میڈیا :وقت کی اہم ضرورت

دور حاضر الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔جو اپنے کارکردگیوں اور ہمہ گیر و طلسماتی اثرات کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے اور اس کی حیثیت موجودہ ذرائع ابلاغ میں ویسے ہی ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔

ویسے تو ہر ملک اور ریاست کے لیے یہ ناگزیر اور انتہائی ضرورت و اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر جمہوری ملک میں اس کا تقاضا کہیں زیادہ ہوتا ہے۔صحیح معنوں میں جمہوری ڈھانچہ کے استحکام و تحفظ اور اس کے حسن کے بقا و نکھار میں اس کا اہم رول رہتا ہے،اسی لیے اسے سیکولر ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔

میڈیا کی طاقت و اثر انگیزی محتاج بیان نہیں۔ملک و بیرون ملک,ارباب اقتدار و منصب اور عوام الناس؛ہر ایک تک اس کی رسائی ہوتی ہے اور وہ اس سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں۔ایسے میں کسی بھی خبر و مسئلہ کو آناً فاناً کائنات وسعتوں اور بحر و کے گوشوں تک پہنچا دینا,ایک معمولی بات ہے اور اس کی مدد سے کم سے کم وقت کے اندر کیسے کیسے خدمات انجام دیے جاسکتے ہیں اور انقلابات و تبدیلیوں کی لہر دوڑائ جاسکتی ہے,اہل علم و نظر پر محفی نہیں۔

حق گوئی،انصاف پسندی,امانت و دیانت داری,آزادی و غیر جانبداری اور مذہبی و نسلی عصبیت سے بالاتر ہونا اس کے بنیادی عناصر ہیں۔حقائق و واقعات کی روشنی میں ملک و حکومت کی صحیح تصویر پیش کرنا اور ارباب حکومت اور عوام کی سچی نمائندگی کرنا۔مظلوم کی آواز اٹھانا اور ظلم و ظالم کی مخالفت کرنا اس کی ذمہ داری اور شیوہ ہوتے ہیں۔

میڈیا :وقت کی اہم ضرورت
میڈیا :وقت کی اہم ضرورت


بلاشبہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی,قانون کی بالا دستی,امن و امان کے قیام و بحالی اور ہم وطنوں کے درمیان بقاے باہم میں میڈیا کا اہم کردار رہتا ہے لیکن اگر یہی میڈیا اپنے فرائض منصبی کو پس پشت ڈال دے۔اخلاقی اقدار و روایات اور عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیرنے لگے۔کسی کی کاسہ لیسی اور جانب داری و مذہبی عصبیت کا شکار ہوجائے اور اپنی طاقت کا غلط استعمال کرے تو ملک و ملت کے لیے خطرناک بلکہ زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے ایسے سیاہ کارنامے رونما ہوسکتے ہیں جن کا ایک عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔

آج یہی حال اکثر سرکردہ بھارتی میڈیا کا ہے۔جو  مستقبل کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔ان کے رویوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے ضمیر کا سودا کر چکے ہیں اور اپنے آقاؤں کی نمک حلالی کرنے کے لیے اپنے منصب کا استعمال کرتے ہیں۔گاہے بگاہے مذہبیت کے خمار میں بدمست ہوکر اپنی زبان و بیان سے ایسا زہر اگلتے ہیں جو  ہر ایک کے ذہن و دماغ میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے۔جس سے فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے اور اکثریتی طبقے کے اندر غلط فہمی,نفرت و عداوت اور عصبیت و تنفر کے مہلک اثرات پنپنے لگتے ہیں۔مذہبی واقعات و مسائل کو اس رنگ و ڈھنگ میں بیان کیا جاتا ہے کہ خود مسلمانوں میں دوسرے مسلمانوں کے متعلق غلط فہمیاں جنم لینے لگتی ہیں۔

اصل مسائل اور حکومت مطلق العنانیت و ناکامیوں پر پردہ ڈال کر غیر ضروری اور متنازع و مذہبی معاملات کے نشر و تشہیر میں پوری توانائی صرف کی جاتی ہے۔

مسئلہ طلاق ثلاثہ کا ہو یا بابری مسجد کا۔سی اے اے, این آر سی جیسے کالا قانون کا قضیہ ہو یا حجاب کا۔لاؤڈ اسپیکر کا معاملہ ہو یا غیر قانونی انہدامی کار روائ کا۔یا گیان واپی مسجد کا۔ہر محاذ پر   گودی میڈیا نےجانب دارانہ اور بھیانک رول ادا کرتے ہوئے اسلام و مسلم دشمنی  کا کھلا ثبوت دیا ہے۔

 آگے اور دیکھیے: دہلی کے جہانگیر پوری میں ایک ضعیفہ عورت کے گھر کو تہس نہس کردیا جو اسے گورنمنٹ کی طرف سے ملا تھا۔اسے سامان تک نکالنے کی مہلت نہیں ملی۔بلاشبہ یہ واقعہ ظلم کی بد ترین مثال ہے۔ میڈیا کو یہ چاہیے تھا کہ اس پس منظر میں حکومت کی زیادتی اور اس کے پیچھے اس کی نیت کو اجاگر کرتا مگر افسوس کہ سرسری طور پر بیان کر کے اسے نظر انداز کر دیا گیا۔صرف اس لیے کہ وہ ایک مسلمان تھی۔

اسی علاقے میں مذکورہ واقعہ سے قبل مذہبی کشیدگی کا مسئلہ سامنے آیا جیساکہ آپ جانتے ہیں۔اس کا سارا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑا۔ان کے صاف و شفاف دامن پر دنگائ کا دھبہ لگایا اور غیروں کو دودھ کا دھلا و منزل من السما ثابت کرنے کی کوشش کی۔

ابھی گیان واپی مسجد میں شیولنگ نکلنے کے افواہ کو کس طرح مرچ مسالے لگا کر، گلا پھاڑ پھاڑ کر بیان کیا,آپ بخوبی واقف ہیں۔

اس طرح کی بےشمار مثالیں آپ کو  مل جائیں گی۔یہ وہ افسوس ناک حقائق ہیں جن سے مسلمان عموماً اور ارباب حل و عقد خصوصاً اچھی طرح آگاہ ہیں اور ان کی ضمیر و قوت احساس کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں مگر پھر بھی ان کے سروں پر سوار جمود کا عفریت اترنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہوئے کروڑوں کی تعداد کے باوجود ہمارے پاس کوئی میڈیا پلیٹ فارم نہیں,ملکی سطح پر کوئی نیوز چینل نہیں!جبکہ یہ وقت کا تقاضا اور حالات کی پکار ہے,ہماری ضروریات سے ہے، ہم کب تک دوسرے کی بیساکھی کے سہارے جئیں گے؟ خیر! اب بھی مسلمانوں کے پاس وقت ہے کہ میڈیا کے جانب دارانہ رویے پر واویلا مچانے اور اسے ہدف تنقید بنانے کی بجائے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اس میدان میں آئیں۔ ارباب حل و عقد اس ضرورت کی تکمیل کے لیے کمر بستہ ہوں اور بڑے پیمانے پر ایک ایسے نیوز چینل کا آغاز کیا جائے جو ملک و ملت کا سچا ترجمان و حق کا علم بردار ہو۔بھارت کے ہر انصاف پسند و سیکولر مزاج کی آواز ہو,سسکتی مظلومیت کا بول ہو اور میڈیا کی دنیا کو پراگندہ کرنے والوں کے لیے آئینہ ہو تاکہ ہم ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اس جہت سے بھی سرگرم حصہ لے سکیں۔مسلمانوں کو اتحاد و یگانگت کے سلک گہر میں پرو سکیں اور ان کے رگوں میں سیاسی شعور و آگہی اور بیداری کا خون رواں کر سکیں۔احوال واقعہ کے پس منظر میں عوام الناس اور اقوام عالم کے سامنے وطن کا صحیح خد و خال اجاگر کرسکیں۔عالمی سطح تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ اور آئینی حکمرانی کو تقویت پہنچانے میں قابل قدر کردار ادا کر سکیں اور اسے شر پسند عناصر سے بچانے کی سعی بلیغ کی جاسکے۔پروپگنڈے کے سبب پھیلے غلط فہمیوں اور نفرت و عصبیت کی خلیج کو پاٹ کر اخوت و محبت اور مانوتہ کا ماحول سازگار اور اسے پروان چڑھا سکیں۔ مجاہدین جنگ آزادی کے خواب کے ہندوستان کو حقیقت کا لبادہ پہنانے میں تعاون کر سکیں۔

ہمارے پاس اس میدان کے قابل افراد و شہسواروں کی کمی ہے نہ سرمایہ داروں کی،کمی ہے تو بس فکر و عمل اور احساس کی۔بس ضرورت ہے کہ ارباب حل و عقد اپنی قومی و ملی حمیت و غیرت کو بیدار کرتے ہوئے اس اہم ضرورت کی تکمیل کے واسطے آگے آئیں۔احساس کمتری کے زنجیر سے خود کو آزاد کریں اور اصحاب دولت و ثروت بھی دست تعاون دراز کرتے ہوئے ملک و سماج کے تئیں اپنے درد کا ثبوت دیں۔

مذہبی اشرافیہ کو بھی چاہیے کہ اس طرف توجہ دیں۔یہی سب کی قومی مشرکہ ذمہ داری ہے۔اس کے لائحہ عمل تیار کریں۔یہ بھی دین کا ایک حصہ ہے۔مروجہ طریق کار سے ہٹ کر اسلامی حدود میں رہ کر بھی اس فریضے انجام دیا جا سکتا ہے۔احساس خفتہ کو جگائیں اور حرکت و عمل سمت چلیں۔

قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے

پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے.


پیشکش :محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی

استاذ : مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال

Post a Comment

0 Comments