقتدا میں پڑھیں .

عورتوں میں سب سے پہلے آپ ہی کو اسلام لانے کی سعادت حاصل ہوئی.

شعب ابی طالب اور وصال: جب کفار قریش نے مکہ کی سر زمین کو سرکار ﷺکے لیے تنگ کردیا اور معاشرتی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا تو آپ ﷺ، اپنے خاندان اور خدیجۃ رضی اللہ  کے ہمراہ دو سال شعب ابی طالب میں محصور رہے جس میں بے پایاں صعوبتیں اور کلفتیں جھیلیں بایں سبب آپ رضی اللہ عنہا پر ضعف و نقاہت طاری ہوگئی اور اسی میں آپ کا وصال ہوا۔حضور کو بے حد صدمہ پہنچا. یہ بعثت نبوی کے دسواں سال اور دس رمضان المبارک تھا۔


از قلم :لعل بابو اشرفی, اتر دیناج پور ,بنگال

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی

Written By Lal Babu Ashrafi

Post a Comment

0 Comments