عورت اپنی میکہ میں فرض نماز میں قصر کرے گی یا پوری پڑھے گی

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ثانیہ میری شادی میری میکہ سے تقریبا ایک سو دس کلو میٹر کی دوری پر ہوئی ہے اور وہ وہیں پر یعنی میں اپنے سسرال میں برسوں سے رہ بھی رہی ہوں، کبھی کبھی شادی وغیرہ دگر پروگرامات کے موقعوں پر اپنی میکہ بھی آتی جاتی رہی ہوں ۔ اور جب جب میں دو چار دن کے لیے آئی گئی تو ہمیشہ میں نے اپنی میکہ میں قصر کیا ۔ کچھ روز قبل پھر میں ایک دو روز کے لیے اپنی میکہ گئی ہوئی تھی تو میں نے حسب دستور سابق فرض نماز میں قصر کیا تو ایک عمر نام کے شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ ایسا غلط کر رہی ہیں آپ کو قصر نہیں کرنا ہے بلکہ آپ کو پوری نماز پڑھنی ہے اس لیے کہ یہ آپ کی میکہ ہے اور میکہ اپنا ہی گھر یعنی آپ کا وطن اصلی ہے اور وطن اصلی میں پوری نماز پڑھنی پڑتی ہے ۔

تواب پوچھنا یہ ہے کہ مجھے اپنی میکہ میں نماز میں کرنا ہے یا پھر پوری نماز پڑھنی ہے؟

اور عمر جو یہ کہہ رہا ہے میکہ میں پوری نماز پڑھنی ہے اس لیے کہ وک وطن اصلی ہے تو کیا عمر کا یہ قول درست ہے؟جواب عنایت فرمائیں ۔


الجواب بعون الملک الوھاب

آپ جو فرض نماز میں قصر کرتی آئی ہیں وہ بالکل صحیح ہے ۔ عمر صاحب جو کہہ رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس پر عمل نہ کریں۔  

شریعت مطہرہ میں لکھا ہے کہ جو عورت شادی کے بعد عام طور پر اپنے شوہر کے شہر ہی میں رہتی ہے اور اس کے شوہر کا شہر ان کی میکہ سے تین دن کی مسافت یعنی 92 کلو میٹر یا اس سے زائد کی دوری پر ہے تو اب اس عورت کے لیے اس کے ماں باپ کا شہر وطنِ اصلی نہیں رہ جاتا بلکہ اب وہ اس کے لیے رہائشی وطن ہوجاتا ہے۔لہذا اب اگر وہ عورت اپنے میکہ جائے گی اور پندرہ دن سے کم رکنے کی نیت کرے گی تو ان کو فرض نماز میں قصر کرنا ہوگا یعنی چار رکعتی فرض دورکعت پڑھنی ہوگی۔ 

۔فتاوی ردالمحتار جلد دوم ، ص:  ١٣٢/ میں ہے :

"( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه لا بما دونه، ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر".

عورت اپنی میکہ میں فرض نماز میں قصر کرے گی یا پوری پڑھے گی
عورت اپنی میکہ میں فرض نماز میں قصر کرے گی یا پوری پڑھے گی


اور بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع جلد اول،  ص: ١٠٣/ میں ہے: "مطلب في أن الأوطان ثلاثة(ثم) الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بھا"۔

(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يومًا أو أكثر.

(ووطن) السكنى: وهو أن يقصد الإنسان المقام في غير بلدته أقل من خمسة عشر يومًا."

ان عبارات مذکورہ بالا سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ جو عورت شادی کے بعد مستقلاً سسرال رہنے لگی ہو تو اب اس کا اصلی گھر سسرال ہے۔ اگر وہ میکے آئے جو تین دن کی مسافت یعنی ٩٢/  کلو میٹر پر ہے تو وہ قصر نماز پڑھے گی جب تک کہ وہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے۔

فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

Post a Comment

0 Comments