امام احمد رضا سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ آپ کے فتاویٰ اور تحقیقات کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ اہل علم پر پوشیدہ نہیں ہے۔ آپ جب کسی مسئلے پر قلم اٹھاتے تو اس کا حق ادا کر دیتے تھے۔ اپنے فتاویٰ میں قرآنی آیات، احادیث مقدسہ اور فقہی جزئیات کی جس بہتات کے ساتھ آپ نے مسائل کی تنقیح فرمائی ہیں اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔
ذیل میں آپ ہی کے ایک رسالہ"تنویر القندیل فی اوصاف المندیل "کا خلاصہ پیش کرنے کی سعئ حقیر کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اس میں صرف نفس مسئلہ کی تلخیص کی کوشش کی گئی ہے جبکہ دیگر ابحاث سے قلم انداز کیا گیا ہے۔
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کہتا ہے کہ بعد وضو منہ کپڑے سے پونچھنا نہیں چاہیے اس میں ثواب وضو کا جاتا رہتا ہے بینوا توجروا۔
الجواب:
بسم اللہ الرحمن الرحیم, الحمد للہ الذی ثقل میزاننا بالوضوء و جعلنا غرا محجلین من آثار الوضوء و الصلوۃ و السلام علی من کان مندیل سعدہ أحسن و أنفس من کل حریر ماسحین بقبولہ عن وجوھنا و قلوبنا درن وسخ للتنویر۔
اللہ تبارک و تعالٰی ثواب عنایت فرمائے, وضو کا ثواب جاتا رہنا بے بنیاد ہے, اس کی کوئی اصل نہیں۔ ہاں چونکہ یہ امیروں اور مغرور لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے اس لیے اس کا عادی نہ ہو, اور اگر کبھی پونچھے تو بلا ضرورت بالکل خشک نہ کردے بلکہ کچھ تری باقی رہنے دے کہ احادیث میں آیا ہے کہ بروز قیامت وضو کی تری کو میزان عمل میں وزن کیا جائے گا۔
(۱) امام ترمذی حضرت امام ابن شہاب زہری سے راوی"ان الوضوء یوزن "یعنی بلاشبہ وضو کی تری وزن کی جائے گی۔ (جامع الترمذی, ابواب الطہارۃ, باب ما جاء فی المندیل بعد الوضوء, جلد اول, ص:۹, مجلس برکات)
(۲) مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" ھو یوزن"(مصنف ابن ابی شیبہ, ابواب الطہارۃ, باب من کرہ المندیل, جلد اول, ص:۱۳۹, دار الکتب العلمیہ)
(۳) تمام و ابن عساکر حضرت ابو ہریرەؓ سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "من توضأ فمسح بثوب نظیف فلا بأس بہ و من لم یفعل فھو أفضل لان الوضوء یوزن یوم القیامۃ مع سائر الاعمال (کنز العمال بحوالۂ تمام و ابن عساکر, حدیث:۲۶۱۳۹)
ترجمہ:جو وضو کرے اور پاک کپڑے سے جسم کو پونچھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں, اور جو نہ کرے تو یہ افضل ہے اس لیے کہ قیامت کے دن باقی اعمال کے ساتھ وضو کی تری کو بھی وزن کیا جائے گا۔
ان احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ وضو کے بعد رومال وغیرہ کا استعمال نہ کرنا صرف مستحب و افضل ہے, اس سے ہرگز استعمال کی کراہت لازم نہیں آتی کیونکہ مستحب کا ترک کبھی بھی کراہت کا موجب نہیں۔
بلکہ مکروہ ہونا تو درکنار خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث میں اس کا فعل وارد ہے۔
(۱) جامع ترمذی میں حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی کے آپ فرماتی ہیں" کان لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرقۃ یتنشف بھا بعد الوضوء"( جامع ترمذی، ابواب الطھارۃ،باب ما جاء فی المندیل بعد الوضوء،جلد اول،ص:۹،مجلس برکات)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کپڑا تھا جس سے آپ وضو کے بعد اپنے جسم مبارک کو پونچھا کرتے تھے۔
![]() |
خلاصۂ"تنویر القندیل فی اوصاف المندیل |
(۲) یہی محدث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے راوی کہ آپ فرماتے ہیں" رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا توضأ مسح وجھہ بطرف ثوبہ"(حوالۂ سابق از جامع ترمذی)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ جب آپ وضو سے فارغ ہوتے تو اپنے مبارک کرتا کے کنارے سے اپنے چہرے کو پونچھ لیتے۔
(۳) ابن ماجہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں" ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توضأ فقلب جبۃ صوف کانت علیہ فمسح بھا وجھہ"(سنن ابن ماجہ،ابواب الطھارۃ،باب ما جاء فی المندیل بعد الوضوء،ص:۳۶،المکتبۃ الاشرفیۃ دیوبند)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا پھر اونی کرتا جو آپ زیب تن فرمائے ہوئے تھے اس سے اپنے چہرے کو صاف فرما لیا۔
یہ احادیث اگرچہ ضعیف ہیں لیکن تعدد طرق سے اس ضعف کا انجبار ہو جاتا ہے نیز حلیہ میں ہے کہ جب حدیث ضعیف فضائل میں بالاجماع مقبول ہے تو اباحت میں بدرجہ اولیٰ مقبول ہوگی۔
مزید برآں یہ کہ امام ابو المحاسن محمد بن علی رحمتہ اللہ علیہ کتاب الالمام فی آداب دخول الحمام میں سند حسن کے ساتھ ایک حدیث قولی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"لا بأس بالمندیل بعد الوضوء"امام موصوف اس حدیث کو تحریر فرماکر لکھتے ہیں:ھذا الاسناد لا بأس بہ۔(کتاب الالمام فی آداب دخول الحمام)
اس حدیث حسن سے سابقہ احادیث کو بے پناہ تقویت ملتی ہے اور یہ واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے کہ وضو یا غسل کے بعد رومال وغیرہ کا استعمال اصلا مکروہ نہیں۔ جن حضرات کو کراہت کا وہم ہوا ہے وہ اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں جس کی تخریج شیخین نے کی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام جب غسل سے فارغ ہوئے تو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ایک کپڑا پیش کیا تو آپ نے اسے قبول نہ فرمایا اور اپنے دست مبارک سے جسم اقدس کو پونچھ پونچھ کرجھاڑ لیا۔(صحیح البخاری،کتاب الغسل،باب من أفرغ بیمینہ_صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب صفۃ غسل الجنابۃ)
در حقیقت دیکھا جائے تو اس روایت سے کسی طرح بھی کراہت ثابت نہیں ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک معین واقعہ ہے، اس کا حکم عام نہیں ہو سکتا ہے۔شارحین حدیث نے اس کے اور بھی کئی جوابات رقم فرمائے ہیں۔
دیگر وجوہات
(۱) امام نووی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ کپڑا میلا تھا اس لیے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ فرمایا(مصنف علیہ الرحمہ نے اس توجیہ کو ناپسند فرمایا ہے،کیونکہ یہ بعید ہے کہ ام المومنین نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال نظافت کو جانتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے میلے کپڑے کا انتخاب کیا ہو)
(۲) یہی امام نووی دوسری توجیہ بیان فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے نماز کی جلدی تھی اسی لیے قبول نہ فرمایا۔
(۳)نیز تیسری وجہ بیان فرماتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ اپنے رب کے حضور تواضع کی غرض سے نہ لیا ہو۔
(۴)حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے وقت گرم ہو اور ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے نہ لیا ہو۔
بلکہ اگر آپ غور کریں تو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا کپڑا پیش کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم وضو اور غسل کے بعد کپڑا استعمال فرماتے تھے لیکن اس وقت کسی خاص وجہ کی بنا پر قبول نہیں فرمایا۔ نیز نفس حدیث میں مذکور ہے کہ آپ نے ہاتھ سے جھاڑ لیا اورکپڑا اور ہاتھ سے پونچھنے میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ دونوں ہی جسم سے تری کو دور کرنے کا کام کرتے ہیں۔(یہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ تفصیل بیان فرمائی ہے،اسے رسالۂ ھذا میں دیکھنا مناسب ہے)۔
اس سلسلے میں سب سے احسن تاویل حدیث وہ ہے جو امام اجل حضرت ابراہیم نخعی استاد امام اعظم نے بیان فرمائی ہے کہ سلف کرام کپڑے سے پونچھنے میں حرج نہیں جانتے تھے مگر اس کی عادت ڈالنا پسند نہ فرماتے تھے کہ یہ باب ترفہ و تنعم سے ہے۔(سنن ابوداؤد، کتاب الطھارۃ، باب فی الغسل من الجنابۃ,۳۳/۱)
حاصل کلام:
بالجملہ ان تمام اقتباسات کا حاصل یہ ہے کہ وضو یا غسل کے بعد کپڑا استعمال کرنے میں اصلا کوئی کراہت نہیں ہاں اس کی عادت نہ بنائے اور کبھی پونچھے تو کچھ نمی باقی رہنے دے کہ یہ افضل ہے۔
چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے"لا بأس للمتوضی و المغتسل بالمندیل،روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم أنہ کان یفعل ذلک و منھم من کرہ ذلک و منھم من کرہ للمتوضی دون المغتسل و الصحیح ما قلنا الا أنہ ینبغی ان لا یبالغ و لا یستقصی فیبقی أثر الوضوء علی أعضائہ"(رد المحتار بحوالۂ خانیہ، کتاب الطھارۃ )
ترجمہ: وضو کرنے والے اور غسل کرنے والے کے لئے بعد فراغت رومال سے پونچھ لینے میں کوئی حرج نہیں، مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے، کچھ فقہائے کرام اس کو مکروہ جانتے ہیں اور کچھ حضرات صرف متوضی کے لئے کراہت کے قائل ہیں مگر صحیح وہی ہے جو ہم نے پہلے کہا لیکن مناسب ہے کہ اس میں مبالغہ نہ کرے تاکہ اعضاء پر وضو کا اثر باقی رہے۔
حلیہ میں ہے"وکذا وقع ذکر التنشیف بلفظ"لا بأس"فی خزانۃ الأکمل و غیرہ و عزاہ فی الخلاصۃ الی الأصل بھذا اللفظ ایضا"(ردالمحتار بحوالۂ حلیہ، کتاب الطھارۃ )
ترجمہ:خزانۃ الاکمل وغیرہ میں تنشیف کا ذکر لفظ لا باس کے ساتھ آیا ہے، خلاصہ میں اسی لفظ کے ساتھ اس کو اصل(مبسوط) کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے۔
یہاں تک جواب کا خلاصہ مکمل ہوگیا ۔ اب سرکار اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی نے تنبیہ کے عنوان سے جو ایک فائدہ عظیمہ ذکر فرمایا ہے اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
تنبیہ:
علمائے کرام میں مشہور ہے کہ اپنے دامن اور آنچل سے بدن نہیں پونچھنا چاہیے اور اسے بعض سلف کرام سے نقل کرتے ہیں۔
لمعات باب الغسل میں ہے "الأولی أن لا ینشف بذیلہ و طرف ثوبہ و نحوھما و حکی ذلک عن بعض السلف"(لمعات التنقیح،کتاب الطھارۃ، باب الغسل)
ترجمہ:اولی یہ ہے کہ کوئی دامن اور کپڑے کے کنارے وغیرہ سے اپنے بدن کو نہ پونچھے اور یہ بات بعض سلف کرام سے نقل کی گئی ہے۔
رد المحتار میں تو اس کو نسیان کا موجب قرار دیا گیا ہے، چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں"زاد بعضھم مما یورث النسیان اشیاء منھا مسح وجھہ أو یدیہ بذیلہ و لسیدی عبد الغنی رسالۃ فیھا"(رد المحتار،کتاب الطھارۃ، فصل فی البئر)
ترجمہ: بعض حضرات نے مزید کچھ نسیان پیدا کرنے والی چیزیں بیان کی ہیں انہی میں سے دامن سے چہرہ یا ہاتھوں کا پونچھنا بھی ہے اور اس عنوان پر سیدی عبدالغنی نابلسی کا ایک رسالہ بھی ہے۔
لیکن اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں کر غیر اولی اور مورث نسیان ہو سکتا ہے جبکہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں عمل موجود ہے جیسا کہ ما سبق میں احادیث گزریں؟
اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جو لکھا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ یہ محض اہل تجربہ کی ارشادی باتیں ہیں اور ترمذی و ابن ماجہ سے احادیث مذکور ہوئیں جن میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل اس کے خلاف وارد ہے لہذا شرعا اس کی کوئی ممانعت نہیں ۔مگر کیونکہ یہ احادیث ضعیف ہیں اور ارباب علم کے درمیان اس سے اجتناب کا اولی ہونا مشہور ہے لہذا احتراز بہتر ہے۔
(رسالۂ ھذا، پیشکش: مجلس آئی ٹی، دعوت اسلامی- فتاوی رضویہ، جلد اول،از ص:313 تا 335، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
از محمد سرور عالم اشرفی،اتر دیناجپور
متعلم:الجامعۃ الاشرفیہ،مبارکپور
پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی
0 Comments