رمضان المبارک اور اس کے تقاضے، روزہ انسان کو رب سے ملاتا ہے.

اللہ رب العزت ہر سال اپنے بندوں کو رمضان المبارک جیسے پربہاروبابرکت مہینہ کی شکل میں اپنی خصوصی رحمتوں, برکتوں اور انعامات و نوازشات کا ایک عظیم تحفہ عنایت کرتا ہے۔یقیناً یہ سعادتوں بھری ماہ انوار و تجلیات الہی کے نزول کا فصل بہار ہے۔اس طرح سے یہ مہینہ اللہ تعالٰی کا اپنے بندوں پر ایک احسان عظیم ہے اور نعمت غیر مترقبہ بھی۔جس طرح خداوند متعال نے اسے دوسرے مہینوں پر فوقیت عطا فرمائی ہے,اس میں اپنے خصوصی الطاف و عنایات کی گوہر باری کا اعلان فرما کر اسے اعزاز بخشا ہے,اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ اس کے حسنات و برکات سے بہرہ مند ہونے کےلیے اپنا محاسبہ کریں, اپنے اندر انقلاب پیدا کریں اور دوسرے مہینوں کی طرح اسے بھی غفلت و کوتاہی کی نذر نہ کریں,خوب خوب اس سے فائدہ اٹھائیں۔

چونکہ یہ شهر الله ہے،اس میں ایک اہم فرضیت کی ادائیگی ہوتی ہے اور فضل مولا کی جھماجھم بارش بھی، اس لیے بدیہی طور پر اس کا تقاضا ہے کہ:

ایک بندۂ مومن روزے کی پابندی کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق و کردار اور معمولات زندگی کو شریعت و سنت نبوی کی کسوٹی پر رکھ کر دیکھے،ان میں تبدیلی لاۓ, سنت نبوی کا رنگ چڑھاۓ۔ظاہر کو بہتر بنانے کے ساتھ باطن کو بھی صیقل کرے،اپنے افکار و خیالات کو پاکیزہ رکھے۔

دوسروں کے ساتھ ہمدردی و حسن سلوک کا برتاؤ, حقوق العباد کا خاص خیال اور حتی الامکان صدقہ و خیرات کا اہتمام کرے کہ اس مہینے میں اللہ تعالٰی ہر نیکی کا اجر کئی گنا عطا فرما تا ہے۔

حضور ﷺ کا ارشاد ہے :عن بن عباس أنَّ النبيَّ ﷺ كان إذا دخل شهرُ رمضانَ أطلَقَ كُلَّ أسيرٍ وأعطى كلَّ سائلٍ.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رمضان آتا تھا تو حضور ﷺ ہر قیدی کو آزاد فرمادیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔

  اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان رقم طراز ہیں : حق یہ ہے کہ یہاں قیدی سے مراد وہ شخص جو حق اللہ یا حق العبد میں گرفتار ہو اور آزاد کردینے سے اس کا حق ادا کردینا یا کرادینا مراد ہے۔[چند سطر بعد]یوں تو سرکار ہمیشہ ہی ہر سائل کو دیتے تھے۔کریم ہیں, سخی ہیں, داتا ہیں مگر ماہ رمضان میں آپ کی سخاوت کا سمندر موجیں مارتا تھا۔[مرآۃ المناجیح,ج,٣,ص, ١٥٤]

مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ (مشکوۃ شریف,جزء الحدیث)

رمضان المبارک اور اس کے تقاضے، روزہ انسان کو رب سے ملاتا ہے.
 رمضان المبارک اور اس کے تقاضے، روزہ انسان کو رب سے ملاتا ہے


جو اس میں نفلی بھلائی سے قرب الٰہی حاصل کرے,اس شخص کی طرح ہوگا جو دوسرے ماہ میں فرض ادا کرے, اور جواس ماہ میں ایک فرض ادا کرے اس شخص کی طرح ہوگا جو کسی دوسرے مہینہ ستر فرض ادا کرے۔

اپنے شب و روز کے اکثر حصے کو توبہ و استغفار ، تزکیۂ نفس, ذکر و فکر اور تلاوت قرآن کی ٹھنڈی چھاؤں میں گزارے۔قیام اللیل(تراویح) کی پابندی کرے،ہوسکے تو تہجد کے ذریعے بھی اپنی رات کو زندہ کرے۔

روزہ صرف ایک مخصوص طریقے سے کھانے پینے اور جماع سے باز رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزے کی اصل روح یہ ہے کہ بندہ امساک کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعضا و جوارح کو گناہ سے دور رکھے،خواہشات نفسانیہ کو زنجیروں سے جکڑ دے,اپنے دل و دماغ کو اپنے رب کی جانب متوجہ کرے تب جاکر روزہ کامل و اکمل ہوگا اور اس کی روحانیت و فوائد حاصل ہوں گے۔

اس لیے بندے کو چاہیے کہ اپنی زبان کو شریعت کا لگام دے، آنکھوں پر خوف الہی کا پردہ ڈالے،پیروں اور ہاتھوں کو خشیت ربانی کی بیڑیوں میں جکڑے،سماعتوں کے در پر شریعت کا پہرا بٹھاۓ،اپنے مزاج و بیان اور رویے کو سنت نبوی کا آئینہ دار بناۓ، سرکار ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ "[ مشکوٰۃ شریف, ج, ۲,ص, ٣٥٣] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنااور برے کام ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔[یعنی ایسے شخص کا روزہ قبول نہیں فرماتا]

یہ حدیث بہت جامع ہے۔اس میں ہر طرح کی ناجائز گفتگو،برے کام اور دیگر اعضاے بدنیہ کے گناہ شامل ہیں۔روزہ شرعا درست ہوگا مگر قبول نہیں ہوگا[تلخیص, مرآۃ المناجیح,ج,٣ص,١۷١]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "رُبَّ صَائِمٍ حَظُّهُ مِنْ صِيَامِهِ الْجُوعُ وَالْعَطَشُ، وَرُبَّ قَائِمٍ حَظُّهُ مِنْ قِيَامِهِ السَّهَرُ ".[ مسند احمد, الجزء رقم :14، الصفحة رقم:445]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمایا: بہت سارے ایسے روزہ دار ہیں جن کا حصہ ان کے روزے سے(صرف)بھوک اور پیاس ہے,[ مراد وہ لوگ جو روزہ رکھے اور روزہ کے حقوق کی بجاآوری نہ کرے]اور بہت سارے,(رات کو) قیام کرنے والے ایسے لوگ ہیں کہ ان کا حصہ ان کے قیام سے (صرف)شب بیداری ہے (یعنی انہیں کوئی فائدہ نہیں ملتا)


ازقلم : لعل بابو اشرفی، اتر دیناج پور، بنگال

پیشکش؛ محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی



Post a Comment

0 Comments